محمد بن سلمان کی ولی عہدی …سعودی عرب میں بڑی تبدیلی

دنیا کی بڑی طاقتیں عالمی منظر نامے میں اس خاندانی سیاست کو کس طرح استعمال کرتی رہی ہیں؟ 


تزئین حسن July 02, 2017
مملکت جزیرۃ العرب اور دنیا کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،شاہی خاندان میں کس نوعیت کی سیاسی  کشمکش برپا ہے ، دنیا کی بڑی طاقتیں عالمی منظر نامے میں اس خاندانی سیاست کو کس طرح استعمال کرتی رہی ہیں؟  ۔ فوٹو : فائل

اس کی شادی 13 سال کی عمر میں اپنے فرسٹ کزن سے ہوئی تھی۔ وہ اپنے شوہر کی آٹھویں بیوی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ یہ ظلم کی کسی داستان کا آغاز ہے نہ کسی ناکام شادی کا قصہ۔ یہ دنیا کی کامیاب ترین شادیوں میں سے ایک شادی تھی جس نے بلاشبہ مسلم دنیا کے اہم ترین ملک کو دو بادشاہ، چار ولی عہد، ان گنت گورنرز اور وزراء دئیے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پہلی شادی کے سات سال بعد1920ء میں اس نے اپنے دوسرے شوہر سے طلاق لے کر اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کر لی۔

اس شادی نے سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز کو ایک نہ دو، آٹھ بیٹے دئیے۔ شہزادہ عبداللہ، شاہ فہد، شہزادہ سلطان، شہزادہ عبدالرحمن، شہزادہ نائف، شہزادہ ترکی، شاہ سلمان اور شہزادہ احمد۔ 1920ء میں اپنی دوسری شادی کے بعد سے1953ء میں عبدالعزیز کی موت تک وہ ان کی منکوحہ رہیں۔ جی ہاں! یہ شاہ فہد اور شاہ سلمان کی والدہ اورشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی منکوحہ حصہ بنت احمد السدیری کی بات ہو رہی ہے جن کے ایک پوتے 57 سالہ شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے سبکدوش کر کے دوسرے پوتے31 سالہ محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کیا گیا تو عالمی میڈیا میں ہلچل مچ گئی۔

سعودی میڈیا کے مطابق سعودی شہزادے محمد بن نائف کو ولی عہدی سے فارغ کر کے 31 سالہ ڈپٹی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو نیا ولی عہد مقرر کر دیا گیا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں جزیرۃالعرب ہی کی نہیں عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے والی اس اہم خبر کو چوبیس گھنٹوں سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پچھلے سوا دو سال میں دوسری مرتبہ ہے کہ سعودی تخت کی جانشینی میں تبدیلی کی گئی ہے۔

یہ بھی ایک غیر معمولی امر رہا ہے کہ اس سے قبل ولی عہدی، شاہی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں تک ہی محدود رہی تھی مگر 2015ء میں شاہ سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے دو مہینے بعد ہی ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہدی سے فارغ کر کے سلمان نے اپنے سگے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد اور محمد بن سلمان کو ڈپٹی ولی عہدنامزد کر دیا تھا جنھیں 'ایم بی ایس'( MBS) بھی کہا جاتا ہے۔ اور اب ایک بار پھر مملکت کی جانشینی میں تبدیلی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ٹرمپ ایم بی ایس کی سربراہی میں ایک مسلم نیٹو تشکیل دے رہے ہیں، سعودیہ نے مختلف ملکوں کے ساتھ مل کر خلیجی ملک قطر کا معاشی مقاطعہ کا اعلان کر دیا ہے۔ مملکت کے یہ حالیہ اقدامات عالمی میڈیا میں چہ مگویوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ 2015ء سے سعودی شاہی خاندان کے اندرونی معاملات میں غیر معمولی امریکی اثر رسوخ کا اشارہ دے رہے ہیں جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ جانشینی کی ان پے درپے تبدیلیوں کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں ا ور یہ مملکت جزیرۃ العرب اور دنیا کے مستقبل پر کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ شاہی خاندان کے اندر کس نوعیت کی سیاسی کشمکش برپا ہے اور دنیا کی بڑی طاقتیں عالمی منظر نامے میں اس خاندانی سیاست کو کس طرح استعمال کر سکتی ہیں؟ اور مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر یہ تبدیلی کیسے اثر انداز ہوسکتی ہے؟ یاد رہے کہ مارچ2015 ء میں جانشینی کی تبدیلی سے قبل یمن کی جنگ کا آغاز ہوا اور جون2017ء کی تبدیلی سے قبل قطر کا معاشی اور سفارتی مقاطعہ۔ خطے کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والے ان دو اہم ترین واقعات کا سعودی جانشینی سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس سے زیادہ اہم یہ سوال کہ کیا جانشینی کی ان تبدیلیوں میں امریکی اثر رسوخ بھی شامل ہے اور اگر ہے تو اس کے کیا ثبوت ہیں؟ کسی بھی سیاسی تجزیہ سے پہلے اس جغرافیائی خطے کا تاریخی پس منظر، شاہی خاندان کی سیاست اور امریکا سے مملکت کے روابط کا جائزہ باریک بینی سے لینا بہت ضروری ہے۔

حصہ السدیری نامی اس خوش قسمت خاتون کے یہ سات بیٹے جو سدیری برادران بھی کہلاتے ہیں، میں سے اب دو بقیدحیات ہیں۔ اپنی تعداد، سیاسی بصیرت اور ملکی معاملات کو سنبھالنے کی اہلیت و تربیت کی وجہ سے شاہی خاندان کا بااثر اور طاقتورترین جتھا مانے جاتے تھے اور اب ان کے متعدد پوتے بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔The Binladens: An Arabian Family in The American Century نامی کتاب کے مصنف اسٹیو کول کے مطابق تمام سدیری برادران اپنی لبرل سوچ ، پر تعیش لائف سٹائل اور امریکا کی طرف جھکاؤ کے باعث جانے جاتے ہیں۔

اسٹیوکول یہ بھی لکھتا ہے کہ اپنے پیشرو شاہ فیصل اور شاہ خالد کے مقابلے میں شاہ فہد (جو سدیری برادران میں سب سے بڑے تھے) کا رویہ شروع ہی سے امریکا کے لئے بہت لچکدار تھا اور امریکا نے بھی مستقبل کے دیرینہ پارٹنر کے طور پر( ان کی بادشا ہت سے بہت پہلے )ان سے تعلقات کو مضبوط کیا۔ اس سلسلے میں 1969ء میں امریکا کے ایک خصوصی دورے میں صدر نکسن سے ان کی ذاتی ملاقات کرائی گئی ، پینٹاگون نے انہیں نیشنل ایروناٹکس اور اسپیس ایڈمنسٹریشن کا خصوصی پرائیویٹ دورہ کروایا۔ یاد رہے کہ یہ شاہ فیصل کا دور تھا اور شاہ خالد اس وقت ولی عہد تھے۔ سرکاری پروٹوکول کے مطابق امریکی صدر کسی''ممکنہ'' سربراہ مملکت سے نہیں ملتا چاہے وہ کتنا ہی با اثر کیوں نہ ہو۔

خلیج کی پہلی جنگ کے دوران جب امریکی فوجیں عراق کے خلاف کاروائیاں کرنے میں مصروف تھیں، سدیری خاندان سے تعلق رکھنے والے پہلے بادشاہ شاہ فہد کی لیڈی ڈیانا کے ساتھ تصویر بہت سے قارئین کو یاد ہوگی جس میں وہ برطانوی ولی عہد کی شریک حیات کو ہیروں کا سیٹ پیش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے حالیہ سعودی وزٹ میں ان کی بیٹی اوانکا کی خواتین کے حقوق کی تنظیم کے لئے سو ملین ڈالر کا تحفہ بھی سدیری برادران کی لبرل اور ترقی پسند سوچ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ بیٹوں سے قبل حسا السدیری کے متعدد بھائی مملکت کے مختلف صوبوں کے گورنر رہے۔ اس طرح انہیں مملکت کی طاقتور ترین خاتون گردانا جاتا ہے۔ آج ان کی تیسری نسل مملکت کے سیاہ اور سفید کی مالک ہے۔ خاندانی روایات کے مطابق انہوں نے بذات خود اپنے بیٹوں کی سیاسی تربیت میں دلچسپی لی اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کی تاکید کی۔

ان کے بیٹوں میں شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز جو شاہ عبدللہ کے ولی عہد بھی رہے وزیر دفاع کے عہدے پر فائز رہے، معزول ہونے والے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کے والد جو خود بھی سابق ولی عہد رہے، پورے 37سال وزیر داخلہ رہے،1980ء کے حج کے بعد حرم مکّی پر بنیاد پرستوں کے قبضے کے وقت نائف ہی وزیر داخلہ تھے۔

ان کے دور میں کویت پر عراقی قبضے اور پہلی خلیجی جنگ کے بعد القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے بھی بہت سختی سے نمٹا گیا۔ 2012ء میں ان کی وفات کے بعد سے سابق ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف ہی وزارت داخلہ تھے جنھیں اس عہدے سے بھی سبکدوش کر دیا گیا۔ ان کے ایک بھائی2011ء کی عرب بہار کے دوران شرقیہ صوبے کے گورنر کے طور پر احتجاج کرنے والی شیعہ آبادی سے سختی سے نمٹے۔ گزشتہ سال ان احتجاجی لوگوں میں سے کچھ کو موت کی سزائیں بھی دی گئیں جن کے خلاف مغربی میڈیا میں سافٹ رد عمل سامنے آیاحالانکہ بہ حیثیت مجموعی سعودیہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مغرب چپ ہی سادھے رکھتا ہے۔2015ء میں شہزادہ محمد بن نائف کی ولی عہدی بھی غیر متوقع تھی مگر مغربی ذرائع ابلاغ بہت پہلے اس کی پیش گوئی کر چکے تھے۔

یاد رہے کہ محمد بن سلمان جو مغرب میں 'ایم بی ایس' کے نام سے جانے جاتے ہیں ،سے پہلے محمد بن نائف بھی امریکا کے چہیتے تھے۔ انھوں نے وزارت داخلہ جوائن کرنے سے پہلے با قاعدہ امریکی خفیہ ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن( ایف بی آئی) اور اسکاٹ لینڈ یارڈسے تربیت حاصل کی تھی۔'ایم بی ایس' بھی اپنے پیش رو کی طرح مارچ میں ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو عالمی تجزیہ نگار قطر کے مقاطعہ سے جوڑ رہے ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ نے قطر کے مقاطعہ کو ٹرمپفیکیشن (TRUMPIFICATION ) کا نام دیا ہے اور برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق یہ ٹرمپ ہی کے ہی اشارے پر ہو رہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 2015ء میں شاہ سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وائٹ ہاؤس کا عمل دخل شاہی خاندان کے اندرونی معاملات میں بہت بڑھ گیا ہے۔

نئے ولی عہد محمد بن سلمان دنیا کے سب سے کم عمر وزیر دفاع ہونے کے ساتھ ساتھ اکانومک اینڈ ڈویلپمنٹ کونسل کی سربراہی بھی کر رہے ہیں، یمن کے خلاف آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کی قیادت بھی اور 'ویڑن 2030 'کے خالق بھی مانے جاتے ہیں جس کے مطابق سعودی معیشت تیل پر اپنا انحصار ختم کر دے گی۔ اس کے علاوہ بھی سلطنت کے متعدد اہم اداروں کی سربراہی اور اب ولی عہد کے طور پر جانشینی سے وہ بلا شبہ مملکت کے طاقتور ترین فرد گردانے جا رہے ہیں۔ ایک ہی شخصیت میں طاقت کا یہ ارتکاز مملکت میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے ورنہ مملکت کے قیام سے لے کر شاہ عبدالعزیز کے مختلف بیٹے مل کر ملک کا انتظام سنبھالتے رہی تھے۔نئے ولی عہد کے حامی ان کو تبدیلی کے ایک چیمپین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم بی ایس بڑے پیمانے پر سعودیہ کی روایتی معیشت کو لبرلائز کر رہے ہیں۔ سعودی حکومت کی روایتی مذہبی پالیسیوں کے حوالے سے بھی ان کی سوچ اپنے پیش روؤں سے بہت مختلف ہے۔ رواں سال واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد بن سلمان مملکت کی روایتی مذہبی پالیسی پر افسوس کرتے ہوے نظر آئے۔ توقع ہے کہ وہ مملکت کی ثقافتی منظر نامے کو بھی لبرلائز کریں گے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سیاسی تجزیہ کاروں کے لئے یہ تبدیلی غیر متوقع نہیں تھی لیکن یہ شاہ عبدالعزیز کے بعد مملکت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ باپ نے بیٹے کو ولی عہد نامزد کیا ہو۔ اس سے قبل عبدالعزیز ہی کے بنائی ہوئے اصولوں کے مطابق جانشینی باپ سے بیٹوں کو نہیں بڑے بھائی سے چھوٹے بھائی کو منتقل ہوتی تھی۔ مغربی میڈیا میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب سے شاہ سلمان نے اپنے بیٹے کونائب ولی عہد نامزد کیا تھا ،خطے میں سعودیہ کا کردار غیرمعمولی طور پر جارحانہ ہو گیا ہے۔ ا یم بی ایس کو یمن میں سعودی مداخلت کا آرکیٹیکٹ بھی کہا جاتا ہے اور ایران کے معاملے پر بھی ان کا رویہ بہت غیر لچکدار اور سخت ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی بات چیت اور افہام و تفہیم کے خلاف ہیں۔ یہ قطر کے مقاطعہ کے بھی سب سے بڑے حامی ہیں۔

بروکنگ انسٹی ٹیوشن اور مڈل ایسٹ آئی نامی تھنک ٹینکس کے مطابق شاہ عبدللہ کی وفات کے بعد توقع یہ تھی کہ باپ بیٹے کا یہگٹھ جوڑ سنی مسلم اتحاد کو مضبوط کرے گا لیکن سعودی حکومت کے موجودہ اقدامات مسلم دنیا میں مزید تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب محمد بن سلمان کی قیادت میں قطر کے خلاف متعدد ملکوں کا اتحاد بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن ترکی اور ایران کھل کر قطر کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ پاکستان اور عمان نے غیر جانبداری کا اعلان کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

مملکت سعودیہ کے مغرب سے روابط کا تاریخی پس منظر
سعودی مملکت کو مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے مضبوط عرب اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مملکت سعودیہ کی امریکا سے پارٹنرشپ کب شروع ہوئی؟ اور وہ پچھلے سو سال میں کس طرح آگے بڑھی؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

سن 1902ء میں ابن سعود کے نام سے معروف مملکت کے بانی نے ریاض شہر پر قبضے سے اپنی تیس سالہ فتوحات کا آغاز کیا جس میں 52 قبائلی جنگوں کے دوران یمن، اومان، بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات کو چھوڑ کر پورے جزیرہ نما عرب میں سعودی مملکت قائم کی۔ آج ہم سب سعودی امریکی پارٹنرشپ سے واقف ہیں لیکن ریاض پر قبضے کے آٹھ سال بعد تک ابن سعود کو کسی مغربی فرد سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ 'سعودی آرامکو ورلڈ' نامی جریدے کے مضمونThe Captain and the King کے مطابق انڈیا آفس کا ولیم ہینری ارون شیکسپئیر وہ پہلا شخص تھا ۔

جس نے مارچ1910ء میں ابن سعود سے ملاقات کی۔ اردو، فارسی، عربی اور پشتو روانی سے بولنے والا یہ مہم جو برٹش فارن آفس کا ملازم تھا جسے 1909ء میں کویت کا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ خلیج فارس کے بہت سے علاقے اُس وقت خلافت عثمانیہ کے زیر حکومت تھے اور برطانوی حکومت ان کے عملی تعاون کی خواہشمند تھی۔ دوسری طرف آل سعود طویل عرصے کی جلا وطنی کے بعد ریاض کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور عرب کے دوسرے خطوں میں قدم جمانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ بحر ایڈریاٹک سے لے کر بحر کیسپین تک پھیلی ہوئی خلافت عثمانیہ اب کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ برطانیہ، فرانس، روس اور جرمنی مستقبل کے کسی سیاسی خلاء کو پر کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ مضمون کے مطابق شکسپئیر وہ پہلا فرد تھا جس نے1914 میں ابن سعود کی تصویربنائی۔ اس سے قبل ابن سعود نے کیمرہ نہیں دیکھا تھا۔

اسی دوران میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو برٹش فارن آفس نے ولیم شکسپئیر کو عراق کے محاذ کے لئے آل سعود کی حمایت حاصل کرنے کا کام سونپا۔ آل سعود اس وقت موجودہ سعودی صوبے حائل کے راشدین سے جنگ میں مصروف تھے جو خلافت عثمانیہ کے اتحادی تھے۔ اپنے عروج کے ادوار میں راشدین موجودہ ریاض، قسیم، حائل اور شمالی صوبوں عرعر، جوف اور تبوک پرتسلط رکھتے تھے۔ ماضی قریب میں دو مرتبہ (سن 1865 ء اور1890ء) میں راشدین نے آل سعود کو ریاض سے نکال باہر کیا تھا ۔ آل سعود کو کویت میں پناہ لینی پر تھی لیکن 1902ء میں آل سعود نے ریاض دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔ ولیم شکسپئیر اپنے کیمرے کے ذریعہ اس جنگ کی تصویر کشی کرتے ہوے1915ء میں مارا گیا اور اسے اس برطانوی مشن کو پورا کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔

تین سعودی ادوار کی مختصر تاریخ
سن 1922 میں آل سعود نجد کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ،1923ء میں راشدین کو شکست دی اور 1926ء میں شریف مکّہ کو شکست دے کر مکّہ اور مدینہ سمیت حجاز کا کنٹرول حاصل کر کے 1932ء میں سعودی مملکت کا قیام عمل میں لائے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم یہ بھی بتا دیں کہ یہ تیسری سعودی مملکت تھی۔ پہلی سعودی اسٹیٹ 1744ء میں محمد ابن سعود اور سنی اسکالر محمد بن عبد الوہاب کے اتحاد کے نتیجے میں وجود میں آئی جنہوں نے ساٹھ سال کے قلیل عرصے میں 1803ء میں مکّہ مدینہ تک پر کنٹرول حاصل کیا تھا۔ بعد ازاں1810ء میں عثمانوی فوجوں نے مصر سے حملہ کر کے انہیں اقتدار سے باہرکیا۔1890ء میں دوسری سعودی اسٹیٹ کو بھی راشدین جنھیں عثمانوی حمایت حاصل تھی نے ختم کر دیا جس کے بعد آل سعود نے پہلے قطر اور پھر کویت میں پناہ لی۔

سر جان فلبی اور پہلی سعودی امریکی ڈیل
شاہ عبدالعزیز کا ایک برطانوی دوست کیمبرج کا پڑھا ہوا جان فلبی تھا جو شکسپئیر ہی کی طرح ایک مہم جو اور برطانوی انڈیا آفس کا ملازم تھا ، وہ عراق میں تعینات تھا مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد1920ء کے عشرے میں اسلام قبول کرنے کے بعد عبدالعزیز کا مشیر بن گیا اور30ء کے عشرے میں پہلے برطانیہ اور پھر امریکا سے تیل کے معاہدوں میں براہ راست شریک رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعدبرطانیہ میں سر ونسٹن چرچل برطانوی نیوی کے جہازوں کو کوئلے سے پیٹرول پر منتقل کر چکے تھے ، یوں برطانوی اور امریکی مشرق وسطیٰ میں تیل سونگھتے پھر رہے تھے۔

فلبی نے ہی تیل کی تلاش کا کنسیشن امریکا کی سوکول SOCOL نامی کمپنی کو دلایا جس سے ابن سعود کو پچاس ہزار برطانوی پاؤنڈ کے مساوی سونا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فلبی کو بھی SOCOL سے کثیر رقم حاصل ہوئی۔ یہ پہلی سعودی امریکی ڈیل تھی جو1933ء میں فائنل ہوئی اورArabian American Oil Company قائم ہوئی جو بعدازاں' آرامکو' کہلائی، جسے موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمانپرائیویٹائز کرنے جا رہے ہیں۔ 1938ء میں ابن سعود نے مملکت میں تیل کے ذخائر کا سرکاری طور پر افتتاح کیا ، اگرچہ عملی طور پر تیل دوسری جنگ عظیم کے بعد نکلنا شروع ہوا اور شاہی خاندان سونے میں کھیلنے لگاتھا۔

روزویلٹ ابن سعود ملاقات
امریکی ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے ریکارڈ کے مطابق1944ء میں ایک ٹاپ سیکرٹ کیبل پیغام کے ذریعہ صدر روزویلٹ کو بریف کیا گیا کہ تیل کا کنٹرول امریکی ہاتھوں میں آنے کے بعد مملکت کو سیف گارڈ کرنے کے لئے امریکی ایئر فیلڈز کا قیام ضروری ہو گیا ہے۔ فروری1945ء میں روزویلٹ نے بحر احمر میں موجود امریکی جنگی جہاز USS Quincy کے عرشے پر ابن سعود سے ملاقات کی۔

1982ء میں میکملمین پبلشرز کی چھپی ہوئی کتاب'ہاؤس آف سعود'(House of Saud ) جسے انگریزی زبان میں مملکت کی تاریخ پر پہلی تفصیلی کتاب کہا جاتا ہے، کے مطابق امریکی سفارت خانہ ابن سعود کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں طاقت بڑھنے کی دوائیں تکفراہم کرتا تھا۔ اسرائیل کے قیام سے پہلے سعود بن عبدالعزیز نے ولی عہد کے طور پر1947ء میں امریکا کا دورہ کیا اور صدر ہنری ٹرومین سے ملاقات میں ابن سعود کا پیغام پہنچایا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ان کے اس امریکی دورے کے بعد ہی سعودی کرنسی کو امریکی ڈالر سے لنک کیا گیا اور امریکی حکومت کے مشورے سے 1952 ء میں سعودی عربین مانیٹری ایجنسی (SAMA )کے نام سے ایک سنٹرل بینک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اہم ڈویلپمنٹ سے سعودی معیشت پر امریکی اثرو رسوخ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

شاہ سعود کی بادشاہی اور معزولی کا قصہ
عرب کے قبائلی نظام کے مطابق بڑا بیٹا قبیلے کا سربراہ ہوتا ہے اور وہی اپنے والد کا جانشین ہوتا ہے۔ اس طرح 1953ء میں طائف شہر میں ابن سعود کی وفات کے وقت ان کے سب سے بڑے بقید حیات بیٹے سعود بن عبدالعزیز کو ابن سعود کی انگوٹھی مستقبل کے شاہ فیصل نے اپنے ہاتھوں سے پہنائی حالانکہ اس وقت بھی عمومی رائے کے مطابق شاہ فیصل قیادت کے زیادہ اہل تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب جانشینی ابن سعود کے بیٹوں کو منتقل ہوئی۔

یہ اصول بھی ابن سعود ہی مقرر کر کے گئے تھے کہ بادشاہت بڑے بھائی سے چھوٹے بھائی کو منتقل ہو گی نہکہ باپ سے بیٹے کو۔ اس اصول کے تحت ان کے دوسرے بقید حیات بیٹے فیصل اپنے بھائی کے جانشین تھے۔نئے بادشاہ سعود بن عبدالعزیز بلا نوش تھے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ 1952ء تک سعودی مملکت میں شراب پر پابندی نہیں لگی تھی اور آل سعود کی ایک معقول تعداد شراب نوشی کرتی تھی۔ کتاب 'ہاؤس آف سعود' کے مطابق شراب پر پابندی ایک برٹش ڈپلومیٹ کے قتل کے بعد لگائی گئی جس کو ابن سعود کے ایک بیٹے نے شراب کے نشے میں گولی مار دی تھی۔

شاہ سعود اپنی شاہ خرچی اور عیاش فطرت کے باعث بہت جلد وہابی علماء میں غیر مقبول ہوگئے ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ مملکت کے پاس شاہی ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ تب اسامہ بن لادن کے والد محمد بن لادن نے 1964ء میں ملازمین کو تنخواہ دی تھی۔ یہی وہ سال تھا جب شاہ سعود کو علماء کی کونسل اور چند شہزادوں پر مشتمل ایک شوریٰ نے معزول کر کے ان کی جگہ ولی عہد اور وزیر اعظم شاہ فیصل کو تخت پر بٹھا دیا۔

شاہ فیصل کی پالیسیاں اوران کا قتل
شاہ فیصل امریکا سے کاروباری تعلقات کے باوجود پان اسلامزم کے پر جوش حمایتی تھے۔ وہی اسلامی ممالک کی تنظیم ( اوآئی سی) کا قیام عمل میں لائے جس کے اہم ترین مقاصد میں فلسطینیوں کی حمایت شامل تھا. اس کے ساتھ ساتھ وہ ماڈرنائیزشن اور ترقی کے بھی حامی تھی اور اینٹی کمیونسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی صیہونی ریاست کے بھی خلاف تھے۔

ان کے دور میں مملکت میں متعدد اعلیٰ تعلیمی اداروں کے علاوہ ٹی وی سٹیشن کا قیام بھی عمل میں لیا گیا۔ اگرچہ سعودی عرب کبھی اسرائیل کے خلاف کسی جنگ میں شریک نہ ہوا مگر 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران انھوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اس کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ ان کے اس اقدام سے تیل کی قیمتیں انٹرنیشنل مارکیٹ میں آسمان کو چھونے لگیں۔ عرب دنیا آج بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مغرب نے انھیں ایک سازش کے تحت ان کے امریکا پلٹ بھتیجے کے ہاتھوں قتل کرایا تاکہ آئندہ تیل کو اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال نہ کیا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں