من کی نگری خوشی کی تلاش میں

تھائی لینڈ کا سفر، جو کتنے ہی تجربات سے روشناس کرگیا


تھائی لینڈ کا سفر، جو کتنے ہی تجربات سے روشناس کرگیا ۔ فوٹو : فائل

کالم نما ڈائری یا مضمون نما دل نامہ لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو دل میں آتا ہے وہ کسی کاٹ چھانٹ کے بناحروف میں ڈھلتا جاتا ہے۔ نہ ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے نہ کسی خیال کے اہتمام کا سوچنا پڑتا ہے۔ بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور کاغذ و قلم سے رشتہ جڑا رہتا ہے۔ بس بات دل کی ہونی چاہیے۔ تبھی دلوں پر اثر کرتی ہے جب جہاں دل شامل حال نہیں ہوتا تو سب کچھ ہونے کے باوجود سب کچھ اوپری اوپری سا رہتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے کچھ ایسا ہی تجربہ رہا اور پانچ دن تک اوپری دل کے ساتھ ایک ایسے سفر میں وقت گزرا جس میں دل شامل نہیں تھا۔ بس ذہن کی ایک رو تھی کہ کچھ ماحول کو بدلا جائے، کچھ نیا دیکھنے اور سیکھنے کو ملے، اور کچھ وقت کی ایسی تنہائی ملے کہ نہ ٖفون کی گھنٹیاں بجیں نہ روٹین کے کام کرنے پڑیں۔ اور ایک نئے ملک نئے کلچر کی بابت جانا جاسکے جس کا پوری دنیا میں مخصوص حوالوں سے چرچا عام ہے۔

چوںکہ پلے سے کچھ خرچ بھی نہیں کرنا تھا، تو دل کے پوری طرح نہ چاہتے ہوئے بھی جب شکیل نے آکر بتایا کہ اس نے تھائی لینڈ کے پانچ روزہ TOURمیں میرا نام بھی ڈال دیا ہے تو میں نے حامی بھرلی۔ کئی کام آدھے دل سے کرنے پڑ جاتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب دل کی ڈائریکشن کچھ اور ہو اور سوچ کی کچھ اور اس معاملے میں اس بات کا اندازہ اس طرح ہوا کہ پہلے تو پاسپورٹ دینے میں نے پندرہ دن اور شکیل کے تین چار چکر لگوادیے۔ پھر بعد میں دو بار اسے فون بھی کیا کہ یار دل نہیں چاہ رہا، رہنے دو مگر اس کے اصرار نے چپ کروادیا۔

آخری دنوں میں تو دل نے Foul playکھیلنے پر بھی اکسایا کہ ویزہ لگ کر پاسپورٹ آجائے گا، تو عین وقت پر کوئی بہانہ کردیا جائے گا، لیکن شکیل اور خرم غالباً اس حوالے سے پہلے بھی کچھ ایسا ویسا faceکرچکے تھے تو آخری دن مجھے یہی کہا گیا کہ آپ کے ٹکٹ کی تصویر واٹس ایپ پر بھیجی جارہی ہے۔ وہ بھی آپ کے کہنے پر اگر ایئرپورٹ پر دکھانا پڑجائے، لیکن آپ کا پاسپورٹ اور کاغذی ٹکٹ آپ کے ہاتھ میں ایئرپورٹ پہنچنے پر ہی دیا جائے گا۔ سو ایسا ہی ہوا۔ چاہنے نہ چاہنے کے بیچ بنکاک اور پتایا کے شہر جانا پڑا۔

خوش گوار سفر کیے لیے بھرپور دل کے ساتھ ایک خاص عمر اور ماحول کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہم خیال و ہم مزاج ہم سفر کا ساتھ ہوتا ہے۔ موجودہ سفر میں چاروں عوامل ناپید تھے۔ دل عمر اور ماحول کے علاوہ گو کہ بظاہر گروپ میں دس بارہ ڈاکٹر حضرات شامل تھے، لیکن ان سب سے پہلی ملاقات ایئرپورٹ پر ہوئی اور ان میں سے کسی سے بھی مل کر ہم خیالی کے سگنلز نہیں ملے اور سفر کے پانچ دنوں میں Confirm بھی ہوگیا کہ کسی ہم سفر سے بھی وقتی یا مستقل ذہنی و جذباتی ہم آہنگی نہیں ہوسکتی۔ کسی فرد سے بھی پہلی بار ملاقات میں عام طور پر ابتدائی لمحات میں ہی ہمیںVIBES آنا شروع ہوجاتی ہیں کہ کسی بھی نوعیت کی فریکوئنسی Matching کے کتنے امکانات ہیں۔



تھائی لینڈ کے سفر میں ساتھی ڈاکٹرز سے نہ سفر سے پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ نہ کسی قسم کی شناسائی اور سفر کے بعد بھی کوئی بات یا رابطے کا امکان نہیں۔ دوران سفر ہی پتا چلا کہ دو کے سوا باقی سب ڈاکٹرز پہلے بھی کئی بار گروپ کی شکل میں کسی نہ
کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کی Sponsorship میں کئی بار مختلف ممالک کے تفریحی دورے کرچکے ہیں۔ یہ گروپ بھی شہر کے دس بارہ بڑے اور ممتاز جنرل پریکٹیشنرز کا تھا۔ جنرل فزیشن، ڈاکٹرز کا بادشاہ ہوتا ہے۔ اسے ہر طرح کے مرض اور بیماری میں معائنے علاج و مشورے کا بھرپور تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام طور پر کنسلٹنٹ یا اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ لہذا یہ خوبی اس کے مزاج کا حصّہ بنتی جاتی ہے اور وہ 25-30 سال کی پریکٹس کے بعد ہر معاملے میں خود کو ماسٹر آف آل سمجھنے لگتا ہے۔ دوران سفر میں بھی اتنے سارے بادشاہوں کے بیچ خود کو دبکا کر بیک بنچر کی طرح چل رہا تھا اور گروپ ممبران کی نفسیات اور شخصیت کو observeکررہا تھا۔

بچپن سے اب تک ان گنت سفر کرنے کے مواقع ملے، مگر یہ سفر کچھ ہٹ کے تھا۔ ایک تو اس میں دل شامل نہیں تھا پھرکسی مقصد کے بِِنا تھا، خالصPleasure Tripکا نام دیا گیا تھا اسے اور چوںکہ اس سے پہلے زندگی میں کبھی خالص Pleasurable Activity میں حصہ نہیں لیا تھا تو اس بار تجسّسںسا تھا کہ اس طرح کے تفریحی دورے میں کس کس طرح کی تفریح تجربے کا حصہ بنتی ہے اور کیسا Pleasure دل اور روح کو سیراب کرتا ہے۔

تھائی ایئر لائن کی فلائٹ دو گھنٹے تاخیر سے تھی۔ رات ساڑھے گیارہ کی بجائے دو بجے۔ اضافی وقت میکڈونلڈ پر بیٹھ کر گزارا۔ پھر باقی وقت کراچی ایئرپورٹ کے ڈپارچر لائونج میں۔ حسب روایت لبرٹی بک اسٹال میں جھانکا لگایا اور پہلا لطف (pleasure) دکھائی دیا John Grishamکا نیا ناول The Rogue lawyer یہ لطف باقی کے دنوں میں بھی دل لبھاتا رہا۔

بنکاک کا وقت پاکستانی وقت سے 2گھنٹے آگے ہے۔ چار گھنٹے کی پرواز جب بنکاک پہنچی تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک بنکاک کا ایئرپورٹ ان گنت رنگوں اور نسلوں اور ملکوں کے لوگوں کی چہل پہل سے گونج رہا تھا۔ مختلف آوازیں مختلف نقوش مختلف لباس۔ میں نے کچھ ڈالر کے بدلے تھائی بھات لیے۔ پاکستانی3 روپے چالیس پیسے میں ایک بھات۔ پھر سات دن کیTourist سم لی 300 بھات میں اور ایئرپورٹ پر ہی 3G انٹرنیٹ کی سہولت سے خود کو Up-todate کرلیا۔

اجنبی ملک میں اجنبی لوگوں کے بیچ تنہا گھومنے کا مزہ عجب تھا۔ اس مزے میں چار چاند اس وقت لگ گئے جب میں پروگرام کے بروشر کے مطابق گیٹ نمبر 10ڈھونڈ ڈھانڈ کر باہر نکل کر گرمی اور حبس میں سگریٹ پی رہا تھا اور اپنے گروپ کے کسی بھی فرد کو نہ دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔ آدھے گھنٹے کی گرمی اور دو سگریٹوں کے بعد دوبارہ اندر گیا۔ ایئر کنڈیشنڈ لائونج میں گھستے ہی دائیں بائیں نظریں دوڑائیں تو گروپ کے چند ارکان سامان سمیت کھڑے دکھائی دیے۔ ارے آپ کہاں تھے بھائی خرم اور فلاں ڈاکٹر آپ کو ڈھونڈنے اوپر گئے ہیں ایک ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ باقی سب بھی غصیلی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔

''میں تو گیٹ نمبر دس کے باہر کھڑا سب لوگوں کا انتظار کررہا تھا، یہیں پہنچنا تھا ناں۔''، ''ارے یہاں تو ہماری گائڈ کو ہمیں pickکرنا تھا اور اب ہمیں واپس اوپر چلنا ہے۔ باقی لوگ گائڈ کے ساتھ گیٹ نمبر سات پر انتظار کررہے ہیں۔'' پھر دوبارہ ایک لمبی واک شروع ہوئی واپس اسی راستے پر۔ یہ کیا چکر ہے اگر گیٹ سات پر ہی جمع ہونا تھا تو گیٹ دس کی جگہ وہ لکھا ہوتا خیر۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا اور باقی لوگوں کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ بس میں بیٹھتے بیٹھتے ساڑھے دس بج گئے تھے۔ ڈھائی گھنٹے ایئرپورٹ کے اندر گزارنے کی سزا یہ ملی کہ خرم اور منتخب شدہ Tour Guide مقامی تھائی خاتونPokyنے بس چلتے ہی Announceکردیا کہ اتنا وقت ضائع ہوچکا ہے اب ناشتے کے لیے نہیں روکا جائے گا کیوںکہ بنکاک سے پتایا کا سفر ڈھائی گھنٹے کا ہے۔ براہ راست لنچ پتایا پہنچ کر ہوگا۔

کراچی میں اور دوران پرواز تو گروپ کے اراکین ادھر ادھر کی عام باتوں میں مصروف رہے تھے، لیکن بس میں بیٹھنے کے بعد یوں لگا کہ ملک اور آب و ہوا بدلنے کے ساتھ شخصیت بھی بدلنے لگتی ہے۔ بنکاک کی ہوائوں نے Censor نرم کردیا تھا اور ایک دوسرے سے ادھر ادھر کی عام باتوں کی بجائے باری باری بس کے مائیک کے ذریعے پورے گروپ کو ''خصوصی باتوں'' سے مستفیض کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ حسب عادت میں سب سے پچھلی نشست پر تھا اور کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے میں مصروف تھا لیکن سننا مجبوری تھا۔ سو سُن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنے اپنے چیمبر میں بیٹھ کر انسانوں کی جسمانی بیماریوں کا علاج کرتے کرتے کیا آدمی کی روح اور نفس کے اندر اس طرح کے جراثیم بھی سرایت کرسکتے ہیں کہ الفاظ لب و لہجہ اور بیان ایسا ہو جائے کہ انسانیت کے آئینے پر شرم کا پسینہ آنے لگے۔

چوںکہ میرا یہ پہلا اور غالباً آخری تجربہ تھا۔ اس طرح کے Tourکا تو مجھے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ گروپ کے اراکین کی شخصیت اور پیشے سے ہٹ کر unmatch لگ رہا تھا، لیکن چوںکہ زیادہ تر اراکین گروپ اس طرح کے ان گنت ٹورز کرچکے تھے اور غالباً اس طرح کی باتوں کے عادی تھے اور دلدادہ تھے تو بڑے ذوق شوق سے ''خصوصی'' لطائف اور اشعار اور گانے سب سے Shareکررہے تھے اور داد کے متمنی تھے۔



میں خاموشی سے نئے منظر نئے کلچر کو Absorbکرنا چاہ رہا تھا، لیکن جب خاموشی نہ ملی تو لامحالہ مجھے مسافروں کی شخصیات کو evaluateکرنے کا موقع مل گیا۔ اور یہ بھی کچھ برا نہیں تھا۔ ہر نئے قصے نئے لطیفے پر ایک پرت اتر رہی تھی اور اندر کا انسان اپنے اصل رنگ میں سامنے آرہا تھا۔ شعور سے لاشعوری طور پر لاشعور تک کا سفر جاری تھا اور سگمنڈ فرائڈ، یونگ اور ایڈلر کی ان گنت Psychological theoriesبس کی رفتا سے بھی تیزی سے ذہن میں آرہی تھیں جارہی تھی۔ تبھی شاید کہا گیا ہے کہ انسان کے اصل روپ کو دیکھنا ہو تو اُس کے ساتھ سفر کرکے یا اُس کے ہم راہ کھانا کھاکر ہمیں وہ کچھ پتا چل سکتا ہے جو عام حالات میں ہم نہیں Judge کرپاتے۔

ہم سفر اراکین گروپ کی باتیں سنتے سنتے اور بس کی کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھتے دیکھتے میں بھی judge نہیں کرپایا کہ کب اچانک بس پتایا شہر میں داخل ہوئی اور کب ایک خوب صورت سے ہرے بھرے ریسٹورینٹ کے احاطے میں جاکھڑی ہوئی۔

''آپ لوگوں کا لنچ یہاں پر ہے۔ ایک گھنٹے کے اندر بس واپس روانہ ہوگی۔ دو بجے چیک ان ٹائم ہے۔ ہوٹل کا جہاں آپ کے قیام کا انتظام ہے۔'' گائڈ خاتون نے بس رکتے ہی اعلان کیا۔ دوپہر ایک بجے کا وقت ہورہا تھا۔ ہلکی سی بوندا باندی ہورہی تھی۔ سب لوگ بس سے اتر کر ریسٹورنٹ کا رخ کرنے لگے۔ بوفے لنچ انتہائی سادہ مگر لذیذ۔ گنتی کی چار پانچ ڈشز تھیں۔ دال، چاول، سبزی، دہی، سلاد، چٹنیاں، اچار، چکن کا سالن، پاپڑ، پھل اور گلاب جامن۔ پتایا کے پہلے کھانے سے اندازہ ہورہا تھا کہ پاکستان کے بوفے لنچز اور کھانوں سے یہاں کے اسٹائل اور طور طریقے کتنے مختلف ہیں۔ ذائقہ، سادگی، توانائی، انواع و اقسام کے رنگ برنگے کھانوں کی بھرمار نہیں تھی۔ Hi Tees میں بھی کھانے کی بنیادی Dishesہی 20-25 سے کم نہیں ہوتیں پاکستان میں۔ میٹھے میں بھی دس طرح کی Varitiesرکھی ہوتی ہیں۔ لوگ منہ مارتے ہیں اور پلیٹوں میں اتنا چھوڑدیتے ہیں کہ ایک وقت کی ہائی ٹی سے بچنے والی کھانے کی چیزیں دوچار سو لوگوں کا پیٹ بہ آسانی بھرسکتی ہیں۔ اگلے چار دنوں اور پتایا اور بنکاک کے سات آٹھ مختلف ریسٹورنٹس میں دوپہر اور رات کے کھانوں نے یہ بات ثابت کردی کہ وہاں کی ثقافت میں غذا کا اسراف کم کم ہے۔

دوران سفر گائڈ نے آگاہ کردیا تھا کہ تھائی لینڈ میں75صوبے ہیں اور80 فی صد لوگوں کا مذہب بدھ مت ہے اور معیشت کا دارومدار سیاحت، زراعت اور کاٹن ایکسپورٹ پر ہے لیکن وہ یہ بتانا غالباً بھول گئی تھی کہ تھائی لینڈ کا خاندانی نظام، معاشی فراوانی کی جِدوجُہد اور ہر طرح کی آزادی کی بنا، فنا ہوچکا ہے اور یورپ اور امریکا کی طرح اب تھائی لینڈ کی اپنی کوئی ثقافتی اساس یا بدھ مت کے مذہب کی بنیاد نہیں بچی۔

پانچ دنوں میں گو بہت کم مقامی لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور بہت کم مقامی ماحول اور چیزوں سے Interaction رہا لیکن سڑکوں، بازاروں، ہوٹلوں اور دکانوں میں نہ صرف عورتوں کی کثیر تعداد کو کام کرتے دیکھا بل کہ کچھ جگہوں پر تو نانی نواسی تک تین نسلوں کی کل وقتی محنت بھی د کھائی دی۔ 12-14سال کی بچیاں، بھری پری دکانیں اکیلے سنبھالے ہوئے تھیں۔ مردوں کا تناسب کم تھا یا کم ازکم مجھے کم دکھائی دیا۔

بات ہورہی تھی پہلے کھانے کی۔ لنچ سے فارغ ہو کر بس میں سوار سب لوگ ایک فائیو اسٹار ہوٹل پہنچے جہاں دو راتوں کا قیام تھا۔ ساحل سمندر سے نزدیک خوب صورت ''ہرا بھرا'' ہوٹل سفر کا دوسرا Pleasureلطف تھا ۔ پہلی نظر کی محبت کی طرح ہوٹل کے وسیع و عریض کمپائونڈ میں حد نگاہ تک درخت اور سبزہ اور کئی رنگوں کے پھول اور پھر اندر جانے کی روش کے دونوں اطراف مصنوعی پتھروں اور چٹانوں سے پھوٹتے ہوئے آبشار اور تالاب اور تالابوں کے پانی میں تیرتے کنول کے پھول اور پتے اور گرتے پانیوں کا شور اور درختوں کے اوپر اور سبزے پر خراماں خراماں ٹہلتے ہوئے مختلف رنگوں اور شکلوں کے خوب صورت پرندے اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے پوری رات اور آدھے دن کے سفر کی تھکن دور کردی۔

گرائونڈ فلور پر ملنے والے کمرے کی فرنچ ونڈو کے باہر جھانکتے ہی ہوٹل کے سوئمنگ پول اور ان کے ارد گرد گھاس سے بھرے میدان اور پودوں کی قطاریں۔ کمرے میں پہنچ کر پہلا کام ہی میں نے انگلش گرے چائے بنا کر کھڑکی کے شیشے کھول کر چائے پینے اور باہر کے سبزے کو دیکھتے رہنے کا کیا۔ ان گنت سرخ و سفید جلد والے مرد اور خواتین، سہ پہر کی دھوپ میں رنگ برنگی چھتریوں کے نیچے کائوچز پر لیٹے ہوئے تھے تین سال سے لے کر اسی سال تک کے۔ صحیح معنوں میں Vacation اور سیاحت کے مزے لے رہے تھے۔

اگلے دو دنوں تک سرخ و سفید جلد والے لوگوں کے ان گنت گروپ چیک ان اور چیک آ ئوٹ کرتے رہے اور چوںکہ میں اپنے گروپ کے دیگر ارکان کے ساتھ واٹر پارک اور واٹر گیمز سے لطف اندوز ہونے نہیں گیا تھا تو حبس زدہ ہوا میں ہوٹل کے ہرے بھرے لائونج میں آبشار کے پاس بیٹھ کر آنے والوں اور جانے والوں کو دیکھ دیکھ سوچتا رہا۔ خوشی کا خوش حالی سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ فراغت ہو اور معاشی حال مستحکم و مضبوط ہو تو قدرت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیر اور سیاحت کی نعمت بھی میسر ہوجاتی ہے۔

انسان کی زندگی کا یہ زاویہ کمزور ہو تو پھر اور ان گنت کمیوں کے ساتھ اس محرومی میں بھی مبتلا رہتا ہے۔ لیکن دل میں خوشی کا موسم نہ ہو تو خوش حالی بھی خزاں زدہ رہتی ہے۔ پھوکی اور پھیکی۔ پانی کی آواز کے ساتھ ساتھ میری نظریں قدرت کے رنگارنگ مظاہر اور مزاجوں کو دیکھ رہی تھیں اور میری سوچ اُن کئی سفروں کی جگالی کررہی تھی، جِن کے مواقع ملے تھے یا جن کو مجبوراً کرنا پڑا تھا ۔ چوںکہ گروپ کے ساتھ نہیں گیا تھا، لہٰذا دوپہر کے کھانے کا انتظام رات میں ہی قریبی24/7شاپ سے کرلیا تھا۔ دہی اور ڈبل روٹی۔ چائے الحمد وللہ وافر مقدار میں دست یاب تھی۔ ہر دو گھنٹے بعد روم سروس Callکرکے Tea Bags منگوالیے جاتے اور تنہائی میں عیّاشی کرلی جاتی۔ تیسری صبح پتایا سے بنکاک روانگی تھی۔ تین گھنٹے کے سفر میں پھر وہی سب کچھ ہوا جو پتایا آتے وقت ہوا تھا۔ میری سماعت میں کچھ اور جارہا تھا۔ نگاہوں کے سامنے کچھ اور تھا اور سوچ آوارہ پتوں کی طرح اِدھر سے اُدھر لے جارہی تھی۔



اس دورے کا انتظام کرنے والوں نے غالباً کسی انڈین سکھ ریسٹورنٹ سے Contract لیا ہوا تھا، لہٰذا بنکاک پہنچ کر بھی سب سے پہلے دوپہر کے کھانے کے لیے اسی ریسٹورنٹ کی ایک برانچ میں لے جایا گیا۔ دال چاول اور دہی اچار۔ مرغی اور مچھلی کھانے کو دل نہیں ہوا۔ باقی لوگ شوق سے سب کچھ کھارہے تھے۔ میں سگریٹ پینے کے لیے باہر نکلا تو بے قلبی سفر کا تیسرا لطفPleasure ملا۔ سیف کی صورت میں۔ وہ ہوٹل کے دروازے کے سامنے ہی فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔ برابر میں اس کی برقع پوش بیوی بھی تھی۔ نوجوان سیف اپنے ٹھیلے پر سیخ کباب فروخت کررہا تھا۔

اس سے انگریزی میں بات شروع کی اور تعارف کے بعد جب اُسے پتا چلا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو وہ اردو میں گفتگو کرنے لگا۔ حافظ قرآن نوجوان سیف برما کا مہاجر تھا۔ مسلمان ہونا اُس کا اور اُس جیسے لاکھوں لوگوں کا جرم تھا۔ چار برس پہلے وہ بڑی مشکل سے ہجرت کرکے تھائی لینڈ آگیا تھا۔ اب وہ کئی مسلمانوں کو قرآن کی آن لائم تعلیم دے رہا تھا۔ اُن میں اکثریت پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی تھی۔ رواں اردو بولنے والے کا راز یہی تھا۔ سیف سے مختصر ملاقات ذہن کے ایک حِصّے میں چپک گئی اور اتنے دنوں کے بعد بھی وہ یادداشت میں محفوظ ہے۔

فیس بک پر ایک دو بار سیف سے بعد میں بھی سلام دعا ہوئی، لیکن اب کئی ماہ سے کوئی رابطہ نہیں۔ کھانے کے بعد میں دوبارہ خاص طور پر سیف سے ملنے باہر نکلا تھا مگر وہ شاید اجنبی شناسائی کے ڈر سے یا پھر لوکل ٹریفک پولیس کی وجہ سے اپنا سائیکل ٹھیلا کہیں اور لے جاچکا تھا۔

تجسّس، کھوج، جاننے اور جانچنے اور قریب سے مشاہدے کی خواہش نے دنیا کے ہزار رنگوں و روشنیوں اور وقتی تسکین و تفریح کے غیرفطری اور روح پر دبائو ڈالنے والے طور طریقوں وتماشوں میں سے تین کا تجربہ بھی کروا ڈالا۔ ایک خالص اختیاری اور دو میں کچھ کچھ شرما حضوری اور مجبوری بھی شامل تھی۔ گروپ اراکین میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ بھائی صاحب! اگر کمرے میں بند رہ کر کتابیں پڑھنا اور چائے اور سگریٹ پینا ہی تھا تو اس پلیژر ٹرپ پر آئے کیوں تھے۔ ٹھیک ہے آپ اپنے پائوں کی وجہ سے واٹر گیمز اور جھٹکوں والے بجلی کے جھولوں کے مزے نہیں لے سکتے، لیکن اور باقی جگہوں پر تو گروپ کے ساتھ جانا چاہیے۔

سو سب کے ساتھ cruiseڈنر پر بھی گیا۔ اس میں واقعی لطف آیا۔ دو گھنٹے تک Boat سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آئی گئی۔ گروپ اراکین سمیت بوٹ کے ان گنت اور مسافر بھی لائوڈ اسپیکر پر آنے والی گیتوں کی تیز آواز پر تھرکنے اور ناچنے لگے۔ پاکستان کی نمائندگی میں پیش پیش ہمارا گروپ تھا۔ خاتون اینکر بار بار ویلکم پاکستان کا نعرہ لگاتی اور گروپ کے ایک دو اور اراکین شامل رقص ہوجاتے۔ سائوتھ افریقہ اور چند اور ممالک کے سیاح بھی تھے لیکن جوش وخروش اور اچھل کود میں انڈینز اور پاکستانیوں کا ہی مظاہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔

اُس لمحے پھر ایک بار علم نفسیات کی تحقیقات کی حقّانیت بیدار ہوئی۔ جذباتیت اور جلد بازی اور ایک ہی لمحے میں تمام ظاہری پالش اور بردباری کو بالائے طاق رکھنے کے جراثیم واقعی کچھ مخصوص قوموں اور مخصوص نسلوں کے GENESمیں نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ تہذیب، تمدّن، تعلیم، تجربہ عمومی قومی و نسلی نفسیات کا بال بیکا نہیں کرپاتا۔ موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے اور ہم اپنے آپے سے باہر آجاتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اپنے سارے غلاف، سارے پردے، شخصیت کے سارےMasks اُتار کر اپنے اصل اندرونی وجود کو باہر لے آتے ہیں۔

بات ہورہی تھی تین تجربوں کی۔ پتایا اور بنکاک میں ہر گلی ہر کونے میں چھوٹے بڑے مساج سینٹرز اتنی تعداد میں ہوں گے جتنا کراچی میں پان کی دکانیں اور چائے کے ہوٹل بھی نہیں ہوںگے۔ گروپ کے تمام ارکان باقاعدگی اور پابندی سے روزانہ رات میں ہر تفریح اور کھانے کے بعد مساج کروانے جاتے رہے۔ اُن کی دیکھا دیکھی مجھے بھی ہڑک اٹھی کہ آخر مساج سے بدن کو کتنا آرام ملتا ہے۔ بنکاک میں قیام کی آخری رات میں بھی خاص طور پر مساج کی نیت سے نکل گیا اور چند قدم پر ہوٹل سے ملحق غالباً دس بائی بارہ کے ایک کمرے نما دکان میں گھس گیا جس کے باہر مختلف طرح کے MassagesکےRates کا بورڈ درج تھا۔ یہ خالص اختیاری تجربہ تھا۔ زندگی کا پہلا اور غالباً آخری۔ نیچے کائونٹر اور بیٹھنے کے لیے چھوٹی چھوٹی کرسیاں رکھی تھیں۔ دو چھتی نما کمرے کے لیے لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو تین کائوچ بچھے ہوئے تھے جن کے درمیان کپڑے کے پردے لٹک رہے تھے۔

منہ کے بل الٹا لیٹنے کو کہا گیا میں نے وضاحت سے کندھوں اور پیٹھ کا کہہ دیا تھا کہ بس یہیں تک مساج کو محدود رکھا جائے ایک چالیس پینتالیس سالہ خاتون نے بیس منٹ تک انتہائی خوش اسلوبی سے پہلے کوئی تیل لگایا پھر خاص تیکنیک سے Nerve endingsکو دبا دبا کر مساج کرتی رہیں یہ اور بات ہے کہ بیس منٹ بعد میری کمر کا درد اور بڑھ چکا تھا اور مجھے اپنے کمرے میں جاکر پہلے سیدھا لیٹنا پڑا تھا کافی دیر تک۔ سچی بات ہے کہ تین سو بھات خرچ کرکے مجھے یہ ذرا منہگا تجربہ لگا تھا اور یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ لوگوں کی کثیر تعداد کو کیا واقعی مساج سے آرام ملتا ہے، خصوصاً اس طرح کا بھاگم بھاگ مساج۔

کلینیکل یا طبی نقطہ نگاہ سے یقیناً بدن کے مختلف حصوں میں قدرت نے جوNerve Endingsرکھی ہیں اُن کو خاص دبائو اور طریقے کے ساتھ مساج کرنے سے تو یقیناً تھکاوٹ کو دور کیا جاسکتا ہے اور خون کے بہائو کو بڑھا کر سکون اور اطمینان کی کیفیت بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ بہرحال اس اختیاری تجربے نے مجھے بھی مساج یافتہ بنادیا۔ آدھا ادھورا سہی لیکن شعور کی سطح پر یہ بات بھی آگئی کہ اور کئی باتوں کی طرح اپنی طبیعت اپنا مزاج اِدھر نہیں آسکتا۔ بات تو اپنے اپنے مزاج کی ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر رنگ ہر مزاج کے ساتھ مطابقت نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ہر طرح کا تجربہ ہر کسی کو راس آسکتا ہے۔

باقی ماندہ دونوں تجربات گروپ موومنٹ کا حصہ تھے۔ Lady Boysشو اور Russian Nude Show۔ تھائی لینڈ کی معیشت کے دو بڑے ستونTrans sexulaismاور Gender transformationیعنی لڑکوں کی اکثریت کا یا تو لڑکیوں کے روپ و لباس میں رہنا یا مکمل طور پر اپنی جنس تبدیل کروالینا اور دوسرا Prostitutionیعنی کھلے عام قانونی حیثیت اور سماجی قبولیت کے ساتھ ہر قدم پر یا تو رقص گاہیں اور نائٹ کلب اور یا آزادانہ اور ہر جگہ پروفیشنل بدن فرو ش لڑ کوں اور لڑکیوں کی بہ آسانی فراہمی گروپ کے ایک تجربہ کار ڈاکٹر صاحب جو کئی بار بنکاک کے تفریحی دورے کرچکے تھے نے بتایا کہ تھائی لینڈ کے بادشاہ نے آزادی کے وقت باقاعدہ مذہبی پیشوائوں سے کہہ کر اعلان کروایا تھا کہ ملک کے ہر گھر خاندان نے ایک لڑکی خاص طور پر اس کام کے لیے مختص کرنی ہے اور وہ دن ہے اور آج کا دن تھائی لینڈ اپنے اس مخصوص حوالے سے دنیا بھر میں مشہور اور مقبول ہے اور برائی اور بے حیائی کے دلدل میں اترتا چلا جارہا ہے۔

اور دنیا بھر سے لوگ Pleasure Trips کے لیے اس ملک کی راہ لے رہے ہیں لیکن بدی اور بے حیائی کے تمام تر طریقوں کو معیشت کا حصہ بنانے کے باوجود مقامی باشندے Hand to mouth زندگی گزار رہے ہیں۔ برائی اور بے حیائی کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی، جتنا کمالیں کم پڑتا ہے۔ تھائی لینڈ کا خاندانی نظام تہس نہس ہوچکا ہے۔ مغربی اقوام کی ثقافت و تہذیب کی تقلید نے ایشیا کے اِس ملک کے عوام کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ایک طرف سمندر ہے اور دوسری طرف اندھیری کھائیاں۔ پیسے اور مادّی سہولیات کے اندھادھند حصول کو جس جس قوم نے، قبیلے اور نسل نے اپنا مذہب بنایا ہے وہ اپنی طبعی جسمانی عمر اور بدنی تقاضے تو ضرور پوری کرتی ہے کہ قدرت نے تو سب کو بلا تفریق بے حساب نوازا ہے لیکن پھر فرد کا قلب اور روح مردہ ہوجاتے ہیں اور ذہنی سکون اور روحانی طمانیت کی نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔

تھائی لینڈ بھی اسی روحانی المیے سے دوچار ہے۔ ایک بچہ دس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کم ازکم چار پانچ باپوں اور مائوں کے ساتھ رہ چکا ہوتا ہے اور نو بالغ ہوتے ہوئے اُس کا انسان ،انسانیت، مذہب اور اخلاق اقدار پر سے اعتبار اٹھ چکا ہوتا ہے۔ اُس کی معصومیت اس کا بچپن، اُس کے بچپن میں ہی زندہ درگور کردیا جاتا ہے اور اسے یا تو جانوروں کے ریوڑ کا حصّہ بناکر معاشرے کے تھپیڑے کھانے کے لیے تن و تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے اور یا پھر اگر کچھ بچوں کے اندر فطری ذہانت و بغاوت کے عناصر ہوں تو انہیں Tame کرکے مشین اور میکانیکی دائرے کا حصّہ بنالیا جاتا ہے۔ بظاہر مادّی آسائشوں سے بھرپور رنگین اور روشن زندگی کی رونقیں دونوں طرح کے بچوں اور جوانوں کو ٹکڑوں میں ملتی رہتی ہیں لیکن معاشرتی بگاڑ، جذباتی خلفشار اور طرح طرح کے ذہنی و دماغی عارضے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ بظاہر ہر طرح سے ترقی یافتہ قوم آج اس المیے کا شکار ہے اور ہر وہ فرد اور قوم جو مادیت کے راستے پر چلتے ہوئے اخلاقی اور اعلیٰ انسانی اقدار کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ بات پھر کہیں سے کہیں نکل گئی۔

دونوں طرح کے شوز میں پندرہ بیس منٹ بیٹھنے کے بعد میں خاموشی سے باہر نکل آیا تھا۔ ناریل پانی اور سگریٹ سے دل بہلاتا رہا اور لوگوں کے گروپس کو ٹکٹ کائونٹر پر لائن بناکر اگلے شوز کے لیے بکنگ کراتے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ جب 30-35سال پہلے لڑکپن میں یہ سوچ لیا تھا کہ آئندہ کبھی کسی بھی طرح کے اسٹیج شوز نہیں Attend کرنے تو پھر اِس عمر میں آکر گروپ موومنٹ کا حصہ کیوں بنا اور کیا حاصل ہوا۔

دوران طالب علمی میڈیکل کالج میں شروع شروع میں دو چار میوزیکل اسٹیج پروگرامز میں جاکر ہوش ٹھکانے آگئے تھے اور اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سب اچھل کود اور ناچ گانا میرے فطری مزاج سے لگّا نہیں کھاتا۔ بوریت، وحشت اور کوفت و بیزاری میں اضافے کا باعث بنتا ہے، لیکن تھائی لینڈ میں سبزی سلاد دہی روٹی کھانے کی لالچ نے گروپ کا حصّہ بننے پر مجبور کردیا، کیوںکہ دو تین وقت کا کھانا پہلے ہی دہی ڈبل روٹی چائے پر ہوچکا تھا اور رات کا اجتماعی کھانا کھانے کے لیے لازمی تھا کہ گروپ کے ساتھ ہی نکلا جائے۔ بصورت دیگر صرف مجھے ہوٹل سے لانے کے لیے دوبارہ بس کو نہیں آنا تھا۔

بہرحال ان دو تجربات سے یہ Confirmہوگیا کہ ہم کبھی بھی اپنی فطرت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ہر شخص اپنی بنیادی فطرت و نفسیات کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ کتنی بھی کوشش کرلی جائے لیکن کبھی بھی کوئی بھی کسی دوسرے فرد یا افراد کی شخصیت فطر ت ا ور نفسیات کے مطابق خود کو کلی طور پر نہیں ڈھال سکتا اور نہ ہی زیادہ دیر تک دیکھا دیکھی یا شرما حضوری میں کسی کوCopy کرسکتا ہے اور نہ Follow کرسکتا ہے۔ اصل فطرت کا اندازہ مکمل آزادی کی حالت میں ہوتا ہے۔ تمام تر اخلاقی، معاشرتی، معاشی پابندیوں سے آزاد۔ جب کوئی دیکھنے والا ہوتا ہے نہ روکنے والا۔ نہ ٹوکنے والا۔ نہ بولنے والا اور دنیا کی ہر اچھی بری شے ہر طرح سے ہمارے اختیار میں ہو۔ پھر صحیح معنوں میں انسان کے اندرونی جوہر کُھلتے ہیں اور غلاف اترتے ہیں اور اندر کا اصل آدمی چھلانگیں لگا کر باہر نکلتا ہے۔

اندر اور باہر اگر Harmony ہو، اندر کی فطرت باہر کے پرسونا سے مطابقت رکھتی ہو اور خواہش وعمل کے درمیاں توازن ہو تو ہمیں یکسوئی اور پُراطمینان یک رنگی ملتی ہے۔ بصورت دیگر آدمی سدا حالتِ جنگ میں رہتا ہے، اس کی فطری خواہشات کچھ اور ہوتی ہیں۔ بیرونی مجبوریاں اور طرح کی ہوتی ہیں۔ سماجی اور معاشرتی دبائو اُسے اور طرح کی نقابیں اوڑھنے اور مصنوعی رویّے برتنے پر راغب کرتا ہے۔ اس چار مکھی جنگ میں پھر وہ نہ تین میں رہتا ہے اور نہ تیرہ میں۔ اُس کی فطرت کچھ اور چاہتی ہے۔

کچھ اور طرح کی زندگی۔ اُس کا ماحول اور معاشرت و معاشی مجبوریاں اُس سے کچھ اور طرح کے کام کرواتی ہیں۔ او اِس طرح کی حالتوں میں رہتے رہتے جو نہی چند پل آزادی کے ملتے ہیں تو اندر اور باہر میں بٹا ہوا آدمی سب باتوں کی زنجیریں توڑ کر اپنی اصل فطرت کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور دنیا میں تو قدرت نے ہر رنگ رکھا ہی اس لیے ہے کہ ہم اپنے اندر کے اصل رنگ کو باہر کے رنگ سے مماثل کرسکیں اور ہم نوا بنا سکیں۔ ڈیڑھ سال ہوگیا تھائی لینڈ کے پانچ روزہ تفریحی دورے کو۔ کسی گروپ ممبر کا نام بھی یاد نہیں رہا۔ امکان کم ہیں دوبارہ ملاقات کے۔ 25 سالہ پریکٹس میں پہلا اور آخری تجربہ۔ گو سُنا بہت ہے کہ شہر و ملک کے ہزاروں ڈاکٹرز سال میں جب تک چھے سات اس طرح کے Pleasure Tripsنہ کرلیں وہRelex ہوکرمریض دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اس طرح کے مفت دورے کس کو بُرے لگتے ہیں۔

مریض تو دیکھنے ہوتے ہیں اور ان کو دوائیاں بھی لکھ کر دینی ہوتی ہیں۔ بس پھر کِسی کمپنی کی مخصوص ادویات، خاص مدّت، خاص ٹارگٹ پورا ہونے تک لکھنی پڑتی ہیں۔ ایک ٹارگٹ کے بعد دوسرا ٹارگٹ۔ ایک Trip کے بعد دوسرا Trip۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ میں گزشتہ پانچ برس سے مذکورہ بالا پلیزر ٹرپ کو Sponsor کرنے والی کمپنی کی ایک جنرل دوا بنا کسی توقع لالچ یا ڈیمانڈ کے لکھے جارہا ہوں۔ نہ کوئی ٹارگٹ نہ کوئی میعاد نہ کوئی Package ۔ کمپنی نے جب اس دوا کو دوسری شکل میں مارکیٹ کیا تو میں پھنس گیا اور شکیل کی باتوں میں آگیا۔ ڈر نہیں تھا کہ کوئی ٹارگٹ پورا کرنا پرے گا۔ پروڈکٹ تو ویسے ہی لکھ رہا تھا اتنے سالوں سے۔ سو Pleasure ڈھونڈنے چلا گیا۔

مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اصل PleasureاصلTreasureتو ہمارے اندر ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے اندر اگر شانتی ہے، امن ہے، قناعت ہے، تو پھر سکون بھی ہے اور تنہائی کے بھی مزے ہیں ورنہ بھرے پُرے مجمع میں بھی آدمی تنہا رہتا ہے اور تمام تر مزوں اور کھیلوں اور لذتوں کے سامان مہّیا ہونے کے باوجود محض تماشائی رہتا ہے اور دامن بھگوئے بِنا دریا کے کنارے سے واپس پلٹ آتا ہے۔ اگر اندر رولا ہے اور شور ہے تو پھر لاکھ مزے لاکھ تماشے لاکھ تفریحیں بھی سکون سے ہم کنار نہیں کرسکتیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں