مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال آخری حصہ
ادھر ترکی کے صدر طییب اردگان بھی دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں
برسبیل تذکرہ مشرق وسطی میں امریکا کا سب سے بڑا ہوائی اڈا اور بحری بیڑا قطر ہی میں ہے۔ عالمی فٹ بال چیمئپین کپ کے آیندہ میچز منعقد کرانے کا منفرد اعزاز بھی قطر ہی کو حاصل ہے۔ آزاد میڈیا کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ٹی وی نیٹ ورک ''الجزیرہ '' بھی قطر میں ہے۔ قدرتی گیس کے بے پناہ ذخائرکی وجہ سے یہ ملک گیس کی برآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
قطر میں موجود گیس فیلڈ ایک معاہدے کے تحت ایران کی بھی شراکت میں ہے اور ایران کے ساتھ قطر کا دفاعی معاہد ہ بھی طے پاچکا ہے۔ مبصرین کے مطابق مشرق وسطیٰ میں اب بادشاہت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں اخوان المسلمون اور حماس جیسی اسلامی جمہوری قوتیں بر سر پیکار ہیں۔ قطرکا تنازعہ بھی درحقیقت اسی بنیادکا پیش خیمہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب کے قطر سے بظاہر دو بڑے مطالبات ہیں۔ پہلا ایران سے قطع تعلق کرنا ہے اور دوسرا اخوان المسلمون کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا ہے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب کی طرف سے قطر پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو مالیاتی فنڈز مہیا کررہا ہے۔
عالمی امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا اصل ہدف قطر نہیں بلکہ ایران کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ شام، یمن اوردوسرے عرب ممالک میں بے جا مداخلت سے اجتناب کرے۔ عرصہ دراز سے سعودی اور اماراتی امرا قطرکو خلیجی تعاون کونسل کے حوالے سے شک کی نظر سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ پراکسی طرز کی اس محاذ آرائی میں نہ صرف دو ریاستوں کا نقصان ہوگا ۔ اس معرکے کا کریڈٹ امریکا سمیت یورپی دنیا حاصل کرے گی۔ ڈیبٹ اور کریڈٹ اکاونٹینسی کا بنیادی اصول ہے اور یہ دونوں اصول ہر صورت میں لازم وملزوم ہیں۔ اس وقت عرب دنیا ڈیبٹ (debit)ہو رہی ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ ڈیبٹ کا کریڈٹ کس کو جا رہا ہے۔ جی ! خالصتا یہودیت کو۔
کیا موجودہ سعودی امرا حکمرانوں نے1973 کے شاہ فیصل بن عبد العزیز کی حکمت ودانش کو فراموش کردیا کہ جب 1967 میں ہونے والی چھ روزہ مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے مصری حکمران انورالسادات نے اسرائیل کے خلاف بھرپور اعلان جنگ کیااور ایک عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اس کامیابی کے پس منظر میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز ہی کی عظیم شخصیت تھی ۔ انھوں نے جنگ کے دوران یورپ اور امریکا کو فوری طور پر تیل کی ترسیل بندکردی تھی جس سے پورے یورپ اور امریکا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر نے لگی تھیں۔
نکسن حکومت کے خارجہ امورکے وزیر ہنری کسنجر ذاتی طور پر ریاض تشریف لائے اور شاہ فیصل سے امن کی درخواست پیش کی تھی اورکہا کہ مغربی ممالک کو تیل کی ترسیل بحال کردیں ۔شاہ فیصل نے جواب دیاکہ ہم اس وقت تک تیل کی ترسیل بحال نہیں کر یں گے جب تک اسرائیل فلسطینیوں کے وہ علاقے واپس نہیں کردیتا جن پر اس نے 1967کی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔
جواب میں ہنری کسنجر نے شاہ فیصل کو دھمکی دی کہ اگرآپ تیل کی ترسیل بحال نہیں کریں گے تو ہم آپ کو اشیائے خوردنی اور دیگر اشیائے ضرورت کی برآمد بند کردیں گے۔ ایک مصدقہ سعودی ذرائع نے بتایا کہ اس پر شاہ فیصل نے نہایت تحمل وخوش اسلوبی سے ہنری کسنجر سے اپنے آفس سے باہر چلنے کی درخواست کی۔ باہر آ کر انھوں نے اپنے معزز مہمان کو لگا ہوا ایک خیمہ دکھایاجس کے اندر چند بکریاںتھیں اور خیمہ سے باہر چند اونٹ بھی تھے۔ شاہ فیصل نے ان چیزوں کو دکھاتے ہوئے کہا کہ آپ کی ارسال کردہ گاڑیوں اور دوسرے سامان تعیش سے پہلے ہی ہمارا طرز زندگی تھا۔ ہم ابھی زیادہ دور نہیں گئے اور واپس اپنے خیموں میں بآسانی جاسکتے ہیں۔ کھجور اور بکریوں کے دودھ پر گزارہ کر سکتے ہیں۔ اس پر ہنری کسنجر لاجواب ہوگیا۔ یہ ہیں خود دار لوگوں کی داستانیں جو تاریخ نے رقم کی ہیں۔
بہادر امریکا کو الزامات کی بوچھاڑ کا سامنا ہے کہ اپنی عالمی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اس نے بھائی کو بھائی سے لڑوا کر نفاق پیدا کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ جنگی جنون میں مبتلا ہوکر اسلحہ سازی کی دوڑ میں ملکی اورغیرملکی سرمایہ جھونک چکا ہے جس سے ان کی معیشت خسارے کا بری طرح شکار ہے۔ ان ہی حقائق کے تناظر میں خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب ہی واحد مشرق وسطیٰ کی امیر ترین ریاست ہے اس لیے صدر امریکا نے اپنے دورہ ریاض کو ترجیح دی۔ خانہ کعبہ، مکہ مکرمہ اور دیگر روحانی مقامات مقدسہ کی زیارت مسلمانان عالم کے لیے استغفارکا بہترین ذریعہ ہیں اور ہر مسلمان کی زندگی کی تمنا ہوتی ہے کہ سفرآخرت سے پہلے زیارت نصیب ہوجائے۔
اسلامی ملک انڈونیشیا میں ہر نوجوان لڑکے کا نکاح واجب نہیں ہوتا جب تک وہ حج یافتہ نہ ہوجائے۔ ہر سال حج کے موقعے پر لاکھوں کی بھر پور تعداد میں پوری دنیا سے فرزندان توحید (عازمین حج) تشریف لاتے ہیںاس کے علاوہ بھی عمرے کی ادائیگی کے لیے بھی زائرین لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں۔ جس سے سعودی حکومت کو لاکھوں اورکروڑوں ڈالرز اضافی آمدنی کی صورت میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ لاتعداد زر مبادلہ کہاں جاتا ہے۔ نقطہ غورطلب بھی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ آیا مذہب کے نام پر جمع ہونے والا سرمایہ غلط ہاتھوں میں تو نہیں جا رہا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی یا انا کی چپقلش نے مسلم امہ کو جس کڑی آزمائش سے دو چار کر دیا ہے ، ضرورت ہے اس امر کی کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے اس بحران کا حل نہایت ہوش مندی اور دانشمندی کے ساتھ تلاش کیا جائے اور باہمی جنگ و جدل کے خوفناک خطرہ سے کسی حد تک بچا جا سکے۔ وقت ہے سفارتی سطح پر گفتگو گفت و شنید پرامن بقا ئے باہمی کی ۔ حالیہ موصولہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کویت کے امیر اس ضمن میں ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے خلیجی تعاون کونسل کو دوبارہ فعال بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ادھر ترکی کے صدر طییب اردگان بھی دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی نظریاتی ریاست ہے جو کسی حد تک سفارتی سطح پر دونوں ریاستوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے اپنے پڑوسی ممالک ایران ، افغانستان ، بھارت سے تعلقات میں بظاہر کشیدگی ہے۔ ادھر ایران کے بھارت سے سفارتی تعلقات پاکستان سے زیادہ اچھے اور پرامید و حوصلہ افزا ہیں۔ ادھر سعودی عرب سے بھی پاکستان کے سفارتی تعلقات اپنے پڑوسی ممالک سے بہتر ہی ہیں۔ اسلامی عسکر ی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل راحیل شریف کو جاہیے کہ رکن مما لک کی رسہ کشی کے معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھیں کیونکہ عسکری حوالہ سے آپ پاکستان کی عوام میں بہترین ساکھ کے مالک ہیں۔