ورلڈ ہاکی لیگ ناکامیوں کی ایک داستان رقم

یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ماضی کی فیڈریشنز کے عہدیدار قومی ٹیم کی عالمی سطح پر کامیابیوں میں اتنے مگن رہے

فوٹو : فائل

لاہور:
ہاکی شائقین کے ذہنوں میں ایک سوال بار بار گونج رہا ہے کہ ورلڈ ہاکی لیگ میں شرمناک شکستوں کے بعد قومی ٹیم کی موجودہ صورتحال کیا ہے، آیا کہ گرین شرٹس ورلڈ کپ 2018ء کے لئے کوالیفائی کر چکے ہیں یا عالمی کپ 2014ء کی طرح ٹیم پلیئرز کو ایک بار پھر میگا ایونٹ گھر بیٹھ کر دیکھنا پڑے گا، سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستانی ٹیم آئندہ برس ورلڈ کپ کا ٹکٹ کٹانے میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں بلکہ اہم پہلو یہ ہے کہ دنیائے ہاکی پر سالہا سال راج کرنے والی قومی ٹیم کو اب یہ بھی دن دیکھنا پڑیں گے کہ''اگر مگر '' کے حساب کتاب کے بعد اسے ورلڈ کپ کا حصہ بننا پڑے گا۔

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ حال ہی میں انگلینڈ میں اختتام پذیر ہونے والی ورلڈ ہاکی لیگ میں ٹاپ 5 ٹیموں نے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنا تھا،اولمپک چیمپئن ارجنٹائن کے بعد بھارت سے بھی شکست کے بعد گرین شرٹس براہ راست کوالیفائی کرنے والی ٹیموں سے باہر ہو گئے، اب پین امریکن مقابلے میں ارجنٹائن یا کینیڈا کی کامیابی کی صورت میں ایک جگہ خالی ہوگی جبکہ لندن میں چھٹی پوزیشن حاصل کرنے والا بھارت ورلڈ کپ کے میزبان کی حیثیت سے کھیلے گا لہٰذا ساتویں نمبر پر آنے والے پاکستان کا ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنا یقینی ہو گیا ہے، اکتوبر میں بنگلہ دیش میں شیڈول ایشیا کپ میں بھی پاکستانی ٹیم چیمپئن بننے میں کامیاب رہتی ہے تو بھی اس کے ورلڈ کپ تک رسائی کے دروازے کھل جائیں گے۔ ورلڈ کپ آئندہ برس بھارت میں ہوگا جس میں ماضی کے برعکس12کی بجائے 16ٹیمیں شریک ہوں گی، کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ ان 16 ٹیموں میں بھی جگہ بنانے کے لئے پاکستانی ٹیم کو پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں۔

پاکستان کو اب تک 4 بار عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے، آخری بار گرین شرٹس نے شہباز احمد سینئر کی قیادت میں بھی ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، اس کو آپ شہباز سینئر کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ سیکرٹری بھی اس وقت شہباز سینئر ہی ہیں جو اپنی آنکھوں سے قومی کھیل کو سسکتا اور دم توڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں، قومی پلیئرز کی ہاکی کے کھیل میں کتنی مہارت ہے، ورلڈ ہاکی لیگ کے مقابلوں کے دوران وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، کھلاڑیوں کی اس مایوس کن کارکردگی نے ماضی کے عظیم کھلاڑی کا دل کرچی کرچی کر دیا ہے، ان کی رائے میں ملک کے لئے کھیلنا کسی بھی کھلاڑی کے لئے عزت کی بات ہوتی ہے۔

تاہم بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ ٹیم میں فائٹنگ سپرٹ ہے اور نہ ہی جیت کی تڑپ موجود ہے، ہمارے کھلاڑیوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ انہوں نے کس طرح کی ہاکی کھیلنی ہے، کھلاڑی محض وقت پاس کر رہے ہیں اور ان کا زیادہ تر فوکس ہاکی لیگ کی جانب ہے، ورلڈ ہاکی لیگ کے دونوں میچوں کے دوران گرین شرٹس کو جس طرح شکستوں کا سامنا رہا، وہ مایوس کن ہے، گزشتہ تین ماہ کے دوران ان کھلاڑیوں پر 50 ملین روپے خرچ کئے،20 روزہ دورے کے لئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر بھی بھیجا، لیگ شروع ہونے سے قبل پندرہ دن آئرلینڈ میں بھی سیریز کے ساتھ پریکٹس کی، میرا خیال تھا کہ کرکٹرز کی طرح یہ بھی اچھا کم بیک کریں گے تاہم کھلاڑیوں نے غلطیوں پر غلطیاں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ کھلاڑیوں میں غلطیاں اتنی پختہ ہو گئی ہیں کہ اب انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔


پاکستان ہاکی ٹیم کی موجودہ صورتحال پر سابق اولیمپئنز بھی افسردہ ہیں، سابق کھلاڑیوں کے مطابق انہیں بھارت، جرمنی، ہالینڈ، کینیڈا، امریکہ، انگلینڈ سمیت دنیا کے متعدد ممالک سے پیغامات آ رہے ہیں کہ وینٹی لیٹر پر موجود قومی کھیل نے آخری ہچکیاں لینا شروع کر دی ہیں، پی ایچ ایف نے فوری طور پر ذمہ داروں کے خلاف ایکشن نہ لیا تو ہاکی ماضی کا قصہ بن کر رہ جائے گی۔یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے، ورلڈ ہاکی لیگ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو گرین شرٹس کے خلاف سب سے زیادہ گول ہوئے جبکہ اس نے سب کم گول کئے، یہاں پر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پی ایچ ایف نے ٹیم مینجمنٹ کو پورے اختیار دیئے، خواجہ جنید اینڈ کمپنی نے نیوزی لینڈ، آسٹریلیا کے بعد ورلڈ ہاکی لیگ میں بھی اپنی پسند کی ٹیم منتخب کی، تو پھر ٹیم اچھے نتائج کیوں نہ دے سکی۔ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ راشد محمود، رضوان سینئر، عرفان سینئر، محمد توثیق، فرید احمد سمیت متعدد تجربہ کار کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا، اگر سینئر اور جونیئر کھلاڑیوں کا کمبی نیشن بنایا جاتا تو ورلڈ ہاکی لیگ کے نتائج کچھ اور ہی ہوتے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک ٹیم کی عمر اورکھلاڑی کے کھیلنے کی اہلیت تقریبا 10 برس کے لئے ہوتی ہے، اس سے زیادہ استفادہ محض اضافی بونس ہو سکتا ہے۔ 1948ء میں پاکستان نے پہلی بار بین الاقوامی سطح پر ہاکی مقابلوں میں حصہ لیا اور پہلی باقاعدہ ٹیم نے صحیح صورت اختیار کرنے میں 10 برس کا عرصہ لیا۔ دس سال بعد1958 ء میں پاکستان نے پہلی بارٹوکیو میںایشین چیمپئن شپ جیتی۔ صرف 2 برس کے بعد جب 1960ء میں پاکستان نے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو اس میں 1948ء کی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے صرف ایک کھلاڑی میجر حمیدی شامل تھے۔

باقی تمام پلیئرز کھیل کو خیر باد کہہ چکے تھے۔ 1962ء میں جب بریگیڈیئر منظور حسین عاطف کی قیادت میں پاکستان نے جکارتہ ایشین گیمز میں بھارت کو شکست دے کرگرینڈ سلم مکمل کیا تو اس ٹیم میں 1948ء کی ٹیم کا ایک بھی کھلاڑی شامل نہ تھا۔1958ء کے دس سال کے بعد1958ء میں پاکستان نے میکسیکو اولمپکس میں میں طلائی تمغہ جیتا تو اس میں بھی گزشتہ عشرہ میںکھیلنے والا کوئی کھلاڑی موجود نہ تھا۔1969ء میں نوجوان کھلاڑیوں کو تلاش کرنے کے لئے اوپن ٹرائلز ہوئے اور ابتدائی طور پر 200کھلاڑی منتخب ہوئے اس کے بعد مقابلوں کا دوسرا مرحلہ ہوا تو منتخب کھلاڑیوں کی تعداد 100 رہ گئی اور تیسرے مرحلے میں 60 کھلاڑی منتخب ہو گئے۔

ان کھلاڑیوں کی 2 ٹیمیں اے اور بی تشکیل دی گئیں، 1969ء میں جب لاہور ہاکی فیسٹول انٹرنیشنل منعقد ہوا تو اس عالمی میلے میں بھی پہلی اور دوسری پوزیشن لینے والی پاکستانی کی سینئر اور جونیئر ٹیمیں تھیں۔بعد ازاں انہیں کھلاڑیوں میں شامل پلیئرز نے 1970ء کی بنکاک ایشین گیمز اور اور 1971ء کے بارسلونا ورلڈ کپ اور 1972ء کے میونخ اولمپکس میں شاندار کارکردگی دکھائی۔1968ء کے دس سال کے بعد 1978ء میں بھی پاکستان نے ورلڈ کپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا ، اس کے بعد پہلی چیمپئنز ٹرافی میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور اس برس کے آخر میں صلاح الدین کی قیادت میں پاکستان ہاکی ٹیم نے بنکاک میں بھارت کو شکست دے کر ایک بار پھر ایشیائی چیمپئن شپ جیت لی۔اس کے بعد1992 ء میں بھی گرین شرٹس نے بارسلونا اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا اور اس کے بعد یہ اولمپکس میں پاکستان کا آخری میڈل بھی ثابت ہوا ہے۔

یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ماضی کی فیڈریشنز کے عہدیدار قومی ٹیم کی عالمی سطح پر کامیابیوں میں اتنے مگن رہے کہ وہ مستقبل کی پلاننگ کرنا ہی بھول گئے، ان کا خیال تھا کہ شاید آگے جا کر بھی وقت ان کے ہاتھ میں ہی رہے گا، گرین شرٹس عالمی ایونٹس میں شرکت کرتے رہیں گے اور اپنے سینوں پر تمغے سجا کر وطن واپس لوٹتے رہیں گے۔ یہ وقت وقت کی بات ہے، ہم ماضی کی ٹیم کامیابیوں پر خوش ہوتے رہے اور دنیا کی دوسری ٹیمیں جدید تقاضوں کے مطابق سخت محنت کرتی رہیں، قومی کھیل کو ماضی کے سنہری دور کی طرف دوبارہ لے جانے کے لئے نہ صرف پاکستان ہاکی فیڈریشن کو گراس روٹ سطح پر کام کر کے نئے باصلاحیت کھلاڑی تلاش کرنا ہوں گے بلکہ فیڈریشن، ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی سمیت دوسرے اہم عہدوں پر عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازنے کی بجائے صرف اور صرف اہل لوگوں کو سامنے لانا ہوگا۔
Load Next Story