عالمگیریت اور ہمارا عصری و ادبی تناظر
آج تہذیب پر باہر ہی سے یورش نہیں ہورہی بلکہ اس کے اندر کی تخریبی قوتیں بھی اس سے برسرِ پیکار ہیں
(گزشتہ سے پیوستہ)
دوسری طرف ایک عالم کو ہماری زندگی میں حصے دار بنا دیا ہے۔ اس عہد کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آج انسان اپنے دائیں بائیں کی حقیقی زندگی اور کرداروں سے غافل ہوچکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دنیا بھر کے معاملات، مسائل اور واقعات سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ حقیقی دنیا سے لاتعلق ہے اور محض قیاسات اور خیالات کی دنیا میں جی رہا ہے۔
زندگی میں اس کا حقیقی اور عملی تجربہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے، جب کہ اس کے قیاس و احساس کا تناسب روز افزوں ہے۔ اُس کا تعلق زندہ رشتوں سے کم زور تر اور اشیا، خصوصاً نئے گیجٹس سے مضبوط تر ہورہا ہے، اس حد تک کہ اب وہ ان کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہی عالمگیریت ہے۔ سامراجیت کا یہ نیا روپ ہے جو صارفیت کے وسیلے سے فروغ پارہی ہے۔ دنیا کا نیا جغرافیائی، تہذیبی اور اخلاقی نقشہ آج اسی سامراجیت کے مقاصد اور اہداف کے حصول کے تقاضوں کے عین مطابق ترتیب پا رہا ہے۔
عصرِ حاضر میں عالمگیریت کا بہت نمایاں مظہر سائنس اور ٹیکنولوجی کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ ٹیکنولوجی کے ذریعے آج انسانی زندگی کو بہت سی ایسی چیزیں میسر آچکی ہیں، جن کا صرف چالیس پچاس سال پہلے تک تصور بھی محال تھا۔ یہ چیزیں انسانوں کے لیے مادّی آسائشیں لے کر آئی ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اِن کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں تنہائی، بیگانگی اور بے حسی کا گراف بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس عہد کے ماہرینِ نفسیات اس معاملے میں گہرے تذبذب کا شکار ہیں۔ اب سے پہلے اس شعبے کے بڑے لوگوں نے انسان کی نفسی کیفیات کے بارے میں جو اندازے لگائے اور نظریات پیش کیے تھے، وہ بڑی حد تک پیش پاافتادہ ہوچکے ہیں اور اب انسانی احوال و آثار کے سلسلے میں روشنی دینے سے قاصر ہیں۔ ظاہر ہے، تغیر و تبدل کی اس ہوش رُبا اور خرد کش دنیا میں یہ تو ہونا ہی تھا۔
قتل و غارت گری اور جنگ و جدل کو تو رکھیے ایک طرف، آپ اپنی روزمرہ سماجی زندگی میں بھی آئے دن اس حقیقت کے حیران کن مظاہرے دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے کسی کو تکلیف یا اذیت میں دیکھ کر انسان فطری اور جبلی طور پر مدد کے لیے لپکتا تھا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ کوئی ایکسیڈنٹ میں یا لڑائی کے نتیجے میں زخمی ہوتا ہے یا کوئی ابتری کی حالت میں مدد کا طالب نظر آتا ہے تو لوگ آگے بڑھ کر کام آنے کے بجائے، اطمینان سے کھڑے ہوکر جیب سے موبائل فون نکالتے ہیں اور وڈیو کلپ بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
یہ سب مناظر اب اس درجہ عام ہوچکے ہیں کہ آپ اور ہم سب ہی اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ بے حسی اور سفاکی کے اس رویے کا محض تین عشرے پہلے کی دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شعبۂ نفسیات کے نئے تصورات و نظریات انسانی احساس کی اس صورتِ حال اور اس کے پیچیدہ مظاہر کے بارے میں خود بھی الجھن کا شکار ہیں۔ اس لیے وہ وثوق سے کچھ کہتے نظر نہیں آتے، بلکہ تخمین و ظن سے کام لیتے ہیں۔ جدید دنیا میں جہاں پر ہزاروں میل کے فاصلے سمٹ گئے ہیں اور دنیا آپ کی انگلیوں کی پوروں تلے آگئی ہے کہ آپ بٹن کو چھوئیں اور اپنے اطراف سے نکل کر جہانِ دیگر میں پہنچ جائیں، وہیں دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کی انسان سے دُوری، حتیٰ کہ اپنے آپ سے دُوری، اس کے مزاج اور رویوں پر مہیب اثرات مرتب کررہی ہیں۔ انسان نے ہزاروں برس میں تمدن و تہذیب کا جو سفر طے کیا تھا، وہ اب معکوس سمت اختیار کرچکا ہے۔
سوچنا چاہیے کہ اُن سارے معاشروں میں جہاں کسی نہ کسی درجے میں تہذیب زندہ ہے، جیسے خود ہمارے یہاں زندہ ہے تو ایسے سماج کے لوگ کس صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ یہ وہ پہلا سوال ہوسکتا ہے جس کے ذریعے ہم اس عہد کی انسانی کیفیت اور اس کے نفسی احوال کو سمجھنے کی جستجو کرسکتے ہیں۔ اس سوال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ آج سارے تہذیبی معاشروں میں مغائرت، بیگانگی، بے حسی اور خوف کا بڑھتا ہوا تناسب نہ صرف نمایاں ہے، بلکہ وہ انسانی سائیکی میں گہری دراڑیں ڈال رہا ہے۔ انسانی احساس کو تہ و بالا کررہا ہے اور بیدار رہنے والے ذہنوں کو کچوکے لگا رہا ہے، عالمگیریت اور جدیدیت کی لپیٹ میں آتی ہوئی انسانیت مسلسل اس سوال سے دوچار ہے کہ آخر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ دیکھا جائے تو یہ سوال یا الجھن دراصل زندگی کے اُس تصور کا ردِعمل ہے جو تہذیبی شعور نے ہمارے اندر پیدا کیا ہے۔
اس لیے کہ ہماری تہذیب ابھی زندہ ہے اور وہ انسانی اور اخلاقی قدروں پر نہ صرف یقین رکھتی ہے، بلکہ ان کے تحفظ کا سامان بھی چاہتی ہے۔ ہمارے ساتھ ساتھ یہ شعور دُنیا کی اور بہت سی تہذیبوں میں بھی زندہ ہے، اس لیے مختلف ممالک میں مختلف انداز سے عالمگیریت اور جدیدیت کے خلاف ردِعمل دیکھنے میں آتا ہے۔ انسانی معاشروں میں جب تک یہ شعور باقی رہے گا، ردِعمل بھی ظاہر ہوتا رہے گا۔ تہذیبی شعور کا یہ ردِعمل اذیت دہ تو ضرور ہے، لیکن اس حقیقت کا غماز بھی ہے کہ وہ سب انسان اور وہ سارے سماج جو اپنی تہذیب اور اس کی اقدار کا ایک نظام رکھتے ہیں اور اسے اپنا امتیازی نشان گردانتے ہیں، وہ جب تک عہدِ جدید کی بے اقدار اور بے حسی زندگی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور اپنی تہذیبی قدروں اور ثقافتی شناخت سے دست بردار نہیں ہوں گے، تہذیبی بقا کی یہ کشاکش جاری رہے گی۔
اس صورتِ حال اور ان مسائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آج ہمارا ادب اپنے عہد سے کتنا مربوط ہے؟ کیا وہ فرد اور سماج کے مابین قائم شعور کے منطقے سے آگاہ ہے اور اس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟ کیا وہ آج کے حقیقی انسانی تجربے کو سہارنے کی سکت رکھتا ہے؟ کیا وہ ان سوالوں سے واقف ہے اور ان سے اعتنا کرتا ہے جو یہ عہد اپنے مخصوص تناظر میں اسے پیش کرتا ہے؟ کیا وہ اپنے تہذیبی و ثقافتی مظاہر کی بقا کا سامان کرسکتا ہے؟ کیا وہ اس عہد میں ہمارے احساس کی تشکیل کا فریضہ انجام دے سکتا ہے؟
یہ سوالات بڑے اور بہت بنیادی نوعیت کے ہیں۔ تاہم جیسا کہ گفتگو کے آغاز میں عرض کیا کہ ہر عہد کے ادب کو اپنے خاص سیاسی، سماجی، اخلاقی اور تہذیبی تناظر میں چند بنیادی سوالوں کا سامنا ہوتا ہے۔ دراصل یہی وہ سوال ہیں جو اس عہد میں ہماری تہذیب کی بقا کے امکانات اور اُس کے ادب کی معنویت کا تعین کرتے ہیں۔ ہم اگر ان سوالوں کا جواب اپنے ادبی و تخلیقی منظرنامے سے طلب کریں تو عصری تہذیب کی حقیقتِ احوال سامنے آتی ہیں۔
یہ حقیقت گواہی دیتی ہے کہ ہمارا ادب اپنی تہذیبی روح کے تقاضوں سے روگرداں نہیں ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انتظار حسین کے کلیلہ دمنہ کے افسانے، اسد محمد خاں کا ''دارالخلافے اور لوگ''، اشفاق احمد کا ''اشرف اسٹیل مارٹ''، حسن منظر کا ''حبس''، نیر مسعود کا ''اوجھل''، رضیہ فصیح احمد کا ''آدھی سچائیاں''، اقبال مجید کا ''آگ کے پاس بیٹھی عورت''، رشید امجد کا ''ایک مرحوم شہر کی یاد میں''، منشا یاد کا ''کوک والا کھلونا''، خالدہ حسین کا ''متبادل راستہ''، مسعود اشعر کا ''اللہ حافظ''، سیّد محمد اشرف کا ''آخری سواریاں''، یونس جاوید کا ''ستونت سنگھ کا کالا دن''، ذکاء الرحمن کا ''ہاتھی بچھو''، خالد جاوید کا ''سائے''، زاہدہ حنا کا ''تنہائی کا چاہِ بابل''، نجم الحسن رضوی کا ''رپ وان ونکل کی ڈائری''، مرزا حامد بیگ کا ''لالہ جسونت کی حویلی''،
فردوس حیدر کا ''بارڈر لائن''، شموئل احمد کا ''عنکبوت'' ساجد رشید کا ''موت کے لیے ایک اپیل''، عبدالصمد کا ''توسیع''، طارق چھتاری کا ''بندوق''، مشرف عالم ذوقی کا ''واپس لوٹتے ہوئے''، طاہرہ اقبال کا ''مکروہ''، نگار عظیم کا ''مردار''، محمد حامد سراج کا ''شہرگزیدہ''، محمد حمید شاہد کا ''دہشت میں محبت''، عباس رضوی کا ''خواب دیکھنا منع ہے''، ناصر عباس نیر کا ''خاک کی مہک''، عاصم بٹ کا ''کھلا دروازہ''، فریدہ حفیظ کا ''وعدہ''، فیاض رفعت کا ''نغمۂ آشوب''، اختر رضا سلیمی کا ''جاگے ہیں خواب میں'' جیسا فکشن تخلیق کیا جارہا ہے جو اس نئی سامراجیت اور عالمگیریت کی پرتیں کھولتا اور اس عہد میں انسانی روح کے تجربے کا احوال پیش کرتا ہے۔ اس فکشن میں ہمیں ایک متبادل بیانیہ واضح تخلیقی مزاج اور تہذیبی شعور کے ساتھ میسر آتا ہے۔ یہ بیانیہ اس عالمگیریت کے اثرات کو اپنے تہذیبی وجود کے تناظر میں سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
دوسری طرف ہمیں شمیم حنفی، ڈاکٹر قاضی افضال حسین، محمد سلیم الرحمن، فتح محمد ملک، سیّد مظہر جمیل، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر انوار احمد، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر ہلال نقوی، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، خواجہ رضی حیدر، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر سیّد جعفر احمد، عطاء الحق قاسمی، محمود شام، جاوید چودھری، حامد میر، فاروق عادل، ڈاکٹر شاہین مفتی، ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ڈاکٹر عزیز ابن الحسن، ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر سیّد عامر سہیل، حارث خلیق، یاسر پیرزادہ، قاسم یعقوب، خالد فیاض، خاور اعجاز، ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، ڈاکٹر روبینہ شہناز اور رفیق سندیلوی ایسے اہلِ دانش و بینش کے بصیرت افروز تنقیدی محاکمے، سماجی و تہذیبی تجزیے اور ثقافتی و سیاسی سوالات، اپنے سماج اور اس کے ادب و تہذیب کو سمجھنے اور اُس کے ایوانوں میں گونجتی روح کی پکار کو سننے کا موقع ہی فراہم نہیں کرتے، بلکہ اپنے تہذیبی ردِعمل پر ہمارے یقین کو محکم بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح غزل و نظم کا ایک بسیط اور بامعنی تناظر ہمیں معنویت کے نئے ابعاد سے روشناس کراتا ہے۔ ہمارے یہاں نظم کے بارے میں تو عام تأثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ اس عہد کا سب سے بڑا تخلیقی صیغۂ اظہار ہے۔ یہ اس نوع کے معاملات پر بحث کا موقع نہیں۔ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس رائے کو مکمل طور سے رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ عہدِ جدید کی پیچیدہ زندگی اور اس میں بدلتی ہوئی انسان کی نفسی کیفیات کو اور خصوصاً اس عہد کے موضوعات اور مسائل کو بیان کرنے کی جیسی صلاحیت نظم میں نظر آتی ہے، وہ مثال کے درجے میں شمار ہوگی۔ تاہم غزل جس کے بارے میں گزشتہ ساٹھ ستر برسوں سے بار بار تنقید کی صورت پیدا ہوئی اور اس کے معنوی و فکری تناظر کو متعدد بار شک کی نظر سے دیکھا گیا۔
وہ بھی سارے الزامات کو رد کرتے ہوئے عصرِحاضر کے تجربات کو سمیٹنے اور انسانی شعور و احساس کی نازک تر اور بہت گہرائی کیفیات کو بیان کرنے میں پوری طرح کامیاب نظر آتی ہے۔ ہمارا شعری منظرنامہ بہت وسیع ہے۔ مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے یہاں ہم مثالوں سے گریز کرتے ہوئے محض کچھ ناموں کا ذکر کریں گے۔ مثال کے طور پر آپ بالاستیعاب مطالعہ کرکے دیکھیے رسا چغتائی، محمد سلیم الرحمن، ظفر اقبال، شہزاد احمد، توصیف تبسم، زہرا نگاہ، احمد مشتاق، عرفان صدیقی، اسلم انصاری، سحر انصاری، افتخار عارف، خورشید رضوی، پیرزادہ قاسم، انور شعور، خواجہ رضی حیدر، احفاظ الرحمن، محمد اظہار الحق، عبدالرشید، تحسین فراقی، صابر ظفر، سلیم کوثر، یاسمین حمید، فاطمہ حسن، شاہدہ حسن، عشرت آفریں، نصیر احمد ناصر، سرمد صہبائی، رضی مجتبیٰ، غلام حسین ساجد، ابرار احمد، فرخ یار، علی محمد فرشی، عباس رضوی، لیاقت علی عاصم، انوار فطرت، اجمل سراج، ضیاء الحسن، فراست رضوی، وحید احمد، شاہین مفتی، ذیشان ساحل، حارث خلیق، سعود عثمانی، رفیق سندیلوی، ایاز محمود، نجیبہ عارف، محبوب ظفر، اکبر معصوم، حمیدہ شاہین، میر ظفر حسن، رخسانہ صبا، عنبریں حسیب عنبر، عارفہ شہزاد، عنبریں صلاح الدین، شاہین عباس، اختر رضا سلیمی، فہیم شناس کاظمی، عثمان جامعی، قاسم یعقوب، علی یاسر، ارشد معراج، اختر عثمان، ثمینہ راجا وغیرہم کی نظموں اور غزلوں میں انسانی احساسات کے جو چہرے ابھرتے ہیں، وہ سب ہمارے عہد کے انسان کو شناخت کراتے ہیں۔ ان کے توسط سے ہم اس دنیا میں اپنے احوال کو جان پاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اطراف بسر ہوتی ہوئی زندگی اور اس کی داخلی کیفیات کا شعور حاصل ہوتا ہے۔
اس امر کے اعتراف میں باک نہیں کہ اس وقت گفتگو میں فکشن، تنقید اور شاعری کے زمرے میں جو نام یا جن تخلیقات کے حوالے دیے گئے ہیں، یہ محض نمونہ مشتے از خروارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس عہد کا پورا تخلیقی و فکری منظرنامہ صرف یہی نہیں ہے۔ یہ حوالے تو محض اس خیال سے درج کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والوں کے سامنے ایک تناظر قائم ہوسکے۔
چناںچہ ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے باور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے توسط سے ہمیں اپنے انفرادی وجود، تہذیبی سالمیت اور ثقافتی امتیازات کو دیکھنے اور پہچاننے کا موقع میسر آتا ہے۔ اپنے ہونے کی گواہی ملتی ہے اور ہونے کا مفہوم سمجھ آتا ہے۔ وہ روشنی ملتی ہے جو بقا کے راستوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ یہاں ہمیں اس دور میں انسانی وجود اور اُس کی روح کے درمیان قائم رشتے کی نوعیت کا ادراک ہوتا ہے۔ اس رشتے کا ادراک جو ہمیں جسم میں رہتے ہوئے جسم سے اوپر اٹھنے کی خواہش سے ہم کنار کرتا ہے۔ چناںچہ فرد کے قالب میں سماج کی وسعت پیدا ہوتی ہے۔
اوراقِ گزشتہ میں کی گئی گفتگو کے بعد یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں، وہ اپنے مزاج، احوال اور کیفیات میں ماسبق تاریخ کے تمام ادوار سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ چناںچہ ہمیں یہ بات واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ ہر وہ سماج جو آج اپنی تہذیبی شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہے، وہ اس وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ یہ اُس کی بقا کی جنگ ہے۔ وقت نے اس سے پہلے بھی تاریخ کو بدلتے اور بہت اندھے موڑ کاٹتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن جس نہج پر وہ آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں آئی۔
آج تہذیب پر باہر ہی سے یورش نہیں ہورہی ہے، بلکہ اس کے اندر کی تخریبی قوتیں بھی اس سے برسرِ پیکار ہیں۔ یہ سخت ابتلا کا زمانہ ہے- لیکن یہ عالمگیریت، نئی سامراجیت کا یہ عفریت آسانی سے ہم پر ابھی تک غلبہ نہیں پاسکا ہے، اور اس وقت تک نہیں پاسکتا جب تک کہ ہمارا ادب اور ہمارے ثقافتی اقدار زندہ ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم سب محاذِ جنگ پر ہیں، لیکن طمانیت بخش اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہم تنہا اور نہتے نہیں ہیں۔ ہمارے فن کار، ہمارے ادیب، ہمارے شاعر اور اہلِ دانش ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیں کمک پہنچا رہے ہیں۔ اپنی ساری قوتیں مجتمع کرکے اور متحد ہوکر لڑنے والی تہذیبیں ہارا نہیں کرتیں۔ وہ زندہ رہتی ہیں- قوت کے ساتھ، جذبے کے ساتھ اور شان کے ساتھ۔