کیچڑاورآلودگی سے الرجی سمیت پیٹ کی بیماریاں پھیلنے لگیں
چکن گنیا اورملیریامیں مبتلاہیں،چکن گنیاسے متاثرہ افرادجوڑوں کے شدید درد سے نجات نہ پاسکے
کراچی کے مضافاتی علاقوں سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں کچرے کے ڈھیروں اور کیچڑ سے مچھروں، مکھیوں اور حشرات الارض کی افزائش تیز ہوگئی شہر میں الرجی سمیت دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، کچرے اورکیچڑ کی صفائی نہ ہونے سے بارش کے بعد وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے ، شہر میں پہلے ہی ہزاروں افراد مچھروں کے کاٹنے سے ڈنگی، چکن گنیا اور ملیریا میں مبتلا ہیں۔
مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں ڈنگی، چکن گنیا اور ملیریا سے متاثرہ افراد مہینوں اسپتالوں میں داخل رہے جبکہ چکن گنیا کے متاثرہ افراد روبہ صحت ہونے کے باوجود جوڑوں کے شدید درد سے نجات نہیں پاسکے ہیں اس کے باوجود مچھروں کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے بتایا کہ ڈنگی کا موسم مون سون کی بارشوں سے شروع ہوتا ہے اکتوبر اور نومبرمیں یہ شدت اختیار کرکے اس قدر تیزی سے پھیلتا ہے کہ اسے قابوکرنا مشکل ہوجاتا ہے اور یہ وبائی صورت اختیار کرلیتا ہے اس کے تدارک کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اپریل، مئی اور جون میں بارش سے قبل ہی لاروا کو ختم کردے تاکہ ڈنگی و دیگر وائرسز نہ پھیل سکیں۔
شہریوں کی بھی ذمے داری ہے کہ گھروں کے اندر پانی ڈھانپ کر رکھیں، صحن ، نالی ، پودوں اورکیاریوں میں پانی کھڑا نہ رہنے دیں، اے سی سے گرنے والے پانی کی صحیح نکاسی کریں، فریج کی ٹرے کے پانی کو بھی روزانہ تبدیل کریں صفائی کا خاص خیال رکھیں گھروں میں جالیوں اور مچھر دانیوں کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پورے آستینوں والے کپڑے پہنیں، ماہر متعدی امراض ڈاکٹر نسیم صلاح نے بتایا کہ بارش کے بعد کچرا اور پانی جمع رہتا ہے جس پر گندگی ہوتی ہے جہاں مچھر اور مکھیاں انڈے دیتے ہیں اور 5 سے 7دن میں بڑی تعداد میں مچھر اور مکھیاں جنم لیتی ہیں جن سے ٹائیفائیڈ، ڈائریا اور پیٹ کے امراض پھیلتے ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ گندگی ، مچھر اور مکھیوں کے خاتمے کیلیے اقدامات کریں اور عوام کو چاہیے کہ پانی ابال کر پئیں۔
مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں ڈنگی، چکن گنیا اور ملیریا سے متاثرہ افراد مہینوں اسپتالوں میں داخل رہے جبکہ چکن گنیا کے متاثرہ افراد روبہ صحت ہونے کے باوجود جوڑوں کے شدید درد سے نجات نہیں پاسکے ہیں اس کے باوجود مچھروں کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے بتایا کہ ڈنگی کا موسم مون سون کی بارشوں سے شروع ہوتا ہے اکتوبر اور نومبرمیں یہ شدت اختیار کرکے اس قدر تیزی سے پھیلتا ہے کہ اسے قابوکرنا مشکل ہوجاتا ہے اور یہ وبائی صورت اختیار کرلیتا ہے اس کے تدارک کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اپریل، مئی اور جون میں بارش سے قبل ہی لاروا کو ختم کردے تاکہ ڈنگی و دیگر وائرسز نہ پھیل سکیں۔
شہریوں کی بھی ذمے داری ہے کہ گھروں کے اندر پانی ڈھانپ کر رکھیں، صحن ، نالی ، پودوں اورکیاریوں میں پانی کھڑا نہ رہنے دیں، اے سی سے گرنے والے پانی کی صحیح نکاسی کریں، فریج کی ٹرے کے پانی کو بھی روزانہ تبدیل کریں صفائی کا خاص خیال رکھیں گھروں میں جالیوں اور مچھر دانیوں کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پورے آستینوں والے کپڑے پہنیں، ماہر متعدی امراض ڈاکٹر نسیم صلاح نے بتایا کہ بارش کے بعد کچرا اور پانی جمع رہتا ہے جس پر گندگی ہوتی ہے جہاں مچھر اور مکھیاں انڈے دیتے ہیں اور 5 سے 7دن میں بڑی تعداد میں مچھر اور مکھیاں جنم لیتی ہیں جن سے ٹائیفائیڈ، ڈائریا اور پیٹ کے امراض پھیلتے ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ گندگی ، مچھر اور مکھیوں کے خاتمے کیلیے اقدامات کریں اور عوام کو چاہیے کہ پانی ابال کر پئیں۔