بھارت کی درسی کتاب میں مسجد کو ’’شورشرابے‘‘ کی وجہ قرار دینے کی سازش
کتاب چھٹی جماعت کے طالب علموں کو پڑھائی جارہی ہے
بھارت میں چھوٹے بچوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کی سازش کا انکشاف ہوا ہے اور یہ بات اُس وقت سامنے آئی جب چھٹی جماعت کی سائنس کی کتاب کے مضمون میں مساجد کو 'شور شرابے' کی ایک وجہ قرار دے دیا گیا۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نجی تعلیمی بورڈ انڈین سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن (آئی سی ایس ای) کے تحت چلنے والے اسکولوں میں چھٹی جماعت کے طالب علموں کو شور شرابے کا سبب بننے والی چیزوں کے بارے ایک سبق پڑھایا جارہا ہے جس میں ہوائی جہاز، ریل گاڑی، ٹریفک اور لاؤڈ اسپیکرز کو شور پیدا کرنے کی اہم وجہ بتایا گیا ہے جبکہ اسپیکرز کے بجائے کتاب میں مسجد کی تصویر بنائی گئی ہے جس سے بھارت میں مختلف حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مسجد کی تصویر پر تنازع پیدا ہونے کے بعد آئی سی ایس ای نے خود کو اس معاملے سے الگ کرلیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ بورڈ نہ کتاب چھاپتا ہے اور نہ اسکولوں کو اس حوالے سے ہدایات دی جاتی ہیں لہٰذا اسکول خود اس معاملے سے نمٹے۔ ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس کتاب کو اسکولوں کے نصاب سے ہٹانے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔
لوگوں کے بے پناہ احتجاج کے بعد مذکورہ کتاب کے پبلشر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے اور کہا ہے اگر اس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں جبکہ یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں یہ غلطی نہیں دہرائی جائے گی۔
خیال رہے کہ چند عرصے قبل بھارتی گلوکار سونو نگم نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اذان کے حوالے سے نازیبا کلمات ادا کیے تھے جس کے بعد بھارت بھر میں نئی بحث شروع ہوگئی تھی اور مسلمانوں سمیت ہندوؤں نے بھی سونو نگم کے اس بیان کی مذمت کی تھی۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نجی تعلیمی بورڈ انڈین سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن (آئی سی ایس ای) کے تحت چلنے والے اسکولوں میں چھٹی جماعت کے طالب علموں کو شور شرابے کا سبب بننے والی چیزوں کے بارے ایک سبق پڑھایا جارہا ہے جس میں ہوائی جہاز، ریل گاڑی، ٹریفک اور لاؤڈ اسپیکرز کو شور پیدا کرنے کی اہم وجہ بتایا گیا ہے جبکہ اسپیکرز کے بجائے کتاب میں مسجد کی تصویر بنائی گئی ہے جس سے بھارت میں مختلف حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مسجد کی تصویر پر تنازع پیدا ہونے کے بعد آئی سی ایس ای نے خود کو اس معاملے سے الگ کرلیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ بورڈ نہ کتاب چھاپتا ہے اور نہ اسکولوں کو اس حوالے سے ہدایات دی جاتی ہیں لہٰذا اسکول خود اس معاملے سے نمٹے۔ ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس کتاب کو اسکولوں کے نصاب سے ہٹانے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔
لوگوں کے بے پناہ احتجاج کے بعد مذکورہ کتاب کے پبلشر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے اور کہا ہے اگر اس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں جبکہ یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں یہ غلطی نہیں دہرائی جائے گی۔
خیال رہے کہ چند عرصے قبل بھارتی گلوکار سونو نگم نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اذان کے حوالے سے نازیبا کلمات ادا کیے تھے جس کے بعد بھارت بھر میں نئی بحث شروع ہوگئی تھی اور مسلمانوں سمیت ہندوؤں نے بھی سونو نگم کے اس بیان کی مذمت کی تھی۔