مستقبل میں اولاد کیلئے جنسی اختلاط کی ضرورت نہیں ہو گی

آئندہ 20 سے 30 برسوں میں بچے کی پیدائش کا نیا طریقہ رائج ہوچکا ہو گا، امریکی پروفیسر


ویب ڈیسک July 02, 2017
مذکورہ طریقے سے ہونے والے بچے میں صرف وہی خصوصیات آسکیں گی جو اسکے والدین میں ہوں گی، امریکی پروفیسر۔ فوٹو: فائل

امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہانک گریلی نے دعویٰ کیا ہے کہ مستقبل میں انسانوں کو اولاد کے حصول کے لیے جنسی اختلاط کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ اس وقت تک بچے کی پیدائش کا نیا سائنسی طریقہ رائج ہو چکا ہو گا۔

معروف امریکی ویب سائٹ کواٹز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پروفیسر ہانک گریلی کہتے ہیں کہ فی الحال ان کا یہ دعویٰ لوگوں کو جھوٹا لگ سکتا ہے لیکن آئندہ 20 سے 30 برسوں کے دوران یہ ایک مسلمہ حقیقت ہو گی۔ اسٹینفورڈ لاء اسکول کے سینٹر برائے لاء اینڈ بائیوسائنسز کے سربراہ ہانک گریلی سمجھتے ہیں کہ چند دہائیوں بعد امریکا میں زیادہ تر بچوں کی پیدائش کا عمل لیب میں والدین کے ڈی این اے سے تیار کیے گئے متعدد جنین (ایمبریو) کے انتخاب سے شروع ہو گا۔

گریلی کے مطابق یہ طریقہ آج بھی موجود ہے تاہم اس وقت یہ محض بیماریوں کو بچے میں منتقل ہونے سے روکنے اور جنس کے تعین کے لیے محدود پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن آنے والے وقتوں میں یہ طریقہ زیادہ آسان اور سستا ہو جائے گا اور اس کا سہرا اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کو جائے گا جس کی بدولت مرد اور عورت کی جلد سے لیے گئے اسٹیم سیلز کی مدد سے اچھے معیار کے انڈے اور نطفے تیار کیے جاسکیں گے۔

گریلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں بچے کی خواہش رکھنے والے جوڑے سب سے پہلے جنین کی جینیاتی اسکریننگ کرائیں گے تاکہ ان کے ہونے والے بچے میں بریسٹ کینسر، الزائمر اور دیگر بیماریوں کے امکانات کم سے کم ہوں۔ اس کے علاوہ والدین اپنے ہونے والے بچے کے بال، آنکھوں کے رنگ اور ذہانت وغیرہ تک منتخب کر سکیں گے۔

امریکی پروفیسر کہتے ہیں کہ ایسا کرنا قدرت کے کاموں میں مداخلت نہیں ہو گا کیوں کہ مذکورہ طریقے سے ہونے والے بچے سپر بے بیز نہیں ہوں گے، یہ محض جنین کے انتخاب کا معاملہ ہے اور جو خصوصیات والدین میں ہوں گی صرف وہی بچے میں آسکیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں