سانحہ احمد پور شرقیہ
لوگوں کی جانوں کو ناگہانی واقعات سے تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت وقت کا ہی فریضہ ہے۔
جون کی پچیس تاریخ کو احمد پور شرقیہ میں ایک انتہائی اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے۔ بتایا یہ جا رہا ہے کہ اس واقعہ میں دو سو سے زائد افراد جل کر لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ حسبِ روایت اس واقعے سے اپنی سیاست کو چمکانے کی خاطر بیان بیازی کا پرانا سلسلہ چل نکلا ہے، جسے پاکستانی سیاست میں مرکزی مقام حاصل ہے۔
احمد پور شرقیہ کے اس رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعے کے بعد پاکستانی عوام ایک بار پھر تقسیم کا شکار ہو کر عجیب و غریب قسم کے نتائج اخذ کرنے میں مصروف ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اس واقعہ کی ''مابعد الطبیعاتی'' وجوہات تلاش کر رہے ہیں۔ یہ فکر کوئی نئی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک روایتی مذہبی فکر ہے جو بدعنوان اور استحصالی سیاسی قیادتوں کی ترجیحات سے ہم آہنگ ہوکر ان کو اور ان کے مسلط کیے گئے استحصال و جبر کو دوام عطا کرنے کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہے۔
اس کا مقصد مذہبی ذہن کا استحصال کرتے ہوئے ''قوم'' کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اس قسم کے اندوہناک اور درد انگیز واقعات کے ذمے دار، دراصل وہ لوگ خود ہیں، یا پھر اس ملک میں برائی بہت زیادہ پھیل چکی ہے، اس لیے ''حقیقت مطلق'' انھی لوگوں کے ارتکاب کیے گئے گناہوں کی سزا انھی لوگوں کو دے کر ان کو یہ احساس دلانا چاہتی ہے کہ سدھر جاؤ ورنہ اس سے بڑا عذاب بھی متوقع ہوسکتا ہے۔ اس فکر کا اکلوتا مقصد ریاست اور ریاستی اداروں پر براجمان حکومتوں کو ان کے ارتکاب شدہ ان گناہوں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے کہ ظلم، استحصال، جبر، دہشت اور افلاس، حتیٰ کہ اس قسم کے ناگہانی واقعات بھی جن کی پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جو مختلف رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں، ان میں سے سیاسی فکر سے ہم آہنگ مذہبی فکر کے تابع ایک گروہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ چوری بہت بری چیز ہے، اور ایسے لوگوں کو یہ سزا صرف اس لیے ملی ہے کہ انھوں نے چوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات تو بالکل ہی عجیب وغریب اور پاکستان کے استحصالی نظام پر مسلط ان سیاسی جماعتوں کو ایک طرح سے مکمل طور پر کلین چٹ دینے کے مترادف ہے، جنھوں نے بدعنوانی اور چوری کے میدان میں ریکارڈ قائم کررکھے ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ یہ سیاسی جماعتیں نہ صرف یہ کہ ''مابعد الطبیعاتی'' عذاب سے محفوظ ہیں بلکہ ان کی سیاسی افزائش کچھ اس تیزی سے جاری ہے کہ اب ان کی تیسری نسل بھی پاکستان کے لوگوں پر کامیابی سے مسلط ہو چکی ہے۔ ان معنوں میں چوری بذات خود کسی عذاب کی شرط نہیں ہے۔
ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ دو سو سے زیادہ لوگوں کے انتہائی بے رحمانہ طریقے سے جھلس کر لقمہ اجل بن جانے کی وجہ ان کی ''جہالت'' ہے۔ یعنی لوگوں کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ آگ اور تیل کے درمیان تعلق کس حد تک جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے؟ اگر ''جہالت'' کو وجہ تسلیم کر لیا جائے تو اس کے ساتھ ہی یہ نکتہ بھی کھڑا ہوجاتا ہے کہ عام لوگوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمے داری بھی حکومتوں کی ہوتی ہے، اور جب تعلیم کی مستقل کمی یا کسی بھی تعلیمی نظام میں مذہب کی اس حد تک شمولیت کہ سب کچھ رضائے الٰہی سے ہی ممکن ہوتا ہے، تو ایسے میں تعلیم ان لوگوں کا کیا بگاڑ پائے گی۔
تعلیمی نظام میں اس سطح کی فکر کو راسخ کرنا کہ سماجی اور سیاسی وجوہات کی جگہ الٰہیاتی جہت کو اہمیت دی جائے، اس کا بھی یہی مطلب نکلتا ہے کہ چیزوں، خیالات، تصورات اور رجحانات کو ان کی ٹھیک سمت میں تشکیل پانے سے روکا جا رہا ہے اور ایسا صرف ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں تعلیمی نظام کا مقصد غالب سیاسی ، معاشی اور سماجی نظام کو برقرار رکھنا مقصود ہو۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انتہائی بنیادی سہولیات جیسا کہ روٹی، کپڑا، مکان اور صحت کی فراہمی حکومت کا فرض ہے۔
لوگوں کی جانوں کو ناگہانی واقعات سے تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت وقت کا ہی فریضہ ہے۔ موجودہ حکومت نے مرنے والوں کے گھر والوں کو بیس لاکھ اور زخمی ہونے والوں کے گھر والوں کو دس لاکھ دینے کا وعدہ کرکے بالواسطہ اپنی اس ذمے داری کو تسلیم ہی کیا ہے، جس کی کوتاہی اس اندوہناک واقعے کا باعث بنی ہے۔
تعلیم کے حوالے سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مختلف طبقات کو نچلی سطح تک تعلیم دی جائے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مختلف طبقات تک اپنے عہد کے جدید علوم کو پہنچایا جائے۔ وہ علوم جو ہر واقعہ سے خارجی علت کو حذف کرتے ہوئے اس واقعے کے اندر سے ہی اس کے برپا ہونے کی وجوہات تلاش کریں اور حقیقی ذمے داروں کا تعین کرنے میں مشکل محسوس نہ ہو۔
یہ بات بہرحال ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہر سماجی عمل کے وسط میں سیاسی وجوہات پہلے ہی سے موجود ہوتی ہیں۔ اور جب اس نوع کے واقعات پیش آئیں جن میں شکار ہونے والوں کی اجتماعی فکر میں مکمل تطابق ہو تو اس سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ فکر و رجحان ایک طویل سیاسی، معاشی اور سماجی عمل کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔
سیاسی عمل کوئی خارجی وجہ نہیں ہے، جس کے اندر واقعات کو داخل کرنا ہے۔ یہ داخلی علت ہے جو کسی واقعے سے قبل ہی اس واقعے کے اندر موجود ہوتی ہے۔ احمد پور شرقیہ میں ہونے والے واقعے میں سیاسی عمل واقعے سے پہلے ہی اس میں موجود ہے۔ کسی بھی واقعے میں سیاسی عمل کا محض ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کا موثر طریقے سے ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر تیل کا کنٹینر گرگیا، اس میں سے تیل باہر آنا شروع ہوگیا۔ اب یہ پولیس کی ذمے داری تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کنٹینر کے نزدیک کوئی بھی عام آدمی نہ آسکتا۔
اگر پولیس کم تھی تو متوقع واقعے کی نوعیت کو سمجھا جاتا، پولیس کی نفری میں اضافہ کیا جاتا، لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی انتہائی ممکنہ کوشش کی جاتی۔ ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے فائر فائٹر کی ایک بڑی تعداد کا اس جگہ پر موجود ہونا بھی بہت ضروری تھا۔ لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں تھا، آگ اور تیل کا باہمی عمل اتنا ہی آزادانہ طریقے سے تباہی مچانے میں آزاد تھا، جتنا سیاسی عمل میں مختلف سیاسی جماعتیں ظلم و استحصال کرنے میں آزاد ہوتی ہیں۔ اپنے فرائض سے انحراف کرنا اور دوسروں پر ذمے داری ڈالنا اجتماعی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔
سیاست دانوں کی عادت تو یہی بن گئی ہے کہ جب ان کے تیار کردہ جمہوریت کے چوکھٹے کو 'خطرہ' درپیش ہو تو وہ ''ترقی'' اور ''جمہوریت'' کے بارے میں مغربی ممالک سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔ تاہم جب احساس ذمے داری اور ناگہانی واقعات سے نمٹنے کے لیے مغربی ممالک کے متعلقہ اداروں سے مثالیں پیش کی جاتی ہیں تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہاں ابھی جمہوریت ''میچور'' نہیں ہوئی ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان کی موروثی سیاست میں تیسری نسل بھی سیاسی عمل کا حصہ بن چکی ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ ابھی سیاست میچور نہیں ہوئی؟
اس کی اکلوتی وجہ صرف یہ ہے کہ جہاں ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر مقدم ٹھہریں وہاں صرف اپنے جرائم کے عذر تراشے جاتے ہیں۔ رواں ماہ ہی لندن میں ایک عمارت کو آگ لگنے سے ستر سے زائد لوگ دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ اس کے بارے میں یورپ کی ایک لا فرم کہتی ہے کہ ''چوبیس گھنٹے کے اندر انکوائری رپورٹ آئی کہ اس میں غلط مواد استعمال ہوا تھا۔ اس طرح کا مواد لندن کی بہت سی عمارتوں میں استعمال ہوا ہے۔ حکومت اور کونسل نے لندن کی عمارات جن میں یہ مواد استعمال ہے ان کو لوگوں سے خالی کرانا شروع کر دیا ہے اور ذمے داروں کے تعین کے لیے انکوائری کے ساتھ ساتھ پورے لندن میں مواد کی تبدیلی تیزی سے جاری ہے''۔
یہ تو لندن کی صورتحال تھی۔ ہمارے ہاں تو بعض دانشور سیاسی عمل کو ہی مستثنیٰ قرار دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور جن لوگوں کو سیاست اور سماج کے درمیان پیچیدہ تعلق کی نوعیت ہی کا نہیں پتا وہ ان دو سو مرنے والوں کو ہی اپنی موت کا قصووار ٹھہرا کر حکومت کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کہ سیاست کے اندر سماجی واقعات بالکل ایسے ہی موجود ہوتے ہیں جیسے بیج کے اندر پودا اور پھر پودے کے اندر پھل موجود ہوتا ہے۔