قومی مفادات کا فلسفہ
ہزاروں سال سے مشترکہ قومی مفاد کے حامل ملک کے قومی مفاد تقسیم ہوگئے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست شاطروں نے دنیا کے وسائل کی لوٹ مار کھربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے لیے جو فراڈ فلسفے ایجاد کیے ہیں ان میں ایک اہم ترین فلسفہ ''قومی مفادات'' کا ہے۔ انسانوں کی ملکوں اور قوموں میں تقسیم کے بعد ان کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے ''قومی مفادات'' کا شاطرانہ فلسفہ گھڑا گیا۔ جب تک ہم قومی مفادات کی منطق کو نہیں سمجھیں گے اس سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔
اس حوالے سے یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومی مفادات کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت تقسیم بھی کیا جاتا ہے، اس حوالے سے سب سے بڑی مثال خود ہندوستان ہے۔ 1947 سے قبل ہزاروں سال تک ہندوستان ایک متحدہ ملک رہا، ان ہزاروں سال میں لگ بھگ ایک ہزار سال کا وہ عرصہ بھی شامل ہے جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت رہی، اس ہزار سالہ دور میں ہندوستان میں رہنے والے ہندوستانی ہی تھے، جن میں ہندو، مسلمان، سکھ عیسائی وغیرہ شامل تھے، لیکن اقتدار کی لڑائیوں اور سازشوں کے علاوہ قوم و ملک کے حوالے سے ایسے بڑے تضادات موجود نہ تھے جو تقسیم ملک کا باعث بنتے۔ اس متحدہ ہندوستان میں دفاع کا ایک ہی شعبہ تھا اور مختلف قومیتوں پر مشتمل ایک ہی فوج تھی۔
جب نو آبادیاتی دور ختم ہونے لگا اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا ناگزیر ہوگیا تو انھوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات شروع کردیے، یہ کام انگریزوں نے ہندوستانیوں سے کروایا اور فرقہ وارانہ نفرتوں کو اس قدر شدید کروایا گیا کہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہوگئی۔
اقبال جو متحدہ ہندوستان کی عظمت کے گیت گاتے تھے اور ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا'' کہتے تھے، اپنے اس خواب کے ساتھ رخصت ہوئے، بلکہ ان کی زندگی ہی میں تقسیم کا زہر ہندوستانی عوام کے ذہنوں میں گھول دیا گیا تھا اور دو قوموں کا نعرہ اس زور سے لگایا گیا کہ اس کی صدائے بازگشت سے سارا ہندوستان گونجنے لگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیسویں صدی ہی میں ہندوستان میں دو قومیں وجود میں آئیں؟ مسلمانوں کی تعداد ہندوستان میں لگ بھگ بارہ فیصد تھی اور یہ بارہ فیصد آبادی ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرتی رہی۔ کیا اس دور میں ہندوستان دو قوموں میں بٹا ہوا نہیں تھا؟ تھا، ایک ہزار سال سے نہیں، بلکہ محمد بن قاسم کی ہندوستان آمد کے بعد سے ہی ہندوستان دو قوموں میں بٹ گیا تھا، لیکن اس حوالے سے ملک کی تقسیم کی آواز کہیں سے نہیں اٹھتی تھی، جب انگریزوں کو ہندوستان سے رخصت ہونا ناگزیر ہوگیا تو انھوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فرقہ وارانہ نفرتوں کی آگ بھڑکائی اور دونوں قوموں کی قیادت کو مجبور کردیا گیا کہ وہ ملک کی تقسیم قبول کرلیں۔ سو 14 اگست 1947 کو ملک تقسیم ہوگیا اور تاریخ کے وہ بدترین فسادات ہوئے جن میں لگ بھگ 22 لاکھ انسان مارے گئے۔
ہزاروں سال سے مشترکہ قومی مفاد کے حامل ملک کے قومی مفاد تقسیم ہوگئے۔ ہندوستان کے قومی مفادات اور پاکستان کے قومی مفاد تقسیم ہی نہیں ہوئے بلکہ متصادم بھی ہوگئے۔ متحدہ ہندوستان کی ایک متحدہ فوج تھی، اب دونوں ملکوں کی دو الگ الگ فوجیں بن گئیں اور مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں سے ہتھیاروں کی خریداری کا سلسلہ شروع ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے اب اربوں ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور یہ بھاری رقم جو عوام کا پیٹ کاٹ کر دفاع پر خرچ کی جا رہی ہے وہ مغرب کے ہتھیاروں کی صنعت کے مالکوں کی جیب میں جا رہی ہے۔
اس سازش کے علاوہ ایک سازش یہ کی گئی کہ پاکستان کو مغربی ملکوں کا باج گزار بناکر اسے سیٹو سینٹو اور بغداد پیکٹ میں گھسیٹ کر سوشلسٹ بلاک سے نہ صرف الگ کردیا گیا بلکہ اسے سوشلسٹ بلاک سے متصادم بھی کردیا گیا جس کی وجہ پاکستان مغرب کا محتاج ہوکر رہ گیا۔
انگریزوں نے ایک ستم اور کیا کہ کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان نفرتوں کا الاؤ بناکر رکھ دیا۔ جس میں اب تک لاکھوں کشمیری جل چکے ہیں اور اب تک جل رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں نے ایک اور شاطرانہ فلسفہ ''طاقت کے توازن'' کے نام پر گھڑا، جس کا مقصد قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر مغربی ملکوں سے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری ہے۔ اس سازش کو کیمو فلاج کرنے کے لیے جمہوریت کا وہ مینار کھڑا کردیا گیا جس پر قومی مفاد کو لٹکادیا گیا۔
جمہوریت کا مطلب اکثریت کی رائے ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی مسائل کے حوالے سے اکثریت کو اہمیت دی جاتی ہے؟ انتخابات کا ڈھونگ رچا کر اشرافیہ اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے اور قومی مفاد کے فلسفے کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے عوام جنگ نہیں چاہتے لیکن قومی مفاد کے نام پر دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ تین جنگیں لڑ چکا ہے اور چوتھی کی تیاری میں ہے۔
قومی مفادات کے تحفظ ہی کے نام پر دونوں غریب ملکوں کا حکمران طبقہ ایٹم بم بنا چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں کے سرمائے سے کھڑا کیا گیا ایٹمی نظام قابل استعمال ہے؟ کیا بھارت یا پاکستان کبھی ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، لیکن قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ان ہتھیاروں کا ہونا ضروری ہے۔
بھارت کے قومی مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ کشمیر میں موجود اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کے سر پر سوار رہے، پاکستان کے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ کشمیریوں کی جنگ آزادی کی ''اخلاقی اور سفارتی'' مدد کرے۔ یہ ہے قومی مفادات کی ایک جھلک جس میں قوم کی مرضی کا دخل نہیں ہوتا بلکہ قوم کے جعلی مینڈیٹ کے نام پر حکمران طبقات اپنے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور یہ سب قومی مفادات کی آڑ میں ہوتا ہے۔
اس حوالے سے یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومی مفادات کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت تقسیم بھی کیا جاتا ہے، اس حوالے سے سب سے بڑی مثال خود ہندوستان ہے۔ 1947 سے قبل ہزاروں سال تک ہندوستان ایک متحدہ ملک رہا، ان ہزاروں سال میں لگ بھگ ایک ہزار سال کا وہ عرصہ بھی شامل ہے جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت رہی، اس ہزار سالہ دور میں ہندوستان میں رہنے والے ہندوستانی ہی تھے، جن میں ہندو، مسلمان، سکھ عیسائی وغیرہ شامل تھے، لیکن اقتدار کی لڑائیوں اور سازشوں کے علاوہ قوم و ملک کے حوالے سے ایسے بڑے تضادات موجود نہ تھے جو تقسیم ملک کا باعث بنتے۔ اس متحدہ ہندوستان میں دفاع کا ایک ہی شعبہ تھا اور مختلف قومیتوں پر مشتمل ایک ہی فوج تھی۔
جب نو آبادیاتی دور ختم ہونے لگا اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا ناگزیر ہوگیا تو انھوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات شروع کردیے، یہ کام انگریزوں نے ہندوستانیوں سے کروایا اور فرقہ وارانہ نفرتوں کو اس قدر شدید کروایا گیا کہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہوگئی۔
اقبال جو متحدہ ہندوستان کی عظمت کے گیت گاتے تھے اور ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا'' کہتے تھے، اپنے اس خواب کے ساتھ رخصت ہوئے، بلکہ ان کی زندگی ہی میں تقسیم کا زہر ہندوستانی عوام کے ذہنوں میں گھول دیا گیا تھا اور دو قوموں کا نعرہ اس زور سے لگایا گیا کہ اس کی صدائے بازگشت سے سارا ہندوستان گونجنے لگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیسویں صدی ہی میں ہندوستان میں دو قومیں وجود میں آئیں؟ مسلمانوں کی تعداد ہندوستان میں لگ بھگ بارہ فیصد تھی اور یہ بارہ فیصد آبادی ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرتی رہی۔ کیا اس دور میں ہندوستان دو قوموں میں بٹا ہوا نہیں تھا؟ تھا، ایک ہزار سال سے نہیں، بلکہ محمد بن قاسم کی ہندوستان آمد کے بعد سے ہی ہندوستان دو قوموں میں بٹ گیا تھا، لیکن اس حوالے سے ملک کی تقسیم کی آواز کہیں سے نہیں اٹھتی تھی، جب انگریزوں کو ہندوستان سے رخصت ہونا ناگزیر ہوگیا تو انھوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فرقہ وارانہ نفرتوں کی آگ بھڑکائی اور دونوں قوموں کی قیادت کو مجبور کردیا گیا کہ وہ ملک کی تقسیم قبول کرلیں۔ سو 14 اگست 1947 کو ملک تقسیم ہوگیا اور تاریخ کے وہ بدترین فسادات ہوئے جن میں لگ بھگ 22 لاکھ انسان مارے گئے۔
ہزاروں سال سے مشترکہ قومی مفاد کے حامل ملک کے قومی مفاد تقسیم ہوگئے۔ ہندوستان کے قومی مفادات اور پاکستان کے قومی مفاد تقسیم ہی نہیں ہوئے بلکہ متصادم بھی ہوگئے۔ متحدہ ہندوستان کی ایک متحدہ فوج تھی، اب دونوں ملکوں کی دو الگ الگ فوجیں بن گئیں اور مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں سے ہتھیاروں کی خریداری کا سلسلہ شروع ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے اب اربوں ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور یہ بھاری رقم جو عوام کا پیٹ کاٹ کر دفاع پر خرچ کی جا رہی ہے وہ مغرب کے ہتھیاروں کی صنعت کے مالکوں کی جیب میں جا رہی ہے۔
اس سازش کے علاوہ ایک سازش یہ کی گئی کہ پاکستان کو مغربی ملکوں کا باج گزار بناکر اسے سیٹو سینٹو اور بغداد پیکٹ میں گھسیٹ کر سوشلسٹ بلاک سے نہ صرف الگ کردیا گیا بلکہ اسے سوشلسٹ بلاک سے متصادم بھی کردیا گیا جس کی وجہ پاکستان مغرب کا محتاج ہوکر رہ گیا۔
انگریزوں نے ایک ستم اور کیا کہ کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان نفرتوں کا الاؤ بناکر رکھ دیا۔ جس میں اب تک لاکھوں کشمیری جل چکے ہیں اور اب تک جل رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں نے ایک اور شاطرانہ فلسفہ ''طاقت کے توازن'' کے نام پر گھڑا، جس کا مقصد قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر مغربی ملکوں سے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری ہے۔ اس سازش کو کیمو فلاج کرنے کے لیے جمہوریت کا وہ مینار کھڑا کردیا گیا جس پر قومی مفاد کو لٹکادیا گیا۔
جمہوریت کا مطلب اکثریت کی رائے ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی مسائل کے حوالے سے اکثریت کو اہمیت دی جاتی ہے؟ انتخابات کا ڈھونگ رچا کر اشرافیہ اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے اور قومی مفاد کے فلسفے کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے عوام جنگ نہیں چاہتے لیکن قومی مفاد کے نام پر دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ تین جنگیں لڑ چکا ہے اور چوتھی کی تیاری میں ہے۔
قومی مفادات کے تحفظ ہی کے نام پر دونوں غریب ملکوں کا حکمران طبقہ ایٹم بم بنا چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں کے سرمائے سے کھڑا کیا گیا ایٹمی نظام قابل استعمال ہے؟ کیا بھارت یا پاکستان کبھی ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، لیکن قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ان ہتھیاروں کا ہونا ضروری ہے۔
بھارت کے قومی مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ کشمیر میں موجود اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کے سر پر سوار رہے، پاکستان کے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ کشمیریوں کی جنگ آزادی کی ''اخلاقی اور سفارتی'' مدد کرے۔ یہ ہے قومی مفادات کی ایک جھلک جس میں قوم کی مرضی کا دخل نہیں ہوتا بلکہ قوم کے جعلی مینڈیٹ کے نام پر حکمران طبقات اپنے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور یہ سب قومی مفادات کی آڑ میں ہوتا ہے۔