مزید کتنی لاشیں اٹھانا ہوں گی
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان نے دشمنوں کے نیٹ ورک کو بڑی حد تک نقصان پہنچایا ہے
رمضان المبارک کی آخری ساعتوں میں پوری قوم کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر خوشی سے سرشار ہو کر عید کا استقبال کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ کوئٹہ اور پارا چنار میں پے در پے دہشت گردی کی وارداتوں اور بہاول پور کے قریب آئل ٹینکر میں آتشزدگی کے ہولناک واقعہ نے عید کی خوشیوں کو سوگ میں تبدیل کردیا، پوری قوم افسردہ ہوئی، ماحول سوگوار ہوگیا، سانحہ احمد پور شرقیہ میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد کا زندہ جل جانا اور بڑی تعداد میں دیگر افراد کا جھلس جانا پوری قوم کے لیے دلی صدمے کا باعث ہے، الٹنے والے ٹینکر سے پٹرول جمع کرنے کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا موت کی آغوش میں چلے جانا جہاں انتظامیہ کی نااہلی اور غیر ذمے داری کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں اسی سانحہ نے ہم سب کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں کہ کسی نے پٹرول لوٹنے والوں کو نہیں روکا، حالانکہ اس لوٹ مار میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔
اس حادثے سے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی وڈیو کلپ میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ لالچ میں اندھے ہو چکے تھے، ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پٹرول جمع کرنے میں دیوانہ ہو رہا تھا، لوگ دیگچیاں، واٹرکولر، بالٹیاں اور پانی کی خالی بوتلیں اٹھائے اس لوٹ مار میں شریک تھے کہ خوفناک آگ بھڑک اٹھی، جس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو نگل لیا، بعد میں جھلس جانے والوں کی اموات سے مرنے والوں کی تعداد دو سو کے قریب پہنچ چکی ہے۔
پنجاب کی حکومت نے اس سانحہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ٹینکر کیوں الٹا اور پھر اس میں آگ کس طرح لگی۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ نوکریوں سے برطرف کر دیے جائیں مگر لالچ اور جہالت کی سزا آپ کس کس کو دے سکیں گے؟
سانحہ احمد پور شرقیہ سے دو دن پہلے جمعۃ الوداع کی صبح کوئٹہ میں آئی جی آفس کے اردگرد کا علاقہ زوردار دھماکے سے لرز اٹھا، گلستان چوک پر اس دھماکے میں 6 پولیس اہلکاروں سمیت 15 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوئے، اسی دن کرم ایجنسی کے دارالحکومت پارا چنار کے طوری بازار میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں 70 سے زائد افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اس نے دشمنوں کے نیٹ ورک کو بڑی حد تک نقصان پہنچایا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گرد اب بھی اپنی کمین گاہوں میں موجود ہیں اور موقع ملتے ہی وہ بے گناہوں کا خون بہا کر اپنے سفاکانہ ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں۔
ہمارے سیکیورٹی اداروں نے اس جنگ میں اگرچہ بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بعض اوقات لگتا ہے کہ معاملات قابو میں آگئے ہیں لیکن ایک ہی دن کوئٹہ، پارا چنار اور کراچی میں دھماکوں اور فائرنگ کی وارداتوں سے واضح ہوگیا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک کمزور ضرور ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، پاکستان کو اس سے نمٹنے میں نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی دشمنوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے ہمارا پڑوسی ملک انگاروں پر لوٹ رہا ہے، کچھ دوسری طاقتیں بھی اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں، کوئٹہ اور پارا چنار میں کی جانے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں ٹائمنگ کافی اہمیت رکھتی ہے، ایک دن پہلے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اقدامات پر معافی مانگی اور چیف آف آرمی اسٹاف سے اپنے لیے رحم کی اپیل کی، جس کے اگلے دن ہی کوئٹہ اور پارا چنار لہو میں نہلا دیے گئے اور کراچی میں 4 پولیس اہلکاروں کو جاں بحق کر دیا گیا۔
یہ بعید از قیاس نہیں کہ دہشت گردوں کو کہیں سے اشارہ ملا ہو گا، کلبھوشن کا اعترافی بیان منظر عام پر آنے کے فوری بعد تخریبی کارروائیاں معنی خیز ہیں، جو ظاہر کر رہی ہیں کہ دہشت گردوں کے ڈانڈے کہاں جا کر ملتے ہیں، آزاد بلوچستان کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کی ہمدردیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
دہشت گردی کی ان تازہ وارداتوں میں پاک افغان کشیدگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے یہ کہنا کہ جب بھی افغان سرحد کھولی جاتی ہے تو اس طرح کے واقعات شروع ہو جاتے ہیں، اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔
افغانستان کے دشوار گزار علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور وہ ان محفوظ ٹھکانوں سے نکل کر پاکستان میں وارداتیں کرتے ہیں، اس عمل میں انھیں افغان حکومت کی خاموش تائید حاصل ہے، ورنہ ان کا اس طرح اپنے ٹھکانوں کو محفوظ بنائے رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، کیوں کہ افغانستان میں امریکی افواج کی وجہ سے دنیا کا جدید ترین مواصلاتی جاسوسی نظام موجود ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان حکومت جب چاہے ان ٹھکانوں کو تباہ کر سکتی ہے، مگر وہ پاکستان دشمن طاقتوں کی ایما پر پاکستان کے ساتھ تعاون سے گریزاں ہے اور پاکستان کی جانب سے بار بار دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھانے کے باوجود اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے، جس کے جواب میں اب پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے۔ پاک افغان بارڈر پر چیکنگ کا نظام مزید موثر بنایا جائے تاکہ سرحد پار سے دہشت گرد پاکستان میں داخل نہ ہو سکیں، اسے کچھ عرصے کے لیے بند بھی کیا جاسکتا ہے۔
سرکاری سطح پر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، وہ اطمینان بخش ہیں، تاہم ہمیں اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ سیاسی اونچ نیچ، معاشی تنگ دستی، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت نے انتہا پسندی کی کئی جہتیں متعارف کروا رکھی ہیں اور ہمارے دشمن اسی کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی خواہش مند قوتیں ان ہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے سرگرم ہیں۔
اس لیے ضروری ہو گا کہ قوم دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے بعد شروع کیے جانے والے آپریشن رد الفساد کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لیے متحد ہو جائے، اس مشن میں فتح یابی کے سوا ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں، قوم کو یقین ہے کہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت بالآخر دہشت گردوں کو شکست دیدے گی، مگر اس کے ساتھ ہی ایک معصوم سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر اس جنگ کو جیتنے میں ہمیں اور کتنا وقت لگے گا اور ہمیں مزید کتنی لاشیں اٹھانا ہوں گی؟