منشیات کی روک تھام کیسے ممکن

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو

پاکستان کو ڈرگ فری سٹیٹ بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ فوٹو: ایکسپریس

SUKKUR:
26جون کو ہر سال انسداد منشیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد منشیات کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی اور ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباََ ایک کروڑ افراد منشیات کا استعمال کررہے ہیں جبکہ اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کا رجحان بڑھ رہا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ ''انسداد منشیات کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سید رضا علی گیلانی (وزیر ہائر ایجوکیشن پنجاب )

ماضی میں منشیات کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا مگر اب پنجاب میں تمام متعلقہ ادارے اس پر موثر کام کررہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے خصوصی کمیٹی بنائی ہے جس کا میں رکن ہوں۔ ہمارا مقصد سکول سے لیکر کالج، یونیورسٹی کی سطح تک منشیات کا استعمال روکنا ہے۔ ہم اس حوالے سے تفتیش کر رہے ہیں، پبلک سیکٹر میں معاملات بہتر ہیں مگر نجی تعلیمی اداروں میں مسائل زیادہ ہیں۔منشیات کی روک تھام کے حوالے سے میکانزم بن گیا ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں فوکل پرسنز کی تعیناتیاں بھی ہوچکی ہیں۔ہمارا اصل مقصد منشیات کے بارے میں آگاہی دینا ہے اور پنجاب حکومت اس پر گھر سے سکول تک مہم چلانا چاہتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے جبکہ والدین کی طرف سے بھی کوتاہیاں ہیں جس کہ وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔پنجاب حکومت نے منشیات کے حوالے سے موثر اقدامات اٹھائے ہیں جن کے مثبت نتائج مل رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت بلڈ ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے لیکن ایسا امیدوار کی رضا مندی سے ہوگا کیونکہ ابھی اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔ اب منشیات بہت جدید ہیں جن کے بے حد برے اثرات ہیں۔ اس قسم کے نشے کو پکڑنے کیلئے ہمارے پاس لیبارٹریاں نہیں ہیں لہٰذا ہمیں خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ بحالی سینٹرز میں جدید سہولیات اور ڈاکٹر کی تربیت بھی انتہائی ضروری ہے۔ منشیات پر قابو پانے کیلئے ہمیں مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہنگامی اقدامات اٹھانا ہوں گے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا۔ منشیات و دیگر برائیوں کی حوصلہ شکنی کیلئے ان موضوعات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جارہا ہے تاکہ طلبہ کی تربیت ہوسکے۔ منشیات کے حوالے سے ہم قانون سازی سے پہلے اس پر عملدرآمد کے پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں، تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد قانون سازی کی جائیگی۔ ''ڈرگ فری'' پاکستان کی بات کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ سگریٹ، نسوار، چائے و دیگر قسم کی نشہ آور اشیاء ہمارے معاشرے میں رچ بس گئی ہیں،ہم درست ٹریک پر چل نکلے ہیں لہٰذا بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔

رضوان اکرم شیروانی (ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن لاہور )

منشیات کے حوالے سے وفاقی سطح پر اینٹی نارکوٹکس فورس کام کررہی ہے جبکہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ کام صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے۔ منشیات کی سپلائی، ڈیمانڈ، منشیات کے عادی لوگوں کی بحالی، علاج معالجہ و دیگر حوالے سے صوبے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے قانونی و ادارہ جاتی کام نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے سب سے پہلے پنجاب میں کام ہوا ہے ، تمام متعلقہ محکموں کو ان کاکام سونپ دیا گیا ہے اور پنجاب رولز آف بزنس میں ہر چیز شامل ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم ابھی تک عالمی معیار کا ادارہ جاتی نظام نہیں بنا سکے جس میں انٹیلی جنس، سرویلنس، سزا و جزا، کورٹ ، لیب و دیگر سہولیات موجود ہوں۔ پولیس ، ایف آئی اے، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن و دیگر ادارے منشیات کے حوالے سے اضافی کام کررہے ہیں۔ پہلی مرتبہ اس حوالے سے خاص ادارہ جاتی نظام بنایا جارہا ہے جس میں انٹیلی جنس، سزا و جزا و دیگر چیزیں موجود ہوں گی۔ رواں سال اس حوالے سے پہلا قانون پاس کیا جائے گا جبکہ ڈی جی اینٹی نارکوٹکس کی تعیناتی بھی کی جائے گی۔ اس نظام کو بننے میں ایک سال لگے گا جس کے بعد منشیات کی سپلائی میں واضح کمی آئیگی اور اس حوالے سے بھی پنجاب دیگر صوبوں کو لیڈ کریگا۔


سید ذوالفقار حسین (کنسلٹنٹ انسداد منشیات مہم)

انسداد منشیات کے حوالے سے عالمی دن منانے کے بنیادی مقاصد میں بین الاقوامی سطح پر لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا، اداروں کے مابین رابطے اور تعاون بہترکرنا، قوانین پر عملدر آمد اور علاج معالجے میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال گھمبیر ہے۔ 2012ء میں منسٹری آف اینٹی نار کوٹکس اور اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے تحت ہونے والے سروے کے مطابق پاکستان میں 67 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں۔ شراب کو منشیات میں شامل نہیں کیا جاتا، میرے نزدیک یہ بھی منشیات کا اہم حصہ ہے۔ اگر شراب، کرسٹل آئس ، پان، گٹکا و دیگر منشیات کو بھی شامل کرلیاجائے تو ایک کروڑ پاکستانی نشہ کررہے ہیں اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ UNODCکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نشہ کرنے والوں کی زیادہ تعداد 13سے 35سال عمر کی ہے جو ایک یا ایک سے زائد بار نشے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ اپر کلاس اورمڈل کلاس کے لوگوں کے نشے میں فرق ہے۔ اپر کلاس میں لوگ آئس کرسٹل، حشیش، ہیروئن و مختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں جبکہ مڈل کلاس کے لوگ فارماسوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کرانے کیلئے اینٹی نارکوٹکس فورس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ، پولیس، ایف آئی اے، کسٹم، فرنٹیئر کانسٹیبلری، ایئر پورٹ سیکورٹی فورس و دیگر ادارے موجود ہیں لیکن ان کے مابین رابطوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے منشیات کی روک تھام میں کامیابی نہیں مل رہی۔ فارماسیوٹیکل ڈرگز کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور لوگ انجیکشن و ادویات استعمال کررہے ہیں۔اس کو روکنا ہیلتھ اتھارٹی کا کام ہے کہ بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے کسی کو ادویات فروخت نہ کی جائیں۔ افسوس ہے کہ حکومت نے ابھی تک وفاق یا صوبوں کی سطح پر ڈرگز کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی اور نہ ہی منشیات کے عادی فرد کے علاج معالجے کو ہیلتھ پالیسی کا حصہ بنایا۔ علاج معالجے کو ہیلتھ پالیسی کا حصہ اور گڈ کوالٹی ٹریٹمنٹ پروگرام بنایا جائے تاکہ معاملات بہتر ہو سکیں۔ ہم نے لاہور کے دس علاقوں میں سروے کیا جس کے مطابق سکول کے بچے سگریٹ، گٹکا، شراب و دیگر منشیات کے عادی ہیں اور اپنے بیگوں میں یہ منشیات رکھتے ہیں۔ ان میں سرکاری و پرائیویٹ دونوں سکولوں کے طلبہ شامل ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ایسا صرف صوبہ پنجاب میں ہوا ہے ۔ پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں فوکل پرسن آن ڈرگز مقرر کیے ہیں جو صرف لاہور میں 146کے قریب ہیں جنہیں جولائی میں تربیت دی جائے گی جو تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کیلئے کام کریں گے۔ شیشہ کیفے کی آڑ میں منشیات کے اڈے قائم تھے۔ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں بھی اس کا رجحان بڑھ رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے شیشے کی درآمد پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔پنجاب میںشیشہ فروخت کرنے اور پینے والے کو 6ماہ قید اور 50ہزار روپے جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔

ڈاکٹر صداقت علی (ایڈیکشن سائیکاٹرسٹ)

نشے سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ جب آپ ایک مرتبہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں تو بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو کوئی کام نہیں کرنے دیتے بلکہ ان کا سارا زور پڑھائی پر ہوتا ہے اور وہ ا س کے سارے کام خود کردیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے بچہ آرام پسنداور کاہل ہوجاتا ہے اور اس میں کسی چیلنج کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی لیکن جب اسے مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ منشیات و دیگر برائیوں کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔منشیات کے عادی افراد میں ایک گروپ وہ ہے جو تعلیم حاصل کر کے کسی مقام پر پہنچ جاتا ہے لیکن جب انہیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ سکون کی خاطر منشیات کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ گزشتہ ایک برس میں بہت الارمنگ رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ منشیات استعمال کررہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں کار آمد پوزیشنوں پر موجود لوگ سب سے زیادہ نشہ کرتے ہیں۔ سرکاری افسران، بزنس مین، صحافی، وکلاء، پائلٹ، ڈاکٹرز، نرسیں، کھلاڑی، شوبز و دیگر نمایاں شعبوں میں کام کرنے والے اہم لوگ شراب و دیگر منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے اور آئندہ 5برسوں میں صورتحال گھمبیر ہوگی اس لیے والدین کو اپنے بچوںکی بہتر تربیت اور ان پر نظر رکھنی چاہیے۔پاکستان میں6.7ملین افراد نشے کے عادی ہیں۔ ہم "Say no to Drugs" پر زیادہ کام کررہے ہیں جبکہ پریوینشن پر کام نہیں ہورہا۔جس طرح دل کی بیماری کے شکار مریض کو بار بار دل کا مسئلہ ہوتا ہے اسی طرح نشے کے عادی فرد کا دوبارہ نشے کی طرف راغب ہونے کاامکان ہوتا ہے۔ اس لیے اسے دائمی مرض سمجھا جائے۔ علاج کیلئے نیک نیتی ضروری ہے، علاج گاہ بری سے بری بھی ہو تو نشے سے چھٹکارہ پانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر مریض کی سوچ بہتر ہورہی ہے، اس نے بری صحبت چھوڑ دی ہے، گھر میں دلچسپی لینے لگ گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بہتری آرہی ہے۔

کبریٰ امتیاز (سائیکالوجسٹ )

26جون کو منشیات کا عالمی دن منانے کا مقصد لوگوں کو منشیات کے منفی نتائج کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ لوگوں کو منشیات کے نقصانات کا علم ہے مگر پھر بھی وہ ان کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ سگریٹ میں پائی جانے والی نیکوٹین راحت کا باعث ہوتی ہے لہٰذا جب کوئی بچہ سگریٹ پیتا ہے تو اسے سکون ملتا ہے اور پھر اس پر انحصار کرنا شروع کردیتا ہے ۔ نوجوانوں میں سگریٹ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور سگریٹ بطور فیشن پیا جاتا ہے۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں میں ایک سٹیج ایسی آتی ہے جب وہ اپنے دوستوں کو اپنی فیملی پر ترجیح دینے لگتے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ وقت بتانا اچھا سمجھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں والدین کو بچوں پر خاص توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ کسی غلط چیز کی طرف راغب نہ ہوسکیں۔ ہم نے فلموں اور ڈراموں کے کرداروں کو اپنا رول ماڈل بنا لیا ہے جس کی وجہ سے لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں بھی نشے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو افسوسناک ہے۔ جب کوئی نشے کا عادی ہوجاتا ہے تو پھر وہ عمر بھر کے لیے ادویات پر ہی لگ جاتا ہے ۔ ادویات کے علاوہ مریض کی مختلف قسم کی تھیراپی بھی کی جاتی ہے لیکن منشیات کی طرف دوبارہ راغب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ مریض کی باقاعدہ کاؤنسلنگ کی جائے اور ادویات کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں۔
Load Next Story