خوب صورت زندگی کا راز رشتوں کی قدر کرنے میں پوشیدہ ہے
زندگی کے باقی سب رشتے اسی تعلق سے بنتے ہیں۔ ان کا اصل یہی ایک رشتہ ہے۔
انسانی زندگی ایک درخت کے مانند ہے جس سے جڑے رشتے ناتے ہری بھری شاخوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر یہ شاخیں ٹوٹ جائیں یا مرجھاجائیں تو درخت بھی ایک دن سُوکھ جاتا ہے۔
زندگی کے تناور درخت پر رشتوں ناتوں کی ہری بھری شاخیں درخت کو سدا بھرپور اور جوان رکھتی ہیں۔ رشتے ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں جس پر زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ جہاں رشتوں کو زندگی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے وہیں یہ رشتے ریشم کی ڈور جیسے نازک بھی ہوتے ہیں۔ ہر رشتہ اعتماد ،خلوص اور محبت کی نازک ڈور سے بندھا ہوتا ہے ،چنانچہ ذرا سا تناؤ آنے پر یہ ڈور کم زور پر جاتی ہے اور تناور سے تناور شاخیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔
رشتے جسم میں روح کی طرح ہوتے ہیں جو احساس کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ ڈور اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ہر آنے والے رشتے کو اپنے اندر پرو لیتی ہے۔ ساتھ ہی اتنی کم زور ہوتی ہے کہ جب ٹوٹتی ہے تو سارے رشتوں سمیت بکھر جاتی ہے۔ ہماری زندگی میں رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو قدرت کی طرف سے ہمیں بنے بنائے ملتے ہیں جو مستقل اور قدرت کی طرف سے عطاکردہ نعمت کی طرح ہوتے ہیں۔ جب کہ دوسرے وہ رشتے ہیں جو انسان قائم کرتا ہے۔ یہ رشتے ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔ ان میںسے کچھ مستقل ساتھ چلتے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ بچھڑ جاتے ہیں۔
رشتوں کی اہمیت کو اگر سمجھا جائے تو ان کی حفاظت باغ میں لگے نازک پھولوں کی طرح کرنی پڑتی ہے کیوںکہ ہماری ذرا سی کوتاہی ان کو ٹہنی سے جدا کر دیتی ہے۔ رشتے خون کے ہوں یا مستقل،خاردار جھاڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو سائے کے ساتھ ساتھ زخم بھی دیتے ہیں ۔بناوٹی رشتے تو موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں مگر خون کے رشتے کفن کی طرح اوڑھ لیے جاتے ہیں ۔ رشتوں کا توازن برقرار رکھنے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر نرمی ،جھکاؤ اور برداشت کا رویہ پیدا کریں۔
اگر مزاج میں گرمی اور لہجے میں سختی ہو ،دماغ میں بڑائی اور دلوں میں حسد ،بغض اور کینہ ہو تو رشتوں کی نازک ڈور میں تناؤ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہی تناؤ دوریاں پیدا کرتا ہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا رشتہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کا ہوتا ہے ،جو کہ سب سے مضبوط رشتہ ہے مگر ان رشتوںکو نبھانے کے لیے بھی عمر بھر حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے۔ ماں باپ کی فرمانبرداری ان سے بے لوث محبت ،شفقت ،احساس اور بہن بھائیوں سے پر خلوص محبت ہی اس تعلق کو تاعمر مضبوط اور تواناں بناتا ہے ۔
گل دستۂ حیات میں سب سے خوب صورت پھول ازدواجی رشتے کا ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس سے بہت سے نئے رشتے وجود میں آتے ہیں اور یہ ہی ایسا رشتہ ہے جو بہت سے نئے رشتوں کو باندھ کر رکھتا ہے ۔ مرد اور عورت کا یہ رشتہ انسانیت کی معراج بھی ہے۔ یہ ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہے اگر توازن قائم رہے تو زندگی بوجھ نہیں لگتی اور اگر توازن بگڑ جائے تو زندگی اپنے ہی بوجھ سے مر جاتی ہے ۔
زندگی کے باقی سب رشتے اسی تعلق سے بنتے ہیں۔ ان کا اصل یہی ایک رشتہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس تعلق کو نبھانے کے لیے صبر کا پانی دینا پڑتا ہے۔ اگر فریقین کے مزاج میں برداشت کی صلاحیت ہو تو یہ تعلق بہت مضبوط بنتا ہے اور سدا قائم رہتا ہے ۔ ہم میں سے کوئی بھی پر فیکٹ نہیں ہوتا۔ زندگی میں بہت سے کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں تب جاکر رشتے اور تعلق مضبوط ہو پاتے ہیں ۔ عورت کا احساس شکر گزاری اور مرد کا ظرف کسی بھی گھر کو جنت یا دوزخ بنا سکتا ہے۔
رشتے محبت ،الفت ،احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات و احساسات کا خیال رکھنے سے اس قدر مضبوط ہوتے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی ۔آج کے دور میں اگر رشتے ناتے اور تعلقات پائیدار نہیں وقتی لگنے لگے ہیں تو اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوںمیں رشتوں کا تقدس اور احترام باقی نہیں رہا۔ ہر شخص خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرنے لگا ہے اور صبر اور برداشت کی کمی بھی بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
اب لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط رشتوں میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر اپنے آس پاس نظر دوڑائی جائے تو ہر گھر بے سکونی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے ۔ہر گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔گھروں میں سکون اورتعلقات کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ رشتوں کے تقدس کا خیال رکھا جائے ۔اگر گھر میں بڑے بزرگ ہیں یا بوڑھے ماں باپ ہیں تو ان کی عزت کی جائے ان کو وقت دیا جائے،میاں اور بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگزر کریں۔
میاں اور بیوی کے درمیاں سب سے اہم چیز عزت اور اعتماد ہے جو رشتے کو ہمیشہ قائم رکھتا ہے ۔رشتے توجہ مانگتے ہیں اور محبت کی ڈور سے باندھے جاتے ہیں جو اس کائنات کی سب سے مضبوط ڈور ہے۔ اگر آج ہم اپنی ذات سے منسلک ہر رشتے کو محبت کی رسی میں پرو لیں تو کچھ شک نہیں کہ ہمیں زندگی میں کبھی خالی پن ، تنہائی اور بے سکونی کا احساس ہو ۔ہماری ذات سے منسوب ہر رشتہ قیمتی ہے ان رشتوں کی قدر کیجیے زندگی خود بخود خوب صورت بن جائے گی۔
زندگی کے تناور درخت پر رشتوں ناتوں کی ہری بھری شاخیں درخت کو سدا بھرپور اور جوان رکھتی ہیں۔ رشتے ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں جس پر زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ جہاں رشتوں کو زندگی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے وہیں یہ رشتے ریشم کی ڈور جیسے نازک بھی ہوتے ہیں۔ ہر رشتہ اعتماد ،خلوص اور محبت کی نازک ڈور سے بندھا ہوتا ہے ،چنانچہ ذرا سا تناؤ آنے پر یہ ڈور کم زور پر جاتی ہے اور تناور سے تناور شاخیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔
رشتے جسم میں روح کی طرح ہوتے ہیں جو احساس کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ ڈور اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ہر آنے والے رشتے کو اپنے اندر پرو لیتی ہے۔ ساتھ ہی اتنی کم زور ہوتی ہے کہ جب ٹوٹتی ہے تو سارے رشتوں سمیت بکھر جاتی ہے۔ ہماری زندگی میں رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو قدرت کی طرف سے ہمیں بنے بنائے ملتے ہیں جو مستقل اور قدرت کی طرف سے عطاکردہ نعمت کی طرح ہوتے ہیں۔ جب کہ دوسرے وہ رشتے ہیں جو انسان قائم کرتا ہے۔ یہ رشتے ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔ ان میںسے کچھ مستقل ساتھ چلتے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ بچھڑ جاتے ہیں۔
رشتوں کی اہمیت کو اگر سمجھا جائے تو ان کی حفاظت باغ میں لگے نازک پھولوں کی طرح کرنی پڑتی ہے کیوںکہ ہماری ذرا سی کوتاہی ان کو ٹہنی سے جدا کر دیتی ہے۔ رشتے خون کے ہوں یا مستقل،خاردار جھاڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو سائے کے ساتھ ساتھ زخم بھی دیتے ہیں ۔بناوٹی رشتے تو موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں مگر خون کے رشتے کفن کی طرح اوڑھ لیے جاتے ہیں ۔ رشتوں کا توازن برقرار رکھنے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر نرمی ،جھکاؤ اور برداشت کا رویہ پیدا کریں۔
اگر مزاج میں گرمی اور لہجے میں سختی ہو ،دماغ میں بڑائی اور دلوں میں حسد ،بغض اور کینہ ہو تو رشتوں کی نازک ڈور میں تناؤ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہی تناؤ دوریاں پیدا کرتا ہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا رشتہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کا ہوتا ہے ،جو کہ سب سے مضبوط رشتہ ہے مگر ان رشتوںکو نبھانے کے لیے بھی عمر بھر حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے۔ ماں باپ کی فرمانبرداری ان سے بے لوث محبت ،شفقت ،احساس اور بہن بھائیوں سے پر خلوص محبت ہی اس تعلق کو تاعمر مضبوط اور تواناں بناتا ہے ۔
گل دستۂ حیات میں سب سے خوب صورت پھول ازدواجی رشتے کا ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس سے بہت سے نئے رشتے وجود میں آتے ہیں اور یہ ہی ایسا رشتہ ہے جو بہت سے نئے رشتوں کو باندھ کر رکھتا ہے ۔ مرد اور عورت کا یہ رشتہ انسانیت کی معراج بھی ہے۔ یہ ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہے اگر توازن قائم رہے تو زندگی بوجھ نہیں لگتی اور اگر توازن بگڑ جائے تو زندگی اپنے ہی بوجھ سے مر جاتی ہے ۔
زندگی کے باقی سب رشتے اسی تعلق سے بنتے ہیں۔ ان کا اصل یہی ایک رشتہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس تعلق کو نبھانے کے لیے صبر کا پانی دینا پڑتا ہے۔ اگر فریقین کے مزاج میں برداشت کی صلاحیت ہو تو یہ تعلق بہت مضبوط بنتا ہے اور سدا قائم رہتا ہے ۔ ہم میں سے کوئی بھی پر فیکٹ نہیں ہوتا۔ زندگی میں بہت سے کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں تب جاکر رشتے اور تعلق مضبوط ہو پاتے ہیں ۔ عورت کا احساس شکر گزاری اور مرد کا ظرف کسی بھی گھر کو جنت یا دوزخ بنا سکتا ہے۔
رشتے محبت ،الفت ،احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات و احساسات کا خیال رکھنے سے اس قدر مضبوط ہوتے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی ۔آج کے دور میں اگر رشتے ناتے اور تعلقات پائیدار نہیں وقتی لگنے لگے ہیں تو اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوںمیں رشتوں کا تقدس اور احترام باقی نہیں رہا۔ ہر شخص خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرنے لگا ہے اور صبر اور برداشت کی کمی بھی بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
اب لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط رشتوں میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر اپنے آس پاس نظر دوڑائی جائے تو ہر گھر بے سکونی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے ۔ہر گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔گھروں میں سکون اورتعلقات کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ رشتوں کے تقدس کا خیال رکھا جائے ۔اگر گھر میں بڑے بزرگ ہیں یا بوڑھے ماں باپ ہیں تو ان کی عزت کی جائے ان کو وقت دیا جائے،میاں اور بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگزر کریں۔
میاں اور بیوی کے درمیاں سب سے اہم چیز عزت اور اعتماد ہے جو رشتے کو ہمیشہ قائم رکھتا ہے ۔رشتے توجہ مانگتے ہیں اور محبت کی ڈور سے باندھے جاتے ہیں جو اس کائنات کی سب سے مضبوط ڈور ہے۔ اگر آج ہم اپنی ذات سے منسلک ہر رشتے کو محبت کی رسی میں پرو لیں تو کچھ شک نہیں کہ ہمیں زندگی میں کبھی خالی پن ، تنہائی اور بے سکونی کا احساس ہو ۔ہماری ذات سے منسوب ہر رشتہ قیمتی ہے ان رشتوں کی قدر کیجیے زندگی خود بخود خوب صورت بن جائے گی۔