ون بیلٹ ون روڈ آخر اغراض و مقاصد ہیں کیا

تمام اقتصادی راہدرایوں کے مل جانے سے چین کو ایشیاء اور یورپ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔


راجہ کامران July 03, 2017
چین نے اپنی معیشت کو ترقی دینے کے لئے صنعتوں کا جال بچھایا مگر اِس ترقی کے باوجود چین کو دو طرح کے چینلجز کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو:فائل

پاکستان میں اِن دنوں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے پر بہت بحث کی جارہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کو چین کی نوآبادیات بنا دے گا، لیکن چین اقتصادی راہداری صرف پاکستان کے ساتھ نہیں بنا رہا ہے، بلکہ وہ تو یورپ، ایشیاء اور افریقہ کو تجارتی راہداری کے ذریعے منسلک کررہا ہے۔ چین کے اِس وسیع تر منصوبے کو 'ون بیلٹ ون روڈ' کا نام دیا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو اگر کم ترین الفاظ میں سمیٹا جائے تو اِس کا مطلب بنتا ہے۔
''آو مل کر ترقی کریں''

چین کے ون بیلٹ ون روڈ یا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی بھی کہا جارہا ہے۔ درحقیقت یہ منصوبہ چین کو اقتصادی طور پر ایشیاء، یورپ اور افریقہ کا مرکز بنا دے گا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے دنیا کے تقریباً 65 ممالک کو تجارتی راہداری سے منسلک کیا جائے گا۔ انسانی تاریخ میں تجارتی راہداری کا یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے جس پر صرف چین 1 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ جبکہ 14 اور 15 مئی کو ہونے والی بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس میں چین نے 142 ارب ڈالر کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے۔ حقیقت میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہے کیا اور اِس کی وسعت کیا ہے؟ اِس کا اجمالی جائزہ اِس بلاگ میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

اِس منصوبے کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک کو 'سلک روڈ اکنامک بیلٹ' کا نام دیا ہے جبکہ دوسرے کو اکیسویں صدی کا 'میری ٹائم (سمندری) سلک روڈ' کا نام دیا گیا ہے۔ سلک روڈ اکنامک بیلٹ میں سڑکوں، شاہراہوں اور موٹر ویز کے ذریعے چین کو ایشیاء، یورپ اور افریقی ممالک سے ملایا جائے گا، اور پاک چین اقتصادی راہداری اِس منصوبے کا ہی حصہ ہے۔

اکیسویں صدی میری ٹائم سلک روڈ میں چین ایشیاء افریقہ اور یورپ میں بندرگاہوں اور جہاز رانی کا نیٹ ورک قائم کرے گا۔ چین کے جنوبی ساحل کو وسطی ایشیاء، مشرقی افریقہ اور بحریہ روم سے ملایا جائے گا۔ گوادر کی بندرگاہ بھی اِسی میری ٹائم سلک روڈ کا حصہ ہوگی۔

چین نے اپنی معیشت کو ترقی دینے کے لئے صنعتوں کا جال بچھایا مگر اِس ترقی کے باوجود چین کو دو طرح کے چینلجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے یہ کہ چین کے وہ حصے جو سمندر اور بندرگاہوں سے دور ہیں یعنی (Land locked) علاقے، وہ اقتصادی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے چین میں غربت کے خاتمے اور مساوی ترقی کے اہداف خاطر خواہ حاصل نہیں ہورہے ہیں۔ جبکہ دوسرے یہ کہ سال 2007ء کے مالیاتی بحران کے بعد چین کی یورپ اور امریکا کو کی جانے والی برآمدات میں تیزی سے کمی ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے چین کو اپنی صنعتوں کو رواں رکھنے اور اپنے محنت کشوں کو روزگار فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ ماہرین اِس بات کا خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ یورپ کے اقتصادی اور معاشی بحران کے بعد چین میں بھی بڑے پیمانے پر صنعتوں کی تالا بندی اور بے روزگاری کا طوفان آسکتا ہے۔ جس کے بعد چین نے اپنے آس پاس کی معیشتوں کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا، جس سے نہ صرف چین میں ترقی کا عمل برقرار رہے گا بلکہ خطے کے دیگر ملک بھی ترقی کریں گے۔

بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا سلک روڈ اکنامک بیلٹ چھ اقتصادی راہداریوں پر مشتمل ہے۔ مجوزہ اقتصادی راہداریاں دراصل ریشم کی برآمدات کے قدیم ترین روٹس ہیں۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ کو اِس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ اِس کے ترقی سے محروم رہ جانے والے صوبے اور علاقے ترقی کرسکیں۔ چین کے مغربی اور جنوبی صوبے Xinjiang ،Ningxia اور Shaanxi بیلٹ شامل ہیں۔ یہ چینی صوبے مرکزی، جنوبی اور مغربی ایشیاء سے اپنے تعاون اور اشتراک کو بہتر بنارہے ہیں۔ چین کے 31 صوبے بیلٹ اینڈ روڈ سے مستفید ہوں گے۔

 

سی پیک


بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی جامع ابتداء چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اعلان سے ہوئی۔ سی پیک کا آغاز چین کے علاقے کاشغر سے شروع ہوکر پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ پر ختم ہوگا۔ جہاں سے میری ٹائم سلک روڈ کا آغاز ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر ملک بھر میں مختلف موضوعات پر بحث ہورہی ہے۔ مزید گفتگو آئندہ کسی تحریر میں کی جائے گی۔

 

بی سی آئی ایم (BCIM) فورم


یہ فورم بنگلہ دیش، چین، بھارت اور میانمار پر مشتمل ہے۔ اِس فورم میں اقتصادی راہداری قائم کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ جس میں ایک ایکسپریس وے بنائی جائے گی جوکہ چین کو بنگلہ دیش، بھارت اور میانمار سے ملائے گی۔ یہ ایکسپریس وے بھارت کے شہر کلکتہ تک لانے کا منصوبہ ہے۔ اِس ایکسپریس وے سے مصنوعات، توانائی اور خدمات کی تجارت ہوگی۔ بھارت کی وجہ سے اِس وقت بی سی آئی ایم فورم تعطل کا شکار ہے۔ بھارت نے چین کی بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس میں بھی شرکت نہیں کی ہے۔

 

سی ایم آر اقتصادی راہداری


اِس تجارتی راہداری میں منگولیا اور روس کو چین سے ملایا جائے گا۔ یہ اقتصادی راہداری منصوبہ دو الگ الگ شاہراہوں پر مشتمل ہے۔ ایک شاہراہ چین کے علاقے دالیان سے شروع ہوکر منگولیا اور روس کے علاقے چیا تک جاتی ہے۔ دوسری شاہراہ چین میں بیجنگ سے شروع ہوکر منگولیا کے وسطی اور اندرونی علاقوں سے ہوتی ہوئی روس کے مشرق بعید کے علاقوں تک پہنچ جائے گی۔

 

نیا یورو ایشیاء پل


یہ بیلٹ اینڈ روڈ کا سب سے بڑا اور طویل منصوبہ ہے، جس میں چین کو جرمنی سے منسلک کیا جائے گا۔ یورو ایشیاء پل چین کے شمال مغربی علاقوں سے شروع ہوگا اور وسطی چین سے ہوتا ہوا قازقستان، یوکرین، پولینڈ، چیک ری پبلک سے ہوتا ہوا جرمنی کی روٹا ڈیم بندرگاہ پر اختتام پذیر ہوگا۔ یورو ایشیاء پل کی کل لمبائی 11 ہزار 80 کلومیٹر ہوگی۔

 

وسطی اور مغربی ایشیائی راہداری


اِس راہداری میں ایران سے کویت اور خلیج فارس تک شاہراہ بنائی جائے گی۔ جبکہ اِس کے دوسرے راستے سے عراق، ترکی اور بحریہ روم تک اقتصادی موٹر وے بنایا جائے گا۔

 

انڈونیشیا راہداری


اِس راہداری میں چین کو آسیان ملکوں سے منسلک کیا جائے گا۔ جس کے لئے ریلویز اور شاہراہیں بنائی جائیں گی۔ یہ اقتصادی راہدراری کا چھٹا اہم منصوبہ ہے۔

یہ تمام اقتصادی راہداریاں چین سے شروع ہوتی ہیں مگر اِس میں اہم بات یہ ہے کہ اِن اقتصادی راہداریوں کو باہمی طور پر منسلک نہیں کیا گیا ہے۔ یہ اقتصادی راہداریاں چین کے مختلف علاقوں سے شروع ہوتی ہیں مگر اِن تمام اقتصادی راہدرایوں کے مل جانے سے چین کو ایشیاء اور یورپ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔

اِن مجوزہ راہداریوں کے قیام سے چین کا اقتصادی رابطہ یورپ کے بالٹک سمندر، خلیج فارس، بحریہ روم، وسطی ایشیاء، مغربی ایشیاء، جنوب مشرقی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور بحرہِ ہند سے براہِ راست قائم ہوجائے گا۔

 

اکیسویں صدی میری ٹائم سلک روڈ


سمندری سلک روڈ کا تصور چین میں نیا ہے۔ یہ سمندری سلک روڈ چین کے ساؤتھ چائنہ سمندر، بحریہ ہند، افریقہ اور یورپ تک ہوگی جبکہ دوسری سمندری راہداری، جنوبی بحرالکاہل تک ہوگی۔ اِس منصوبے میں چین رکن ممالک میں بندرگاہوں کے قیام اور شپنگ کو فروغ دینے میں معاونت کرے گا اور مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری بھی کی جائے گی۔ میری ٹائم سلک روڈ کے ذریعے چین لاطینی امریکا تک رسائی حاصل کرے گا۔

 

بیلٹ اینڈ روڈ پالیسی


چینیوں کے مزاج میں صبر اور طویل مدتی پلاننگ شامل ہے۔ چین نے 70ء کی دہائی میں شاہراہِ ریشم اور 20 کی دہائی میں گوادر پورٹ بنائی مگر حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا اور جب حالات سازگار ہوئے تو سی پیک کا اعلان کردیا۔

اگر یہ دونوں منصوبے 2014ء سے شروع کئے جاتے تو اقتصادی راہداری کئی سال تاخیر کا شکار ہوجاتی۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے لئے جامع پالیسی تیار کی ہوئی ہے۔ اِس بڑے تجارتی اور معاشی و اقتصادی ترقی کے منصوبے کے حوالے سے چین کے قومی کمیشن برائے ترقی اور اصلاحات (این ڈی آر سی) وزارتِ خارجہ اور وزارتِ تجارت نے مشترکہ طور پر مارچ 2015ء ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا، جس میں بیلٹ اینڈ روڈ کے اصول و ضوابط، ڈھانچہ اور تعاون کے طریقہ کار سے آگاہ کیا گیا تھا۔

عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق ایشیاء اِس وقت دنیا کا سب سے توانا اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا براعظم ہے مگر یہاں پر بنیادی ڈھانچے کی کمی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل یا قریب موجود 65 ملکوں میں سے صرف تین ملکوں کے بنیادی ڈھانچے کو ترقی یافتہ ملکوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ جس میں ملائشیا، متحدہ عرب امارات اور قطر شامل ہیں، جبکہ چین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی ترقی یافتہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

 

چین کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری


بیلٹ اینڈ روڈ سے چین کے عالمی اسٹیٹس میں بھی تبدیلی آئے گی اور چین دنیا میں اشیاء کے سب سے بڑے برآمدی ملک کے بجائے دنیا میں سرمایہ برآمد کرنے والا بڑا ملک بن جائے گا۔ چین کی بیرون ملک کی گئی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور سال 2016ء کی پہلی ششماہی کے دوران 60 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چین کے بیرون ملک سرمایہ کاری میں سال 2020ء تک سالانہ 20 فی صد کی شرح سے اضافہ متوقع ہے اور 2020ء تک چین کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری 2 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ چین کی کمپنیاں ملٹی نیشنل بننے کے لئے خود کو تیار کررہی ہیں۔

 

چینی کرنسی


یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پوری دنیا میں اقتصادی راہداری قائم کی جائے مگر چینی کرنسی کو اِس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔ چین اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ ساتھ اپنی کرنسی (Yuan) یوان اور (Renminbi) رینمبائی کو بھی توسیع دے رہا ہے۔ اب رینمبائی کو عالمی کرنسی بنانے کیلئے بھی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ چین راہداری میں شامل ملکوں کے ساتھ براہِ راست تجارت کے لئے کرنسی تبادلے کے معاہدے کررہا ہے۔ اِس سلسلے میں پہلا معاہدہ پاکستان کے ساتھ سال دسمبر 2011ء میں کرنسی سواپ معاہدہ کیا گیا، جبکہ مزید 21 ملکوں کے ساتھ اِس طرح کا معاہدہ کیا جارہا ہے۔

چین نے عالمی مالیاتی اداروں کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے کرنسی کو محدود فری فلوٹ کی اجازت دیدی ہے۔ جس کے بعد آئی ایم ایف کی کرنسی پاسکٹ ایس ڈی آر میں رینمبائی کو شامل کردیا گیا ہے۔ ایس ڈی آر میں ڈالر، یورو، برطانوی پاؤنڈ اور ین پہلے ہی موجود ہیں۔ اِس عمل سے چینی کرنسی کی بیرون ملک دستیابی بہتر ہوگی اور چینی کمپنیوں کو عالمی سطح پر سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے میں مزید آسانی پیدا ہوگی۔

بیلٹ اور روڈ کا ایک ہزار ارب ڈالر کا منصوبہ پیش کردینا تو آسان ہے مگر اِس کی فنانسنگ کرنا بہت مشکل ہے۔ اسی لئے چین نے بیلٹ اینڈ روڈ کی فنانسنگ کے لئے متعدد فنڈز اور مالیاتی ادارے قائم کیے ہیں۔

 

ایشیاء انفرااسٹرکچر انوسمنٹ بینک (اے آئی آئی بی)


جنوری 2016ء کو قائم ہونے والے اِس بینک کی تحریک چین نے پیش کی تھی جس کے 57 رکن ملک ہیں۔ کینیڈا نے بھی اِس بینک کا حصہ بننے کیلئے معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں۔ اے آئی آئی بی توانائی، ٹرانسپورٹ، دیہی ترقی، شہروں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ بینک پاکستان میں ایم فور شاہراہ کے لئے سرمایہ فراہم کررہا ہے۔ بنگلہ دیش اور تاجکستان میں 70 کروڑ ڈالر کے منصوبوں کی فنانسنگ کی جاچکی ہے۔

 

نیو ڈویلپمنٹ بینک


اِس بینک کا مقصد ترقی پذیر ملکوں کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے مالیاتی معاونت فراہم کرنا ہے۔ یہ بینک امریکی ڈالر کے ساتھ ساتھ چینی کرنسی میں بھی قرض فراہم کرتا ہے۔ برازیل، بھارت، جنوبی افریقہ اور چین کے اندر متبادل توانائی کے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کی ہے۔

 

سلک روڈ فنڈ


چینی حکومت نے دسمبر 2014ء میں یہ فنڈ قائم کیا تھا۔ یہ فنڈ طویل مدتی منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری فراہم کر رہا ہے۔ جس میں توانائی، بنیادی ڈھانچہ اور صنعتیں شامل ہیں۔ اِس فنڈ کے تحت تھری گوریجس کارپوریٹ پاکستان میں پن بجلی کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔

اِس کے علاوہ چین نے علاقائی تعاون کے لئے پانچ الگ الگ فنڈز قائم کئے ہوئے ہیں، جس میں چین آسیان سرمایہ کاری تعاون فنڈ، چین آسیان میری ٹائم تعاون فنڈ، چین افریقہ فنڈ پانچ ارب ڈالر مالیت کے اِس فنڈ کے زریعے چین 36 افریقی ممالک میں 87 منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ اِس کے علاوہ چین یورو ایشیاء فنڈ اور چین لاطینی امریکا فنڈ بھی قائم ہیں۔

 

چائنا پالیسی بینک


چین کے دو بڑے بینک چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور ایگزیم بینک مل کر چین کی مقامی مارکیٹ اور بیرونِ ملک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ 64 ملکوں میں حکومتی ضمانت کے انفرااسٹرکچر قرضے دے رہا ہے، ساتھ ہی چین کے کمرشل بینک بھی بیرون ملک اپنے نیٹ ورک کو بڑھا رہے ہیں۔

چین نے دنیا کو مل کر ترقی کرنے کا منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ پیش بھی کردیا ہے اور اِس پر سرمایہ کاری بھی شروع ہوگئی ہے۔ مختصر یہ کہ اِس منصوبے سے نہ صرف چین بلکہ خطے کے تمام ملکوں کو فائدہ ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں