ناکامیوں سے آگے۔۔۔
اساتذہ کے ساتھ والدین بھی طلبہ میں مایوسی ذمہ دار ہیں جو ہر صورت اپنے بچوں کو پہلی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہر بچے کا شوق اور رجحان الگ الگ ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل
اس پر عمر بھر ناکامی کا آسیب سوار تھا۔
وہ کام یابی کے لیے رخت سفر باندھتا ہی تھا کہ ناکامی دیوار بن کر اُس کا راستہ روک لیتی، لیکن اُس کی ہمت اور عزم قائم رہا اور ایک وقت آیا جب ناکامی نے اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور آج دنیا اس شخص کو عزم و ہمت کی عظیم مثال کے طور پر پیش کرتی ہے۔
یہ شخص 12 فروری 1802ء کو امریکا کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوا۔ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اس نے کم سنی میں بہن بھائیوں کی کفالت کے لیے محنت مزدوری شروع کی۔ اس دوران اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ جوان ہوا تو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا، لیکن کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔ کاروبار شروع کیا تو ایسا نقصان ہوا کہ 17برس تک اس کی قیمت چکاتا رہا۔ شادی ہوئی تو بیوی بھی جلد فوت ہوگئی۔ سیاست کا بھوت سوار ہوا تو اسٹیٹ لیجسلیٹر سے کانگریس اور اسپیکر سے سینیٹ تک انہیں ایک نہیں 8 مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس نے اپنی پارٹی کی جانب سے نائب صدارتی امیدوار کا بھی الیکشن لڑا لیکن ناکام رہا، اس کے باوجود کوئی ناکامی اس فولادی شخصیت کے حوصلے پست نہ کر سکی، آخر کار 1860ء میں وہ وائٹ ہائوس میں امریکی صدر بن کر دنیا کے سامنے آیا۔ یہ شخص امریکی تاریخ کا ایک عظیم صدر کہلاتا ہے اور دنیا اسے ابراہام لنکن کے نام سے جانتی ہے۔
ابراہام لنکن تو عمر بھر ہی ناکامیوں سے لڑتا آیا تھا اور آخر کار امریکا کی مسند صدارت پر فائز ہوا۔ اس کا قول تھا کہ ''زندگی میں ناکامی اتنی فکر کی بات نہیں، بلکہ فکر کی بات یہ ہے کہ کہیں آپ اس ناکامی کے آگے گھٹنے نہ ٹیک دیں۔''
ہمارے ہاں کے طلبا میں ابتدائی ناکامیوں پر مایوسی کا یہ عالم ہے کہ نوعمر طالب علم، والدین کے دبائو اور اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آکر خود کشی کی راہ اپنانے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں تواتر کے ایسی خبریں سامنے آئیں جب اساتذہ اور والدین کی بلند توقعات اور امیدوں کے ستائے طلبا نے موت کا راستہ اپنایا۔ جن کے معصوم اور حساس ذہن ان صعوبتوں کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اور اُنہوں نے زندگی پر موت کو ترجیح دی۔
کاش ہمارے والدین اور اساتذہ ان معصوم طالب علموں کی ناکامی پر سختیوں کے بہ جائے انہیں تسلی دیتے اور انہیں بتاتے کہ جیت انسان کو اتنا کچھ نہیں سکھاتی، جتنا ہار۔ سونا بننے کے لیے کئی بھٹیوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
ہمارے سامنے ناکامیاں در ناکامیاں سہنے والے دنیا کے کام یاب ترین انسانوں کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ ایڈیسن، آئن اسٹائن، اسٹیو جابز، بل گیٹس، قائد اعظم محمد علی جناح، لو لا ڈی سلوا، میڈونا، بابر سمیت سینکڑوں عظیم شخصیات اس فہرست میں شامل ہیں، جنہوں نے زندگی میں پیش آنے والی ناکامیوں کو اپنی راہ کی بیڑیاں نہیں بننے دیا۔ مایوس کن صورت حال اور لوگوں کے باتیں بنانے کے باوجود انہوں نے جدوجہد جاری رکھی اور ہمت نہیں ہاری، بالآخر وہ ناکامی کے بھنور سے نکل آئے، لیکن یہ سب باتیں ان طلبا کو کیوں نہیں بتائی گئیں؟ الٹا ناکامی کا شکار ان طلبہ کو مایوسی کی ایسی دلدل میں پھینک دیا گیا جس سے نکلنے کا انہیں کوئی راستہ نظر نہ آیا اور انہوںنے زندگی کے ابتدائی دورکی ٹھوکر کو ہی اس کا اختتام سمجھ لیا۔
انہیں یہ بتایا جانا چاہیے تھا کہ جس امتحان میں ناکامی پر انہوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا، اس امتحان کی حیثیت صرف آپ کی سمت متعین کرنے کی ہے۔ اگر کوئی ایک یا ایک سے زاید مضامین پڑھنے اور سمجھنے میں انہیں مشکل پیش آ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی کم تر طالب علم ہے! فرق صرف یہ ہے کہ متعلقہ مضامین آپ کو صحیح طرح پڑھائے نہیں جا رہے یا پھر ان کے موضوعات آپ کے ذوق سے لگا نہیں کھاتے۔ مثال کے طور پر اگر کسی طالب علم کو ریاضی کے سوالات حل کرنے میں مزا آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حساب کتاب اور پیچیدہ معاملات سلجھانے میں دل چسپی رکھتا ہے، لہٰذا اسے ٹیکنیکل یا انجنیرنگ کے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اسی طرح ڈرائنگ اور ہینڈ رائٹنگ میں بہتر طلبہ اگر مصوری کا انتخاب کریں تو کام یاب رہیں گے۔
اگر کوئی طالب علم ریاضی میں بھی کم زور ہو، اور ہمارے ہاں قابلیت کا معیار سمجھے جانے والی انگریزی، کیمسٹری، بیالوجی، فزکس، کمپیوٹر سائنس سے بھی شغف نہ رکھتا ہو اور وہ کتابیں، رسالے، شاعری، ناول اورکہانیاں پڑھنے میں لذت محسوس کر ے تو پھر بھی وہ طالب علم کسی طرح بھی ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ ذوق مطالعہ اسے اچھا قلم کار بنا سکتا ہے۔ ساتھ ہی زبان و بیان کا عبور اور مطالعے کا یہ شوق اس طالب علم کو صحافت اور درس وتدریس میں بھی اچھی جگہ دلا سکتا ہے، اگر کوئی طالب علم مندرجہ بالا زمروں میں بھی نہ آئے، تب بھی کام یابی کی دیگر راہیں اس کی منتظر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ طالب علم کھیل کے میدان میں دوسروں سے بہتر ہو، اور اس طالب علم کے اندر کوئی باصلاحیت کھلاڑی پوشیدہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مستقبل کا بہترین تاجر، کاشت کار یا پھر اچھا منتظم ثابت ہو، لیکن ہمارے یہاں ذرا سی ناکامی پر اس طرح کے بہت سے طالب علم منزل کی جانب رہنمائی کے بہ جائے منزل سے کوسوں دور کر دیے جاتے ہیں۔
طلبہ میں مایوسی اور بد دلی کے اساتذہ کے ساتھ والدین بھی ذمہ دار ہیں، جو ہر صورت اپنے بچوں کو پہلی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اتنے طلبہ کی کلاس میں صرف ایک ہی بچہ اول آ سکتا ہے۔ ذرا سے کم نمبر آنے کا مقصد کوئی ناکامی تو نہیں۔ اصل مدعا محنت، جدوجہد اور اس کے ساتھ صحیح سمت میں رہنمائی ہے۔ ہر بچے کا شوق اور رجحان الگ الگ ہوتا ہے۔ والدین بچوں کی تعلیم پر بھاری بھرکم اخراجات تو کرتے ہیں، مگر ان کا رجحان اور شوق جاننے کے لیے ان کے پاس وقت ہے اور نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
پھر بچہ ان کی امیدوں پر پورا نہیں اترتا تو ان کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ اور سختیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ایک طرف بچہ اپنی تعلیمی ناکامی پر افسردہ ہوتا ہے تو دوسری طرف والدین کا دبائو بچے کی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے، نتیجتاً وہ اپنی فطری راہ سے بھٹک جاتا ہے اور پھر ساری زندگی اپنے لیے غیر مناسب راہ چننے کا خمیازہ بھگتتا ہے۔ بعض حساس بچے اس موقع پر اپنی زندگی کے لیے خودکُشی جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اس لیے ناکامی پر انہیں زیادہ توجہ اور پیار ومحبت کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں والدین کو پہل کرنا ہوگی کہ جس بچے کو وہ سجا سنوار کر اسکول بھیج رہے ہیں کہیں وہ اندر ہی اندر گُھٹ تو نہیں رہا۔