امتحان مشکل نہیں

طالب علم میں لاشعوری خوف ہوتا ہے کہ اس نے اتنی اچھی تیاری کی ہے، کہیں آخر وقت میں، میں انہیں بھول تو نہیں گیا۔


Sana Ghori February 05, 2013
امتحانی پرچہ ملنے کے بعد اکثرطالب علم بہت زیادہ گھبرا جاتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے اگلے درجوں تک رسائی کے لیے امتحانات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس کے نتائج طالب علم کی ترقی کا فیصلہ کرتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام کی صورت حال ایسی ہے کہ سالانہ بنیادوں پر ہونے والے امتحانات کے لیے اکثر طلبہ فقط ایک ماہ پہلے ہی نصاب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس جلد بازی میں یقیناً پورے سال کے مضامین کا درست طور پر احاطہ نہیں کیا جا سکتا، چناں چہ وہ نصاب میں شامل بہت سی اہم چیزوں سے استفادہ نہیں کر پاتے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہم ایک وقت میں صرف ایک ہی وقت کی خوراک ہی کھا سکتے ہیں، اگر اس سے زیادہ کی کوشش کریں گے، تو یقیناً یہ ہمارے لیے ممکن نہ ہوگا۔

امتحانات کے دنوں میں مشکلات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سال بھر اپنی پڑھائی سے لاپروا ہونے کے بہ جائے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے تو آخری دنوں میں مشکلات اور پریشانی سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی طالب علم کسی مضمون میں کم زور ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نئے تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل اس مضمون کی نئی کتابوں سے استفادہ کرنا شروع کر دیں، تاکہ آنے والی مشکلات سے پیشگی گلو خلاصی ہو سکے۔

سالانہ تعلیمی نظام میں ہر تین ماہ بعد پڑھائے گئے اسباق کا دہُرایا جانا ضروری ہے ورنہ امتحان کے موقع پر سال کے ابتدائی عرصے میں پڑھائے گئے اسباق کو سمجھنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے بروقت ان کی مشق ضروری ہے، یعنی جو مضامین اِس عرصے میں پڑھائے جا چکے ہیں۔ اُن کی تیاری کر لی جائے۔ اِس طرح تعلیمی سال کے آخر میں بوجھ نہیں پڑے گا۔

امتحان سے کچھ عرصے قبل اپنے معمولاتِ زندگی کو تبدیل کرنا نہایت ضروری ہے۔ یعنی باقاعدہ طور پر دوسرے مشاغل اور سرگرمیوں کو محدود کر کے پڑھائی کے لیے زیادہ وقت مقرر کیا جائے۔ کالج اور جامعات کی سطح پر اگر سنجیدگی سے گروپ اسٹڈی کی جائے تو یہ طریقہ خاصا معاون ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ تعلیم کی اس سطح پر طلبا مختلف نظریات، تصورات اور موضوعات کو سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد خالصتاً ان کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اگر دو تین طالب علم مل کر اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں تو زیادہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور یہ زیادہ بہتر طریقے سے ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتے ہیں۔ دوران امتحان غیر شعوری طور پر کسی پہلو کے ذہن میں آتے ہی اُس کو شاملِ کیا جا سکتا ہے۔

امتحان کے قریب آنے کے بعد جو اسباق اچھی طرح ازبر ہوں ان پر زیادہ وقت لگانا مناسب نہیں۔ اکثر طلبا جو چیزیں یاد ہوں انہیں کو بار بار پڑھتے رہتے ہیں۔ اس میں طالب علم کا وہ لاشعوری خوف ہوتا ہے کہ میں نے اس کی اتنی اچھی تیاری کی ہے، کہیں آخر وقت میں، میں انہیں بھول تو نہیں گیا۔ اس خوف کو سر پر سوار کرنے کے بہ جائے اِس کی جگہ اُن مضامین اور موضوعات کو پڑھا جائے جن کے بارے میں آگہی کم ہے۔

کمرہ امتحان میں خصوصاً امتحانی پرچہ ملنے کے بعد دونوں صورتوں میں پہلی شرط ذہن کو پر سکون رکھنا ہے۔ بلا ضرورت فکر و پریشانی کو طاری نہ کیا جائے، اِس طرح دماغی کارکردگی کے ساتھ ساتھ جسمانی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔

امتحانی پرچہ ملنے کے بعد اکثرطالب علم بہت زیادہ گھبرا جاتے ہیں اور سوالات کا اسلوب اور انداز دیکھ کر ایک لمحہ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید وہ آدھا پرچہ بھی حل نہ کر سکیں گے اور یہ سوچ کر ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں، نتیجتاً ان کا دماغ مائوف ہونے لگتا ہے، جب کہ اگر اعصاب پر قابو پایا جائے اور بہ غور تمام سوالات کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال ایسی نہیں ہوتی جیسی ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں نہ آنے والے سوالات اختیاری ہوتے ہیں اور ہم جلد بازی میں ویسے ہی پریشان ہوجاتے ہیں۔

امتحانی پرچہ حل کرتے لمحے وقت کی ترتیب کو ذہن میں رکھیے۔ امتحان کے دورانیے کو سوالات کے لحاظ سے تقسیم کیجیے اور کسی سوال پر زاید وقت نہ ہونے دیجیے۔ عموماً پرچہ پانچ سوالات پر محیط ہوتا ہے۔ اگر ہر سوال کے لیے تیس، تیس منٹ کا وقت رکھا جائے تو ہمیں آدھا گھنٹا اضافی مل جاتا ہے، جس میں ہم بہ آسانی پورے پرچے کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کس سوال کے کتنے نمبر ہیں۔ یا وہ سوال کون سا ہے جو کم وقت میں ہو سکتا ہے۔ جو سوال کم وقت لے اُسے آخر میں رکھنا چاہیے۔

پرچہ ختم کرنے کے بعد ایک دفعہ حل شدہ کاپی کا جائزہ لینا بہتر ہے، تاکہ یہ تسلی کر لی جائے کے کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا، یا اگر کچھ غلط ہے تو اُسے درست کر لیا جائے اور پھر نتائج اللہ پر چھوڑ کر کاپی ممتحن کے حوالے کردی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں