فرسٹ ائیر میں غافل نہ ہوں
طالب علم کو لاشعوری خوف ہوتا ہے کہ میں نے اس کی اتنی اچھی تیاری کی ہے، کہیں آخر وقت میں، میں انہیں بھول تو نہیں گیا۔
ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد جب طالب علم اسکول سے فارغ ہوتا ہے تو کالج کے طریقہٗ تدریس اور ماحول میں اسے قدرے آزادی محسوس ہوتی ہے، اس لیے گیارہویں جماعت کو زیادہ تر طلبہ ''فرسٹ ایئر اِز ریسٹ ایئر'' کے طور پر مناتے ہیں جو کہ انتہائی غلط رجحان ہے۔
فرسٹ ائیر میں آنے والے طلبہ کی عمر بھی چوں کہ آزادی کی طمع کرتی ہے لہٰذا وہ اس کا بھر پور فایدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت سائبر کیفے، گیم زون اور شاپنگ مالز میں گزرتا ہے، حالاں کہ یہ سال ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی بنیاد ہوتے ہیں، لیکن طالب علموں کی سہل پسندی کے باعث میٹرک میں بہتر کارکردگی دکھانے والے طلبہ انٹر میں اچانک متاثر ہو جاتے ہیں۔
گیارہویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر طلبا و طالبات کے لیے کالج کا پہلا سال کھلے ماحول سے لطف اندوز ہونے کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہوتی ہے کہ جماعت نہم کے امتحانات کے بعد فوراً ہی دسویں جماعت کی پڑھائی شروع ہوگئی تھی، اس ہی طرح ابتدائی تعلیمی سالوں میں بھی کافی محنت ہوئی۔ روزانہ پابندی سے اسکول جانا، پھر ایکسٹرا کلاسز، ٹیوشن، ہوم ورک، جرنلز، ڈھیر سارے ٹیسٹ، ایکسٹرا کوچنگ، پیپرز کو حل کرنا اور پھر ان سب کے بعد بورڈ کا امتحان۔ اس قدر سخت معمولات کے بعد اب قدرے آزادی میسر آئی ہے تو پھر کیوں نہ اس کا فایدہ اٹھایا جائے، اب اسکول کے دس سالوں کی طرح مسلسل کلاس میں جم کر بیٹھنے کی پابندی نرم ہوئی ہے، لہٰذا اب کالج کے لیکچر ہال میں کم اور کینٹین اور کیمپس میں زیادہ رہنا ہے۔ پورے کالج کے انفرا اسٹرکچر کا مشاہدہ کرنا، کالج کا جم، کامن روم، لائبریری، لیبارٹریز ودیگر کمرے کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ کیا کیا سہولیات ہیں؟ کن چیزوں کی کمی ہے؟ یہ سب پتا کرنا ہے۔ نئے سرے سے دوست بنانے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنا وقت کالج کی کینٹین اور برآمدوں میں گزارنا ضروری ہے اور نئے دوستوں کا گروپ بنا کر کالج میںہونے والی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینا ہے، اس کے ساتھ کالج میں آنے کے بعد موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال کا بھی بہت زیادہ جنون ہوجاتا ہے۔ نت نئے موبائل جس میں زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا ہوں، فیس بک سے لے کر ٹوئیٹر تک، انٹرنیٹ کی سرفنگ سے ڈاؤن لوڈنگ کی تمام سہولیات کے ساتھ۔ اس کے ساتھ کالجوں میں موجود طلبہ تنظیموںکا عفریت بھی ان نوجوانوں کے اس مزاج سے فایدہ اٹھاتا ہے اور یوں بہت سے طالب علم کلاسوں کے بہ جائے ان تنظیموں کے کیمپوں میں وقت گزارنے لگتے ہیں۔
آٹھ برسوں کی ابتدائی تعلیم کے بعد دراصل نہم جماعت تا بارہویں جماعت کے سال مستقبل کی بنیاد بنانے والے سال ہیں۔ عمر کے اس دور میں بہت سی فطری صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ طالب علم میں موجود غیر معمولی مہارت وصلاحیتوں کا عروج اسی دور میں ہوتا ہے۔ طالب علموں کا یہ وقت ان کی درست رہنمائی کا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی توانائیاں زیادہ سے زیادہ اپنے مستقبل کی جانب مرکوز کر کے رکھیں۔ اونچے خواب، نیک جذبات اور نئی سوچ و خیالات پروان چڑھتے ہیں۔ طالب علم میں خود اعتمادی، قیادت کی صلاحیت، فتح یابی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا صرف اپنے مشاغل میں وقت کو ضایع کرنا مناسب نہیں، کیوں کہ پہلے ہی میٹرک کے بعد انٹر میں داخلوں تک طالب علموں کو تقریباً چھ ماہ کا طویل آرام مل جاتا ہے۔ اس دوران ان کے امتحانی نتائج اور کالجوں میں داخلے کے مختلف مراحل طے ہوتے ہیں لیکن باقاعدہ تدریس کا سلسلہ منقطع رہتا ہے، لہٰذا آزادی اور سستانے کے خواہش مند طلبہ اس عرصے کو ہی غنیمت جانیں اور اس کے بعد اپنے تعلیمی سرگرمیوں پر بھر پور توجہ دیں۔ اپنے رجحانات اور میلانات کے مطابق اپنے شعبے کا انتخاب کریں اور اعلا تعلیمی مراحل کے حوالے سے ابھی سے پیش بندی کریں تاکہ آنے والی مشکلات سے زیادہ بہتر طریقے سے نبرد آزما ہو سکیں۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی پیشہ ورانہ منزل کا تعین کر کے اس جانب باقاعدہ رخت سفر باندھتے ہیں۔
ہمارے ہاں میٹرک کے بعد اگلے مرحلے میں جس حساب سے کالجوں میں داخلہ لیا جاتا ہے، اس حساب سے فارغ التحصیل ہونے کا تناسب خاصا کم ہے، جس کی وجہ درمیان سے ہی تعلیم چھوڑ دینا ہے۔ تعلیم سے غفلت کے باعث دسویں کے مقابلے میں بارہویں جماعت میں ناکام ہونے والے یا بہت کم نمبروںسے کام یاب ہونے والے طلبا و طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ شہر کے مختلف کالجوں میں انٹر کے اگلے سال میں طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ جاتی ہے، لہٰذا بہتر طریقے سے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تعلیمی کیریر کے بنیادی سال کو اپنے مشاغل میں ضایع نہ کریں اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے بھر پور توجہ کے ساتھ گزاریں۔
فرسٹ ائیر میں آنے والے طلبہ کی عمر بھی چوں کہ آزادی کی طمع کرتی ہے لہٰذا وہ اس کا بھر پور فایدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت سائبر کیفے، گیم زون اور شاپنگ مالز میں گزرتا ہے، حالاں کہ یہ سال ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی بنیاد ہوتے ہیں، لیکن طالب علموں کی سہل پسندی کے باعث میٹرک میں بہتر کارکردگی دکھانے والے طلبہ انٹر میں اچانک متاثر ہو جاتے ہیں۔
گیارہویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر طلبا و طالبات کے لیے کالج کا پہلا سال کھلے ماحول سے لطف اندوز ہونے کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہوتی ہے کہ جماعت نہم کے امتحانات کے بعد فوراً ہی دسویں جماعت کی پڑھائی شروع ہوگئی تھی، اس ہی طرح ابتدائی تعلیمی سالوں میں بھی کافی محنت ہوئی۔ روزانہ پابندی سے اسکول جانا، پھر ایکسٹرا کلاسز، ٹیوشن، ہوم ورک، جرنلز، ڈھیر سارے ٹیسٹ، ایکسٹرا کوچنگ، پیپرز کو حل کرنا اور پھر ان سب کے بعد بورڈ کا امتحان۔ اس قدر سخت معمولات کے بعد اب قدرے آزادی میسر آئی ہے تو پھر کیوں نہ اس کا فایدہ اٹھایا جائے، اب اسکول کے دس سالوں کی طرح مسلسل کلاس میں جم کر بیٹھنے کی پابندی نرم ہوئی ہے، لہٰذا اب کالج کے لیکچر ہال میں کم اور کینٹین اور کیمپس میں زیادہ رہنا ہے۔ پورے کالج کے انفرا اسٹرکچر کا مشاہدہ کرنا، کالج کا جم، کامن روم، لائبریری، لیبارٹریز ودیگر کمرے کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ کیا کیا سہولیات ہیں؟ کن چیزوں کی کمی ہے؟ یہ سب پتا کرنا ہے۔ نئے سرے سے دوست بنانے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنا وقت کالج کی کینٹین اور برآمدوں میں گزارنا ضروری ہے اور نئے دوستوں کا گروپ بنا کر کالج میںہونے والی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینا ہے، اس کے ساتھ کالج میں آنے کے بعد موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال کا بھی بہت زیادہ جنون ہوجاتا ہے۔ نت نئے موبائل جس میں زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا ہوں، فیس بک سے لے کر ٹوئیٹر تک، انٹرنیٹ کی سرفنگ سے ڈاؤن لوڈنگ کی تمام سہولیات کے ساتھ۔ اس کے ساتھ کالجوں میں موجود طلبہ تنظیموںکا عفریت بھی ان نوجوانوں کے اس مزاج سے فایدہ اٹھاتا ہے اور یوں بہت سے طالب علم کلاسوں کے بہ جائے ان تنظیموں کے کیمپوں میں وقت گزارنے لگتے ہیں۔
آٹھ برسوں کی ابتدائی تعلیم کے بعد دراصل نہم جماعت تا بارہویں جماعت کے سال مستقبل کی بنیاد بنانے والے سال ہیں۔ عمر کے اس دور میں بہت سی فطری صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ طالب علم میں موجود غیر معمولی مہارت وصلاحیتوں کا عروج اسی دور میں ہوتا ہے۔ طالب علموں کا یہ وقت ان کی درست رہنمائی کا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی توانائیاں زیادہ سے زیادہ اپنے مستقبل کی جانب مرکوز کر کے رکھیں۔ اونچے خواب، نیک جذبات اور نئی سوچ و خیالات پروان چڑھتے ہیں۔ طالب علم میں خود اعتمادی، قیادت کی صلاحیت، فتح یابی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا صرف اپنے مشاغل میں وقت کو ضایع کرنا مناسب نہیں، کیوں کہ پہلے ہی میٹرک کے بعد انٹر میں داخلوں تک طالب علموں کو تقریباً چھ ماہ کا طویل آرام مل جاتا ہے۔ اس دوران ان کے امتحانی نتائج اور کالجوں میں داخلے کے مختلف مراحل طے ہوتے ہیں لیکن باقاعدہ تدریس کا سلسلہ منقطع رہتا ہے، لہٰذا آزادی اور سستانے کے خواہش مند طلبہ اس عرصے کو ہی غنیمت جانیں اور اس کے بعد اپنے تعلیمی سرگرمیوں پر بھر پور توجہ دیں۔ اپنے رجحانات اور میلانات کے مطابق اپنے شعبے کا انتخاب کریں اور اعلا تعلیمی مراحل کے حوالے سے ابھی سے پیش بندی کریں تاکہ آنے والی مشکلات سے زیادہ بہتر طریقے سے نبرد آزما ہو سکیں۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی پیشہ ورانہ منزل کا تعین کر کے اس جانب باقاعدہ رخت سفر باندھتے ہیں۔
ہمارے ہاں میٹرک کے بعد اگلے مرحلے میں جس حساب سے کالجوں میں داخلہ لیا جاتا ہے، اس حساب سے فارغ التحصیل ہونے کا تناسب خاصا کم ہے، جس کی وجہ درمیان سے ہی تعلیم چھوڑ دینا ہے۔ تعلیم سے غفلت کے باعث دسویں کے مقابلے میں بارہویں جماعت میں ناکام ہونے والے یا بہت کم نمبروںسے کام یاب ہونے والے طلبا و طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ شہر کے مختلف کالجوں میں انٹر کے اگلے سال میں طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ جاتی ہے، لہٰذا بہتر طریقے سے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تعلیمی کیریر کے بنیادی سال کو اپنے مشاغل میں ضایع نہ کریں اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے بھر پور توجہ کے ساتھ گزاریں۔