جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام
بھارت کی 36 لاکھ ناریاں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جسم فروشی کی آگ میں جل رہی ہیں۔
آج ساری دنیا جمہوریت کا ورد کر رہی ہے، انسانی معاشروں کی ترقی کے لیے جمہوریت کو ناگزیر کہا جارہا ہے، ترقی یافتہ دنیا میں جمہوریت معاشرتی جسم میں سانس بنی ہوئی ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں، پسماندہ ملکوں میں جمہوریت کو بھگوان بناکر پوجا جارہا ہے اور آج پاکستان میں پاکستانی عوام کے تمام مسائل کا واحد حل جمہوریت کو قرار دیا جارہا ہے، مغرب کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں دو سو سالہ جمہوریت نے عوام کو جو کچھ دیا ہے وہ ہے ضروریات زندگی کی قسطوں میں حصول کی سہولت۔ اب تو اس جمہوریت نے یہ سہولتیں بھی عوام سے چھین لی ہیں، اب ان ملکوں میں غربت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں جمہوریت کے زیر سایہ پرورش پانے والا اقتصادی نظام تباہی کے کنارے پہنچ گیا ہے۔ پچھلے ہفتے کینیڈا میں ہزاروں افراد غربت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیاسی عدم استحکام اسی جمہوریت کی عطا ہے، بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں 65 سال سے جمہوریت کا راج ہے اور اس جمہوریت کے آسمان تلے آبادی کا چالیس فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور بھارت کی 36 لاکھ ناریاں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جسم فروشی کی آگ میں جل رہی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں جمہوریت اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان تعلق کا جائزہ لینا پڑے گا جس کے بطن سے جمہوریت کا جنم ہوا ہے۔ دنیا میں سماجی ارتقا اور سیاسی ارتقا ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ سماجی ارتقا پتھر کے دور سے ہوتا ہوا غلام داری سماج، قبائلی معاشروں سے ہوتا ہوا جاگیردارانہ نظام سے گزرتا ہوا اب سرمایہ دارانہ نظام کی منزل پر فروکش ہے، ہر نظام میں حکمراں طبقات نے اپنے تحفظ کے لیے کوئی نہ کوئی سیاسی نظام ایجاد کیا۔ شخصی اور بادشاہی نظام کے تحفظ کے لیے جاگیردارانہ نظام رائج کیا گیا۔ جاگیردارانہ نظام بذات خود کوئی علیحدہ نظام نہ تھا بلکہ بادشاہتوں کے تحفظ کا ایک وسیلہ تھا، بادشاہوں نے ایک طبقہ امراء پیدا کیا اسے جاگیریں دیں، ٹیکس وصولی کی ذمے داری دی، فوجیں فراہم کرنے کا ٹاسک دیا، یہی ذمے داریاں نوآبادیاتی حکمرانوں نے جاگیرداروں کو دیں اور یہ نظام ان کے محافظ ان کے خادم کی طرح اپنی ذمے داریاں ادا کرتا رہا۔
پیداواری رشتوں میں تبدیلی کے ساتھ حکمرانوں اور عوام کے رشتے بھی تبدیل ہوتے رہے، آقا اور غلام، بادشاہ اور رعایا کے نظام کے بعد جب بھاپ کی دریافت کی وجہ پیداواری رشتوں میں تبدیلی آئی تو غلاموں، رعایا سے حکمرانوں کا نیا رشتہ استوار ہوا جسے ہم عوام اور جمہوری حکمرانوں کا رشتہ کہتے ہیں اور رشتوں کی اس تبدیلی کے ساتھ جو نظام وجود میں آیا اسے جمہوریت کہا گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی ارتقا کی تاریخ میں جمہوریت ایک منفرد منزل ہے لیکن دنیا نے اس نظام کو سیاسی ارتقا کی آخری منزل قرار دے کر نہ صرف ارتقائی سفر کی نفی کی ہے بلکہ قانون حرکت اور بدتر سے بہتر، خوب سے خوب تر کے سفر کے پیروں میں بھی زنجیر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ہم نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ہر دور میں حکمران ایلیٹ اور اس کے اقتصادی نظام کے تحفظ کے لیے کسی نہ کسی سیاسی نظام کی ضرورت درپیش رہی ہے اس حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کے آقاؤں نے بڑی چالاکی، بڑی عیاری سے جمہوریت کا نظام وضع کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس نظام کا مطلب ''عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے'' ہے خود سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی طرف سے جمہوریت کی اس تعریف پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پسماندہ ملکوں کو تو چھوڑیئے ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت بھی اس تعریف پر پوری نہیں اترتی کیونکہ یہ جمہوریت عوام اور عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتی بلکہ ہر ملک کی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور انھیں لوٹ مار کی آزادی فراہم کرتی ہے۔
آج دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جو بے چینی دیکھی جارہی ہے عوام میں جو اضطراب اور بے چینی ہے وہ بنیادی طور پر اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی محافظ اس کی تخلیق کردہ جمہوریت کے خلاف ہے، بادشاہی نظام نے اپنے نظام، اپنے مفادات، اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے جو جاگیردارانہ نظام ایجاد کیا تھا وہ اب سے بہت پہلے ساری دنیا میں متروک ہوچکا ہے، لیکن ہمارا ملک پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں نہ صرف جاگیردارانہ نظام موجود ہے بلکہ اس قدر مستحکم ہے کہ اس نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بھی اپنی پگڑی میں قید کر رکھا ہے۔ آج پاکستان میں انارکی جس انتشار، جس افراتفری کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی وڈیرہ شاہی خاندانی جمہوریت ہے جو 65 سال گزرنے کے بعد بھی عوام کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور آنے والے پانچ سال کو ہتھیانے کی تیاری کر رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ اس جمہوریت نے دنیا میں قومی ریاستوں، قوم پرستی اور قومی مفادات کے تصور کو جنم دیا اور اسی سرمایہ دارانہ جمہوریت نے منڈیوں پر قبضے کی دوڑ میں دنیا کو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا وہ تحفہ دیا جس میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بنے، اسی جمہوریت نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کے فیصلے کیے جس میں لاکھوں انسان جل کر کوئلہ بن گئے، اسی جمہوریت نے دنیا کو عشروں تک سردجنگ کی بھٹی میں جھونکے رکھا، اسی جمہوریت نے کوریا اور ویت نام کی جنگیں ایجاد کیں، اسی جمہوریت نے ایٹمی ہتھیاروں کو ہندوستان پاکستان جیسے فقیر ملکوں کی جھولیوں میں ڈال دیا، اسی جمہوریت نے دہشت گرد تخلیق کیے، اسی جمہوریت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو روشناس کرایا اور افغانستان کے پہاڑوں تک محدود دہشت گردی کو ساری دنیا کے سر پر مسلط کردیا، اسی جمہوریت نے کوریا اور جرمنی کو تقسیم کرایا اور دیوار برلن کھڑی کی اور اسی جمہوریت نے آج دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔
قانون اور انصاف اسی جمہوریت کی وہ مقدس ایجادیں ہیں جن کے احترام میں دنیا کے سر جھک جاتے ہیں، اسی جمہوریت اور اس کے پارٹنر سرمایہ دارانہ نظام نے قانون اور انصاف کو خریدی اور بیچی جانے والی جنس بازاری بناکر اس کی حرمت کو مٹی میں ملادیا، اسی جمہوریت نے دنیا میں آئین کو روشناس کرایا اور آئین کی روح انسانی حقوق کو قرار دیا اور اسی جمہوریت نے انسانی حقوق کی پامالی کا اہتمام کیا اور اسی جمہوریت نے ''انسانی حقوق'' کے تحفظ کی تنظیمیں بناکر ساری دنیا میں حشرات الارض کی طرح پھیلادیں، اسی جمہوریت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ہر شہر میں تنظیمیں کھڑی کی ہیں ، اسی جمہوریت کی کرپا سے انسان پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے چوری کرتا ہے، ڈاکے ڈالتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، بے ایمانی کرتا ہے، اسی جمہوریت نے ان جرائم کے خلاف قانون بنائے ہیں، انصاف کا نظام قائم کیا ہے، پولیس اور وکیل پیدا کیے ہیں جو چوری کرنے والوں، ڈاکہ ڈالنے والوں، جھوٹ بولنے والوں، بے ایمانی کرنے والوں کو سزائیں بھی دیتا اور دلواتا ہے اور ان گنہگاروں کو بے گناہ ثابت کرکے باعزت بری بھی کروالیتا ہے، اسی جمہوریت کے جسم میں کرپشن خون بن کر دوڑتی ہے اور یہی جمہوریت اربوں روپوں کی کرپشن کرنے والوں کو وزیر اعظم بنادیتی ہے، جعلی ڈگری رکھنے والوں کو جرم ثابت ہونے کے بعد بھی اسمبلیوں میں دوبارہ بھجواتی ہے اور وہ قانون اور آئین کو پیروں تلے روند کر قانون ساز اداروں میں پہنچ جاتے ہیں، قانون کی حکمرانی کا نعرہ اس جمہوریت کے حلق سے قدم قدم پر بلند ہوتا ہے اور قدم قدم پر دم توڑ دیتا ہے، جمہوریت کے اس بازار میں ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹ کے ٹکٹ بکتے ہیں، چھانگا مانگا، مری اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں عوام کے منتخب نمایندوں کی منڈیاں لگتی ہیں جہاں عوام کا مینڈیٹ کھلے عام بکتا ہے، اس جمہوریت میں پارٹیاں بدلنے کی قیمت کروڑوں روپوں تک چلی جاتی ہے اسی جمہوریت میں ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر اتحاد بنتے ہیں اور ان اتحادوں میں اربوں روپوں کی ہیرا پھیری ہوتی ہے، اسی جمہوریت میں دین اور دنیا ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے نظر آتے ہیں، اس جمہوریت میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر سیاسی کرپشن کا کھلے عام ارتکاب ہوتا ہے، یہی جمہوریت کامران فیصل کو پنکھے سے لٹکا دیتی ہے۔
ان سارے جرائم، ان ساری برائیوں میں بے چاری جمہوریت کا کوئی قصور نہیں، کیونکہ جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے لیے، عوام کے ذریعے کا ترانہ سناتی ہے ،قصور اس کے اشرافیائی کردار کا ہے، قصور اس کے وڈیرہ شاہی چہرے کا ہے اور اصل قصور اس سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جس نے اپنے اور اپنے سرپرستوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے چہرے بلکہ اپنے مکروہ چہرے کی بدصورتی کو چھپانے کے لیے جمہوریت کا خوبصورت ماسک لگا رکھا ہے، جمہوریت کی ان ''نعمتوں'' سے اس وقت تک چھٹکارا ممکن نہیں جب تک جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا نہیں پایا جاتا، جب تک نجی ملکیت کے لامحدود حق کو محدود نہیں کیا جاتا۔