مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی الزام تراشی

نیا میں دہشت گردی کرنے والے دیگر لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن میں سے سب کے سب غیر مسلم ہیں۔


Shakeel Farooqi February 05, 2013
[email protected]

MADRID: انگریزی کی ایک بہت پرانی کہاوت ہے۔ جس کا سلیس ترجمہ یہ ہے کہ کسی کو بدنام کرو اور اس کے بعد اسے مار ڈالو۔ مسلمانوں کے ازلی دشمن انھیں دنیا بھر میں بدنام کرنے کے بعد ان کی نسل کشی کرنے کے لیے عرصہ دراز سے اسی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنی اس مذموم سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انھوں نے ''دہشت گردی'' کا حربہ تلاش کرلیا ہے جس کا لیبل یہ اپنی مرضی سے کسی پر بھی چپکا دیتے ہیں۔

آئیے! ذرا دہشت گردی کے آغاز پر ایک سرسری سی نظر ڈالیں۔ سچ پوچھیے تو دہشت گردی کوئی انوکھی یا نئی چیز نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو آپ کو اس کی ایک مثال 1881 کے اس واقعے میں نظر آئے گی جب الیگزینڈر دوم کو ایک دہشت گرد نے نہایت سفاکی کے ساتھ قتل کیا تھا۔ ہلاکت خیزی کے اس واقعے میں اس کے ساتھ کھڑے ہوئے 21 معصوم افراد بھی ناحق مارے گئے تھے۔ 1901 میں امریکا کے صدر کینلی کو بھی ایک دہشت گرد نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ پھر آسٹریا کے ڈیوک فرڈیننڈ کو بھی ایک دہشت گرد نے ہی ہلاک کیا تھا۔ اس کے علاوہ اٹلی کے حکمراں ہیمرٹ اول کو بھی ایک دہشت گرد نے ہی قتل کیا تھا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے نتیجے میں اور بھی کئی لوگ مارے گئے جن میں امریکی صدور ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی اور مہاتما گاندھی اور بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی شامل ہیں جن کے قتل میں ان ہی کے ہم مذہب، عیسائی ، ہندو اور سکھ شامل تھے، اور دور پرے تک کسی مسلمان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر محض سیاسی مقاصد کے لیے قتل کرنا دہشت گردی کہلاتا ہے تو پھر چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ کو کن لوگوں میں شمار کیا جائے گا اور بال ٹھاکرے اور نریندر مودی جیسے خون آشام مسلمانوں کے کھلے قاتلوں کو کس نام سے پکارا جائے گا؟ ہندوستان کے زیر تسلط ریاست آسام میں یونائیٹڈ لبریشن نامی انتہا پسند گروپ صرف مسلمانوں کو ہی چن چن کر نشانہ بنارہا ہے۔ اس کے علاوہ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بی جے پی کی پروردہ ہندو دہشت گرد تنظیم شیو سینا مسلمانوں کے خون کی کھلم کھلا پیاسی ہے اور اس کی دہشت گردی کا عالم یہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو مجبوراً وطن واپس آنا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ خود کو امن کا علمبردار کہلوانے والے امریکا نے ویتنام اور جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں پر جو قہر برسایا تھا وہ کیا عالمی دہشت گردی کی سب سے مکروہ اور گھناؤنی مثال نہیں ہے؟ دوسروں کو دہشت گرد کہنے والے امریکی پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر تو دیکھیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر اندھا دھند حملے کرنے والے سفاک امریکی اگر دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد نہیں ہیں تو پھر اور کیا ہیں؟

سچی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب دہشت گردی کو اچھا نہیں سمجھتا اور اسلام تو ہے ہی امن و آشتی کا مذہب جس کے معنی ہی سلامتی کے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب نبی کریمؐ اسلامی لشکر کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے تو تمام لوگ آپؐ کے رحم وکرم پر تھے جنہوں نے آپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے تھے اور غزوہ خندق میں آپؐ کا محاصرہ کیا تھا۔ یہ وہی قریش تھے کہ اگر ان کا بس چلتا تو آپؐ کو قتل کرکے آپؐ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے۔ اب ان کی زندگی اور موت کا انحصار آپؐ کے محض ایک اشارہ چشم و ابرو پر تھا۔ لیکن آپؐ نے انتہائی فراخ دلی کے ساتھ اپنے تمام دشمنوں اور دشمنان اسلام کو یکسر معاف کرکے رہتی دنیا تک یہ مثال قائم کردی کہ دین اسلام امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا مذہب ہے۔

دشمن سے انتقام لینا فطرت انسانی کا ایک لازمی حصہ ہے، لیکن حضور اکرمؐ نہ صرف اس بات کے قائل تھے کہ دشمنوں سے انتقام نہ لیا جائے بلکہ ہر موقعے پر آپ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کا ہی مظاہرہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ''میرے ربّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے، میں اس کو بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کردوں۔ آپؐ ہمیشہ اپنے دشمنوں کے حق میں دعا ہی فرماتے رہے یہاں تک کہ یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ آپؐ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں، برابر ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپؐ نے کسی کے حق میں بد دعا نہیں کی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ بارگاہ نبویؐ میں درخواست پیش کی گئی کہ یا رسول اللہؐ! مشرکوں کے حق میں بد دعا اور لعنت کیجیے۔ لیکن جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والے کی حیثیت سے مبعوث نہیں ہوا بلکہ رحمت اللعالمین بناکر بھیجا گیا ہوں۔

مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے یہودی اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے ہاتھ معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ کیا وہ اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ یاگانہ، ارگون اور اسٹرن گینگ نامی ان کی دہشت گرد تنظیموں نے یہودی ریاست کے قیام کے لیے بے شمار ہوٹلوں کو بموں سے اڑایا تھا اور ہزاروں شہریوں کو خوفناک طریقے سے ہلاک کیا تھا۔ ان ہی یہودی دہشت گرد گروپوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے دہشت گرد بعد میں یہودی ریاست اسرائیل کے حکمراں بنے جن میں موشے دایان اور ان کے بہت سے حواری شامل تھے۔ 1968-92 کے دوران پاط گینگ نے جرمنی میں دہشت گردی کا بازار گرم کرکے بے شمار معصوم شہریوں کا قتل عام کیا۔

دنیا میں دہشت گردی کرنے والے دیگر لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن میں سے سب کے سب غیر مسلم ہیں۔ مثلاً اٹلی کی ریڈ بریگیڈ نامی دہشت گرد تنظیم نے سابق وزیر اعظم ایلڈو مبورو کو اغوا کرنے کے بعد نہایت سفاکی کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ جاپان کی ریڈ آرمی نے بھی یہی کچھ کیا جس نے ٹوکیو میٹروسسٹم پر ہزاروں لوگوں پر Nerve gas پھینک کر انسانیت سوزی کی انتہا کردی۔ اس کے علاوہ آئرش ری پبلیکن آرمی کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ دوسری جانب ETA اور باسک جیسی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیموں نے اسپین اور فرانس کا بھی ناطقہ بند کیے رکھا۔ ادھر افریقہ کے ملک یوگنڈا میں لارڈسالویشن نامی مسیحی تنظیم آج بھی کم سن بچوں کو جنگجو بنانے میں مصروف ہے۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے حال ہی میں یہ اعتراف کیا ہے کہ شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی نہ صرف خود دہشت گرد ہیں بلکہ انتہا پسند ہندو دہشت گردوں کو دہشت گردی کی تربیت بھی دے رہی ہیں۔ سشیل کمار نے ان دہشت گرد تنظیموں کی کئی مثالیں بھی پیش کیں جس میں مالے گاؤں کا بم دھماکہ، سمجھوتہ ایکسپریس کا خوفناک واقعہ اور مکہ مسجد میں ہونے والے دھماکے بھی شامل ہیں۔ بھارتی وزیرداخلہ نے کھلے الفاظ میں اس حقیقت کو بھی بیان کیا کہ دہشت گردی کرنے کے بعد الزام بے چارے مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مالے گاؤں اور مکہ مسجد کے بم دھماکوں میں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق بے چارے مسلمانوں کو ہی مجرم ٹھہرا کر گرفتارکیا گیا تھا۔ ادھر بھارت متعصب اور مسلم دشمن ذرایع ابلاغ بھی بہ یک آواز ہوکر دہشت گردی کے ہر واقعے میں بے چارے مسلمانوں کو ہی قصور وار ٹھہرارہے ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت ہی کی قائم کردہ سچر کمیٹی بھارت کے مسلمانوں پر مشتمل دوسری بڑی اکثریت کے معاشرتی، معاشی اور تعلیمی حالات کا جائزہ لینے کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی پر اپنی مہر ثبوت ثبت کرچکی ہے جن کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں