سیاست دانوں کو کیا معلوم
ہمارے سیاست دانوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ہماری عوام کی ضروریات کیا ہیں
PESHAWAR:
شہرکے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں داخل مریض جسے انگنت امراض نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، میں جب ان کی مزاج پرسی کے لیے سینئر سیاستدان ظفر اسلم کے ہمراہ اسپتال جا رہا تھا تو میرا خیال تھا کہ ممکن ہے جس مریض کو ہم دیکھنے جا رہے ہیں۔ شاید وہ مریض ہمیں پہچاننے ہی سے انکار کردے۔ کیونکہ اس وقت اس مریض کی عمر عزیز 71 برس ہے جب کہ وہ مریض انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بھی داخل ہے مگر خلاف توقع وہ مریض نہایت ہشاش بشاش تھا ہم نے رسمی سا جملہ ادا کیا کہ خیریت ہے کہ آپ اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہوگئے۔
آخر مرض کیا ہے آپ کو؟ مریض جواب میں بولا کہ آپ ایک مرض کی بات کر رہے ہیں۔بلکہ آپ کو تو یہ پوچھنا چاہیے کہ آپ کوکون سا مرض نہیں ہے؟ چلیے اس مریض کا نام بھی آپ کے گوش گزار کردیتے ہیں اس کا نام ہے کامریڈ سلیم اختر ۔ جنھوں نے 1946 میں لاہور میں جنم لیا، یہ ابھی کمسن ہی تھے کہ ان کے والدین لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے۔ بہرکیف ہمارا خیال تھا کہ اس قسم کے مریض کو بے وجہ گفتگو سے گریز ہی کرنا چاہیے مگر وہ اپنے ماضی کوکرید رہے تھے اور ان کی دلچسپ گفتگو کا سلسلہ تھمنے میں نہ آرہا تھا جب کہ ہم بھی ایک کے بعد ایک سوال ان سے کر رہے تھے۔
چنانچہ ہمارا پہلا سوال تھا کہ اپنے بچپن کا کوئی یادگار واقعہ بتائیں۔ ہمارے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں 10 برس کی عمر میں تھا کہ ہمارے محلے میں ایک مشہور اسکول تھا جسے انگریز چلا رہے تھے، خاص بات یہ تھی کہ اس اسکول کی چھت پر برٹش گورنمنٹ کا جھنڈا یعنی یونین جیک لہرا رہا تھا کسی آدمی کے منہ سے یہ جملہ سنا کہ دیکھو انگریز چلے گئے مگر اپنی یادگاریں چھوڑ گئے، ان کا اشارہ برٹش جھنڈے کی جانب تھا چنانچہ میں نے اپنی کم عمری کے باوجود یہ عہدکیا کہ یہ جھنڈا اب اس اسکول کی چھت پر نظر نہیں آنا چاہیے چنانچہ اگلے روز میں نے اپنے ہم عمر بچوں کو ساتھ لیا اور اچانک اس اسکول میں داخل ہوئے اور اس اسکول کی چھت پر چڑھ گئے اور چند لمحوں کے بعد برٹش گورنمنٹ کا جھنڈا میرے ہاتھوں میں تھا جسے لے کر میں سڑک پر آگیا چنانچہ ہم بچوں نے وہ جھنڈا نذر آتش کردیا۔ اسکول انتظامیہ اس ہنگامی صورتحال کے لیے تیار نہ تھی چنانچہ وہ سب لوگ حیرت و افسوس سے ہماری جانب دیکھ رہے تھے۔ اس صورتحال کے ہم بچے ذمے دار ضرور تھے مگر ہمیں خبر نہ تھی کہ آگے کی صورتحال کیا ہوگی؟ چنانچہ ہم اسی جگہ موجود رہے اور تھوڑی دیر میں پولیس والے آگئے اور ہم میں سے اکثر بچوں کو قریبی تھانے لے گئے، پھر ظاہر ہے ہمارے بڑے اس معاملے میں دخیل ہوئے اور ہمیں تھانے سے رہائی ملی۔
آپ یہ بتائیں کہ آپ سیاست میں کب آئے؟ یہ ہمارا دوسرا سوال تھا اس سوال کا جواب سلیم اختر نے یہ دیا کہ نامور ترقی پسند رہنما اکثر ہمارے پھوپھا کے گھر آتے جاتے تھے جن میں ایک کامریڈ حسن ناصر بھی تھے چنانچہ جب بھی حسن ناصر ہمارے پھوپھا کے گھر آتے تو میرا بڑا بھائی ان کے پاس بیٹھا رہتا اور ان کی گفتگو سنتا رہتا یہی سبب تھا کہ جب 13 نومبر 1960 کو لاہور کے شاہی قلعے میں حسن ناصر پر تشدد کر کے سرکاری سرپرستی میں ان کا قتل کیا گیا تو میرے بڑے بھائی اس قدر صدمے سے دوچار ہوئے کہ ہمارے گھر میں تین روز تک کھانا نہیں پکایا گیا، میں خود تو حسن ناصر سے کبھی نہ ملا تھا البتہ میں اتنا ادراک ضرور کرچکا تھا کہ بلاشبہ حسن ناصرکوئی اہم آدمی تھا۔ چنانچہ میں نے حسن ناصرکی شخصیت پر غور کرنا شروع کردیا اور مارکسزم کی جانب راغب ہوتا چلا گیا اور 1961 میں فقط 15 برس کی عمر میں سیاست میں داخل ہوگیا۔
وہی زیر زمین رہ کر کام کرنے والی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا کارکن بن گیا۔ ہمارا تیسرا سوال یہ تھا کہ 10 برس کی عمر میں توگرفتار ہوئے،کیا اس کے بعد بھی کبھی گرفتار ہوئے؟ ہمارے اس سوال کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ اس کے بعد کبھی گرفتار نہیں ہوا۔ کتنی صداقت تھی ان کے جواب میں، چاہتے تو سیاسی قد بڑھانے کے لیے کوئی سا بھی جواب دے سکتے تھے۔ میرا چوتھا سوال تھا کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی سیاسی جدوجہد کا اگر ادراک کرنا ہو تو کیسے کیا جائے۔ جوابا انھوں نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے چار ادوار کو اگر مدنظر رکھا جائے تو سب کچھ آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔ پہلا دور وہ تھا جب 1948 میں سید سجاد ظہیر انڈیا سے آئے اور پارٹی کا قیام عمل میں آیا وہ دور انتہائی مختصر تھا فقط چھ برس۔ یعنی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پابندی کا شکار ہوگئی اور سید سجاد ظہیر کو جلا وطن کردیا گیا اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان زیر زمین چلی گئی۔
اس دور کو ہم حسن ناصر کا دور کہہ سکتے ہیں یہ دور بھی فقط چھ برس پر محیط ہے جب کہ تیسرا دور 1960 سے 1980 کا دور ہم کہہ سکتے ہیں۔ اس عرصے میں بھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان زیر زمین رہ کر ہی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی اس دور میں نذیر عباسی نے شہادت پائی، پارٹی کارکردگی پوری طرح عیاں ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کا چوتھا دور 1980 سے لے کر عصر حاضر کا دور ہے اس دور میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان امام علی نازش کی قیادت میں 1990 میں منظر عام پر آگئی ان چاروں ادوار کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پارٹی کے ہر دور کی کارکردگی ہمارے سامنے آجائے گی کہ کس دور میں کس نے کیا کیا۔
پانچواں سوال یہ تھا کہ کوئی شدید خواہش؟ اس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ میری شدید خواہش ہے کہ تمام مارکسی دانشور ایک فورم بنائیں اور اس فورم میں موجودہ دورکے سماجی حالات کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیں اور آنے والے وقتوں میں کیا کرنا ہے یہ طے کریں۔ کیونکہ جب تک کسی طبیب کو اپنے مریض کے مرض کا ادراک نہ ہوگا وہ طبیب کیا علاج کرے گا۔ گفتگو طویل سے طویل تر ہو رہی تھی ان سے مزاج پرسی کے لیے آنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا چنانچہ ظفر اسلم نے سلیم اختر سے اجازت لی اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے چلے آئے۔
راستے بھر ہم سوچتے رہے کہ پاکستانی سیاست میں کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ ہمارے سماج کے لوگوں کی ضروریات ہیں خوراک، پوشاک، رہائش، روزگار، تعلیم، علاج کی سہولیات، سماجی امن وغیرہ، مگر ہمارے سماج کے لوگوں کو دیا کیا جا رہا ہے، موٹر وے، موٹر بس منصوبہ، اورنج بس منصوبہ، سی پیک جیسے منصوبے۔ کیا یہ تمام منصوبے ہمارے سماج کے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ ہمارے سماج کے سیاست دانوں کی مثال ان نیم حکیموں جیسی ہے جنھیں یہ تک ادراک نہیں مریض کو مرض کیا لاحق ہے۔
ایسے ہی ہمارے سیاست دانوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ہماری عوام کی ضروریات کیا ہیں؟ چنانچہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ایسے سیاستدانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جنھیں عوامی مسائل کا ادراک بھی ہو اور وہ سیاست دان عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ اگر ایسا کریں گے تو ہمارے مسائل حل ہوں گے۔ آخر میں تمام قارئین سے التماس ہے کہ تہہ دل سے دعا کریں کہ سلیم اختر جلد صحت یاب ہوجائیں اور حسب سابق اپنے شب و روز گزاریں۔