جارحانہ سیاست
ہر معاملے میں شریف برادران کو ملوث کرنا اور دونوں بھائیوں پر ہمیشہ تنقید عمران خان کا سیاسی اصول بنا ہوا ہے
ملک میں جاری جمہوریت میں جو حقیقی جمہوریت تو ہے ہی نہیں بلکہ ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے قائم وہ جمہوریت ہے جس میں جنرل مشرف دور کے بعد صرف سیاستدانوں ہی کو فائدہ پہنچا اور عوام کوکوئی بھی فائدہ نہیں ہوا بلکہ دہشت گردی میں سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان عوام کا ہی ہوا ہے ۔ سیاستدان اور افسران جو دہشت گردی کا نشانہ بنے انھیں ہر حکومت کی طرف سے مالی معاونت حاصل ہوئی جب کہ متاثر ہونے والے عام لوگوں کی مالی معاونت کے اعلان زیادہ ہوئے اور سرکاری امداد توقع سے بہت کم ملی اور ملی تو سیاسی افراد اور سرکاری افسران کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔
ملک میں دہشت گردی میں تو نمایاں کمی آئی ہے مگر ملکی سیاست میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ جھوٹے الزامات، غلط و بے بنیاد دعوؤں اور سیاسی انتہا پسندی بڑھنے سے سیاست انتہائی جارحانہ ہوگئی ہے اور سیاست کواس مقام پر پہنچانے، سیاست میں بداخلاقی کا آغاز عمران خان نے کیا تھا جو بڑھتے بڑھتے اب انتہائی جارحانہ شکل اختیارکرتی جا رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب، سندھ اورکے پی کے میں اجلاسوں میں متعدد بار ایسے جارحانہ مناظر پیش آچکے ہیں جہاں ایک دوسرے پر ذاتی حملے بھی ہوچکے ہیں اوراگر ملک میں جارحانہ سیاست جاری رہی تو ملک کے کسی ایوان میں وہ مناظر بھی نظر آجائیں گے جو اب تک کسی ایوان میں نظر نہیں آئے۔
ملک کی سیاست کو جارحانہ بنانے کے بعد عمران خان کو جواب دینے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی میدان میں آچکے ہیں جب کہ دیگر سیاسی رہنماؤں کے جارحانہ بیانات بھی ملکی سیاست میں جھوٹ کو فروغ دینے اور سیاست کو ذاتیات پر لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملکی سیاست میں 2013 کے عام انتخابات کے موقعے پر عمران خان نے ملکی سیاست میں حکمرانوں کو ان کا نام لے کر جارحانہ انداز سے اپنے جلسوں میں پکارنا شروع کیا تھا جس پر سخت تنقید ہوئی تھی جس کے بعد انھوں نے جملوں میں قدرے تبدیلی کی مگر اپنے مخالفین کو للکارنا اور ملکی اداروں کے سربراہوں کی تضحیک کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ پاناما لیکس کے معاملے میں عمران خان کو جواب دینے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اپنے جب رہنماؤںکو آگے کیا تھا۔
ان کو عمران خان نے موٹوگینگ کا نام دیا اور اپنے جن دو رہنماؤں کو پی ٹی آئی کا ترجمان مقرر کیا وہ میڈیا میں آنے کے شوق میں اپنے مخالف رہنماؤں سے تو کیا آپس میں الجھنے سے بھی باز نہیں آئے۔ پی ٹی آئی کیایک رہنما نے عوامی تحریک کے جنرل سیکریٹری کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا تھا وہ میڈیا پر قوم دیکھ چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے عہدے انتہائی ذمے دار ہوتے ہیں مگر کوئی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ آج عدلیہ کے تحفظ کے ذمے دار بننے والے عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات لگائے۔ سپریم کورٹ کی مقررہ جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کرکے آج وہ جے ٹی آئی کے ارکان کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی پر عمران خان نے پہلے 35 پنکچروں کا الزام لگایا اور بعد میں اسے سیاسی بیان قرار دے دیا۔
پیپلزپارٹی کے لیے کبھی نرم اور کبھی گرم رویہ اختیار کرنے والے عمران خان کبھی سندھ میں پی پی حکومت کی کرپشن کے خلاف ریلیاں نکلوائیں اور سکھر میں خود شرکت کا اعلان کیا مگر ایک معاملے پر پی پی کی حمایت لینے کے لیے انھوں نے آخر میں ریلی میں شرکت ہی منسوخ کردی۔ مصلحت کے تحت آصف علی زرداری پر کڑی تنقید کبھی خاموشی کی سیاست عمران خان ہی کی پالیسی رہی ہے۔
ہر معاملے میں شریف برادران کو ملوث کرنا اور دونوں بھائیوں پر ہمیشہ تنقید عمران خان کا سیاسی اصول بنا ہوا ہے۔ لاہور کی میٹرو بسوں کو جنگلا بس قرار دینے والے عمران خان اب پشاور میں میٹرو بنوا رہے ہیں۔ عمران خان نے آج تک کبھی وفاقی اور پنجاب حکومت کے کسی ایک بھی اچھے کام کی تعریف نہیں کی حالانکہ اخلاقی طور پر اپنے کسی دشمن کے اچھے کام یا بات کی تائید کی جانی چاہیے مگر عمران خان اپنے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو شہباز شریف سے بہتر قرار دیتے ہیں جب کہ دنیا پنجاب میں ہونے والی ترقی کا کریڈٹ شہباز شریف کو دیگر سب سے اچھا کام کرنے والا وزیر اعلیٰ قرار دے رہی ہے مگر نواز شریف دشمنی میں شہباز شریف کے ہر اچھے کام کی مخالفت عمران خان نے اپنا اولین اصول بنا رکھا ہے۔ نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے کبھی نواز شریف کو سیکیورٹی رسک قرار نہیں دیا مگر عمران خان اور علامہ طاہر القادری سیاسی دشمنی میں نواز شریف کو سیکیورٹی رسک قرار دیتے نہیں تھک رہے۔
علامہ طاہر القادری کو دھرنے میں بھائی بنانے والے عمران خان بھی علامہ کے ساتھ نہیں چل سکے بس دونوں میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں سیاست میں شریف برادران کے دشمن ضرور ہیں۔ عمران خان کے ساتھ شریف برادران کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ علامہ طاہر القادری کا ہے جو اکثر ملک سے باہر رہتے ہیں اور پاکستان آتے ہی شریف برادران کو ہر معاملے کا ذمے دار قرار دینے میں دیر نہیں کرتے۔ شریف برادران بھی سیاستدان ہیں جن سے اختلاف کا ہر ایک کو سیاسی حق ہے مگر سیاسی اختلافات کی بھی حد ہوتی ہے جس میں ذاتیات کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ چار سالوں سے وزیر اعظم کے خلاف سیاست میں جو الفاظ استعمال ہو رہے ہیں وہ اس سے قبل کبھی کسی وزیر اعظم کے خلاف استعمال نہیں ہوئے۔
سیاست میں جارحانہ رویہ بڑھتا دیکھ کر (ن) لیگ کے رہنما بھی آپے سے باہر ہوکر عمران خان کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ بھی کسی طور مناسب نہیں کہ ایک قومی رہنما کے خلاف ایسی زبان کا استعمال سیاست میں کسی بڑی خونریزی کا سبب بھی بن سکتا ہے کچھ عرصہ قبل کراچی میں عمران خان کے خلاف شرمناک چاکنگ ہوئی تھی جو مناسب نہیں تھی مگر جب عمران خان خود دوسروں پر حملے کریں گے تو جواب بھی ویسا ہی آئے گا۔ ضروری ہے کہ عمران خان سمیت تمام رہنما اپنے جارحانہ سیاسی رویے تبدیل کریں اور سیاست میں شائستگی اور برداشت کو فروغ دیں تاکہ جارحانہ سیاست کی حوصلہ شکنی ہو۔
ملک میں دہشت گردی میں تو نمایاں کمی آئی ہے مگر ملکی سیاست میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ جھوٹے الزامات، غلط و بے بنیاد دعوؤں اور سیاسی انتہا پسندی بڑھنے سے سیاست انتہائی جارحانہ ہوگئی ہے اور سیاست کواس مقام پر پہنچانے، سیاست میں بداخلاقی کا آغاز عمران خان نے کیا تھا جو بڑھتے بڑھتے اب انتہائی جارحانہ شکل اختیارکرتی جا رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب، سندھ اورکے پی کے میں اجلاسوں میں متعدد بار ایسے جارحانہ مناظر پیش آچکے ہیں جہاں ایک دوسرے پر ذاتی حملے بھی ہوچکے ہیں اوراگر ملک میں جارحانہ سیاست جاری رہی تو ملک کے کسی ایوان میں وہ مناظر بھی نظر آجائیں گے جو اب تک کسی ایوان میں نظر نہیں آئے۔
ملک کی سیاست کو جارحانہ بنانے کے بعد عمران خان کو جواب دینے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی میدان میں آچکے ہیں جب کہ دیگر سیاسی رہنماؤں کے جارحانہ بیانات بھی ملکی سیاست میں جھوٹ کو فروغ دینے اور سیاست کو ذاتیات پر لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملکی سیاست میں 2013 کے عام انتخابات کے موقعے پر عمران خان نے ملکی سیاست میں حکمرانوں کو ان کا نام لے کر جارحانہ انداز سے اپنے جلسوں میں پکارنا شروع کیا تھا جس پر سخت تنقید ہوئی تھی جس کے بعد انھوں نے جملوں میں قدرے تبدیلی کی مگر اپنے مخالفین کو للکارنا اور ملکی اداروں کے سربراہوں کی تضحیک کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ پاناما لیکس کے معاملے میں عمران خان کو جواب دینے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اپنے جب رہنماؤںکو آگے کیا تھا۔
ان کو عمران خان نے موٹوگینگ کا نام دیا اور اپنے جن دو رہنماؤں کو پی ٹی آئی کا ترجمان مقرر کیا وہ میڈیا میں آنے کے شوق میں اپنے مخالف رہنماؤں سے تو کیا آپس میں الجھنے سے بھی باز نہیں آئے۔ پی ٹی آئی کیایک رہنما نے عوامی تحریک کے جنرل سیکریٹری کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا تھا وہ میڈیا پر قوم دیکھ چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے عہدے انتہائی ذمے دار ہوتے ہیں مگر کوئی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ آج عدلیہ کے تحفظ کے ذمے دار بننے والے عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات لگائے۔ سپریم کورٹ کی مقررہ جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کرکے آج وہ جے ٹی آئی کے ارکان کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی پر عمران خان نے پہلے 35 پنکچروں کا الزام لگایا اور بعد میں اسے سیاسی بیان قرار دے دیا۔
پیپلزپارٹی کے لیے کبھی نرم اور کبھی گرم رویہ اختیار کرنے والے عمران خان کبھی سندھ میں پی پی حکومت کی کرپشن کے خلاف ریلیاں نکلوائیں اور سکھر میں خود شرکت کا اعلان کیا مگر ایک معاملے پر پی پی کی حمایت لینے کے لیے انھوں نے آخر میں ریلی میں شرکت ہی منسوخ کردی۔ مصلحت کے تحت آصف علی زرداری پر کڑی تنقید کبھی خاموشی کی سیاست عمران خان ہی کی پالیسی رہی ہے۔
ہر معاملے میں شریف برادران کو ملوث کرنا اور دونوں بھائیوں پر ہمیشہ تنقید عمران خان کا سیاسی اصول بنا ہوا ہے۔ لاہور کی میٹرو بسوں کو جنگلا بس قرار دینے والے عمران خان اب پشاور میں میٹرو بنوا رہے ہیں۔ عمران خان نے آج تک کبھی وفاقی اور پنجاب حکومت کے کسی ایک بھی اچھے کام کی تعریف نہیں کی حالانکہ اخلاقی طور پر اپنے کسی دشمن کے اچھے کام یا بات کی تائید کی جانی چاہیے مگر عمران خان اپنے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو شہباز شریف سے بہتر قرار دیتے ہیں جب کہ دنیا پنجاب میں ہونے والی ترقی کا کریڈٹ شہباز شریف کو دیگر سب سے اچھا کام کرنے والا وزیر اعلیٰ قرار دے رہی ہے مگر نواز شریف دشمنی میں شہباز شریف کے ہر اچھے کام کی مخالفت عمران خان نے اپنا اولین اصول بنا رکھا ہے۔ نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے کبھی نواز شریف کو سیکیورٹی رسک قرار نہیں دیا مگر عمران خان اور علامہ طاہر القادری سیاسی دشمنی میں نواز شریف کو سیکیورٹی رسک قرار دیتے نہیں تھک رہے۔
علامہ طاہر القادری کو دھرنے میں بھائی بنانے والے عمران خان بھی علامہ کے ساتھ نہیں چل سکے بس دونوں میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں سیاست میں شریف برادران کے دشمن ضرور ہیں۔ عمران خان کے ساتھ شریف برادران کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ علامہ طاہر القادری کا ہے جو اکثر ملک سے باہر رہتے ہیں اور پاکستان آتے ہی شریف برادران کو ہر معاملے کا ذمے دار قرار دینے میں دیر نہیں کرتے۔ شریف برادران بھی سیاستدان ہیں جن سے اختلاف کا ہر ایک کو سیاسی حق ہے مگر سیاسی اختلافات کی بھی حد ہوتی ہے جس میں ذاتیات کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ چار سالوں سے وزیر اعظم کے خلاف سیاست میں جو الفاظ استعمال ہو رہے ہیں وہ اس سے قبل کبھی کسی وزیر اعظم کے خلاف استعمال نہیں ہوئے۔
سیاست میں جارحانہ رویہ بڑھتا دیکھ کر (ن) لیگ کے رہنما بھی آپے سے باہر ہوکر عمران خان کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ بھی کسی طور مناسب نہیں کہ ایک قومی رہنما کے خلاف ایسی زبان کا استعمال سیاست میں کسی بڑی خونریزی کا سبب بھی بن سکتا ہے کچھ عرصہ قبل کراچی میں عمران خان کے خلاف شرمناک چاکنگ ہوئی تھی جو مناسب نہیں تھی مگر جب عمران خان خود دوسروں پر حملے کریں گے تو جواب بھی ویسا ہی آئے گا۔ ضروری ہے کہ عمران خان سمیت تمام رہنما اپنے جارحانہ سیاسی رویے تبدیل کریں اور سیاست میں شائستگی اور برداشت کو فروغ دیں تاکہ جارحانہ سیاست کی حوصلہ شکنی ہو۔