گہرا سمندر…نئی جنگوں کا نشانہ نایاب دھاتیں پانے کی نئی دوڑ شروع ہو چکی

گہرے سمندر کی افادیت سامنے آنے کے بعد مستقبل میں عالمی طاقتوں کے مابین اس علاقے کی خاطر بھی رسّہ کشی شروع ہوسکتی ہے

گہرے سمندر کی افادیت سامنے آنے کے بعد مستقبل میں عالمی طاقتوں کے مابین اس علاقے کی خاطر بھی رسّہ کشی شروع ہوسکتی ہے: فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
کوئی بھی ملک ہو، اس کا حکمران طبقہ اپنی ملکیت میں نئے علاقے شامل کرتے ہوئے ازحد خوشی محسوس کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ نئے علاقوں پر قبضے کی چاہ انسان میں ازلی ہو۔ اب یہ خواہش حضرت انسان کو ایک نئے علاقے... گہرے سمندر میں جانے پر ابھار رہی ہے۔ وجہ یہ کہ وہاں قیمتی و نایاب دھاتیں مثلاً سونا، چاندی، تانبا، زنک، کوبالٹ وغیرہ کا بھاری ذخیرہ موجود ہے۔

گہرے سمندر سے مراد وہ سمندری رقبہ ہے جو سطح سمندر سے کم از کم 18000 میٹر (5905 فٹ) نیچے ہو۔ اس علاقے میں سورج کی کرنیں نہیں پہنچ پاتیں لہٰذا وہاں تاریکی کا راج ہے۔ ماضی میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ گہرے سمندر میں زندگی عنقا ہوگی مگر جب بیسویں صدی میں گہرے سمندر میں جانے کے لیے آبدوزیہ (submersible) یعنی چھوٹی آبدوز ایجاد ہوئی تو اس نے طرز فکر بدل ڈالا۔ انکشاف ہوا کہ گہرے سمندر میں تو رنگ برنگی آبی حیوانیات سانس لیتی اور خدائے تعالیٰ کی نیرنگیاں دکھاتی ہیں۔

طویل عرصہ سائنس داں گہرے سمندر میں آباد زندہ مخلوق پر تحقیق کرتے رہے مگر اب وسائل پانے کی چاہ ترقی یافتہ ممالک کو دنیا کے سب سے زیادہ دشوار گزار علاقے میں جانے پر ابھار رہی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ گہرے سمندر میں کان کنی کرکے نایاب دھاتیں نکالی جاسکیں۔ واضح رہے، آج عالمی معیشت کا پہیہ دھاتوں کی مدد سے بھی رواں دواں ہے۔ خدانخواستہ کرہ ارض سے دھاتیں ختم ہوجائیں، تو روزمرہ استعمال کی سینکڑوں اشیاء تیار ہونا بند ہوجائیں گی۔

اقوام متحدہ نے گہرے سمندروں میں کان کنی کی اجازت دیتے ہوئے اور دیگر امور کی نگرانی کے لیے ایک ادارہ، انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی بنا رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے سبھی رکن ممالک اس ادارے کے اصول و قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اگر کوئی ملک اپنے ''ایکسکلوسیواکنامک زون'' (ساحل سمندر سے 370 کلو میٹر دور کے علاقے) سے باہر گہرے سمندر میں کان کنی کرنا چاہے، تو درج بالا اتھارٹی اسے لائسنس جاری کرتی ہے۔


قوانین کی رو سے ایک ملک اپنے ایکسکلوسیواکنامک زون سے باہر گہرے سمندر میں دو کانیں قائم کرسکتا ہے۔ مگر ایک کان دس تا بیس سال کے لیے اسے انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی کے حوالے کرنا پڑے گی۔ چونکہ کان سے شروع شروع ہی میں وافر معدنیات ملتی ہیں، اس لیے کئی صنعتی ممالک نے اتھارٹی کی شرط کو سخت قرار دیا اور کئی برس تک اسے تسلیم کرنے سے انکاری رہے۔

گہرے سمندر کا رقبہ زمین کے ''60 فیصد'' رقبے پر مشتمل ہے۔ انسان اب تک اس وسیع و عریض رقبے کا صرف ''5 فیصد'' رقبہ ہی کنگھال پایا ہے مگر اب ترقی یافتہ اور امیر ملک گہرے سمندر کے اسرار جاننا چاہتے ہیں تاکہ وہاں پوشیدہ کھربوں ڈالر کی معدنیات سے استفادہ کرسکیں۔ماہرین کی رو سے گہرے سمندر میں تانبے، نکل اور کوبالٹ کے بھاری ذخائر موجود ہیں۔ یہ دھاتیں نئی ایجادات مثلاً میموری چپس، ایل ای ڈی اور بیٹریاں بنانے میں کام آتی ہیں۔ پھر گہرے سمندروں میں نایاب دھاتوں (Rare-earth elements) کی موجودگی بھی انسان کا دل للچاتی ہے۔ ایک رپورٹ کی رو سے صرف بحرالکاہل میں ٹیلوریم(tellurium) کا ذخیرہ ارضی ذخیرے سے ''بائیس گنا'' زیادہ ہے۔ یہ نایاب دھات شمسی پینل بنانے میں کام آتی ہے۔

لیکن گہرے سمندر میں کان کنی کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ وہاں سطح آب کی نسبت پانی کا دباؤ ''پانچ سو گنا'' زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اتنے زیادہ دباؤ والے علاقے میں کان کنی کرنے کی خاطر خصوصی آلات درکار ہیں۔ کان کنی کا یہ مہنگا عمل صرف امیر و ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ یا پھر چین جہاں دنیا میں سب سے زیادہ دھاتیں مختلف اشیا بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

گہرے سمندر کی افادیت سامنے آنے کے بعد مستقبل میں عالمی طاقتوں کے مابین اس علاقے کی خاطر بھی رسّہ کشی شروع ہوسکتی ہے۔ جیسے قطبین پر اپنا اپنا جھنڈا لگانے کے لیے روس، امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر ملک خصوصاً قطب شمالی کے زیادہ سے زیادہ رقبے پر اپنا کلّہ گرانے کا خواہش مند ہے۔اسی طرح بحیرہ جنوبی چین کے معاملے میں امریکا اور چین کے تصادم کا خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
Load Next Story