جامعہ کراچی بینظیر چیئر عمارت اور کنونشن سینٹر کی تعمیر میں بے قاعدگیوں کا انکشاف
سابق ڈائریکٹر کے بجٹ اور بینک اکائونٹ استعمال کرنے کا معاملہ سامنے آگیا
جامعہ کراچی کی بینظیربھٹو ریسرچ چیئرکی عمارت اور کنونشن سینٹرکے تعمیراتی ٹھیکوں میں کئی ملین روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
ادائیگیوں کے معاملے میں بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، منظور شدہ پی سی ون میں مختص رقم سے زائد ادائیگیاں کرنے کے علاوہ مستقل ڈائریکٹرکی موجودگی میں سابق ڈائریکٹرکی جانب سے بجٹ اور بینک اکائونٹ استعمال کرنے کے معاملات سامنے آئے ہیں یہ انکشاف وائس چانسلرسیکریٹریٹ کے ذرائع سے موصول آڈٹ رپورٹ میں ہوا ہے ۔
اس آڈٹ رپورٹ کے باوجود انتظامیہ نے ذمے داروں کے تعین کے لیے تحقیقات کی اور نہ ہی کسی کے خلاف کارروائی سامنے آئی رپورٹ کے مطابق بینظیر بھٹو چیئر کے اسائمنٹ اکاؤنٹ سے یونیورسٹی اکاؤنٹ میں 60 لاکھ روپے سے زائد رقم منتقل کی گئی یہ رقم 23 جون 2014 میں منتقل کی گئی تھی جب اس چیئرکے ڈائریکٹر پروفیسرسلیم میمن تھے رپورٹ میں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کہاگیا ہے آڈٹ آبزرویشن میں مزیدانکشاف کیاگیاہے کہ بینظیر بھٹو چیئر اورکنونشن سینٹرکی تعمیرکا ٹھیکہ سیکنڈلوئسٹ بڈر کوجاری کرکے قومی خزانے کو37.043 ملین روپے کانقصان پہنچایاگیا چیئراورکنونشن سینٹرکی تعمیر کے لیے ٹھیکہ دوسرے کم ترین بولی دینے والے ٹھیکے دارشمس اینڈ زین میوراجپوت کنسٹرکشن کمپنی کو 264.533 ملین روپے میں جاری کیاگیا جبکہ پہلے کم ترین بولی دینے والی کمپنی حاجی گل محمد خان شیرانی نے اس کی تعمیر کے لیے 227.490ملین روپے کی بولی دی تھی جو پروفارمے پر سیکیورٹی جمع نہ کرائے جانے کا اعتراض لگاکر مستردکردی گئی جس سے حکومت کو37.043ملین روپے کانقصان ہوا ۔
اس سلسلے میں آڈٹ کوپے آرڈر، ڈیمانڈ ڈرافٹ کی شکل میں بڈ سیکیورٹی کاعکس فراہم نہیں کیا گیا متعلقہ منصوبے کی ڈر ائنگ اورمیپنگ اورمکمل سپرویژن کے لیے متعلقہ فرم شہزادایسوسی ایٹ کوپی سی ون میں موجود مجموعی رقم کے 2 فیصد ادائیگی کے بجائے ایک فیصد بڑھاکر3 فیصد ادائیگی کی گئی متعلقہ کمپنی کو7.936ملین روپے دیے گئے جو مجموعی رقم کا 3 فیصد ہے جبکہ کمپنی کو2 فیصدیعنی 5.290ملین روپے جاری کیے جانے تھے اور 2.646ملین روپے اضافی جاری کردیے گئے جس کے لیے اتھارٹی سے منظوری بھی نہیں لی گئی متعلقہ کمپنی کو7.936ملین روپے سپرویژن کی مد میں جاری کیے گئے جس میں اسے کنونشن سینٹر،دفتراورمنسلک سہولیات کی کنسلٹنسی سپرویژن کرنی تھی تاہم پری کوالی فکیشن دستاویزات کے مطابق یہ ادارہ اس کنٹریکٹ کا اہل ہی نہیں تھا اس سلسلے میں جو پروکیورمنٹ کمیٹی بنائی گئی۔
ایس پی پی قانون 2010 سے متصادم ہے کمیٹی کے ساتوں اراکین جامعہ کراچی سے تعلق رکھتے تھے جبکہ حکومت سندھ محکمہ ترقیات ومنصوبہ بندی اور محکمہ خزانہ کوکمیٹی میں رکنیت ہی نہیں دی گئی اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ ڈائریکٹرجنرل آڈٹ سندھ کی جانب سے سابق وائس چانسلرکو24جون 2016کوایک خط جاری کیا گیا جس میں بتایاگیاکہ2 جون 2015 کوچیئرکی ڈائریکٹرسحر گل کی جانب سے عہدے کاچارج سنبھالنے کے باوجود چیئرکے سابق ڈائریکٹر پروفیسرسلیم میمن نے اپنے اختیارات کاناجائز استعمال کرتے ہوئے12جون 2015 کو2کروڑ46لاکھ 70ہزارروپے کے چیک پر دستخط کیے جبکہ رجسٹرارآفس کے ریکارڈ کے مطابق سحر گل اپنے عہدے کاچارج لے چکی تھیں یہ چیک شمس اینڈ زین میوراجپوت کنسٹرکشن کمپنی کوجاری کیاگیا رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹرکی موجودگی میں غیر مجاز اتھارٹی کی جانب سے کنٹریکٹرکوکی گئی اتنی بڑی رقم کی ادائیگی سے شکوک جنم لے رہے ہیں قابل ذکرامریہ ہے کہ آڈٹ رپورٹ کے بیشترمندرجات موجودہ وائس چانسلرکے دور میں ہی جاری کیے گئے ہیں۔
تاہم یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلرکی جانب سے اس سلسلے میں انکوائری کرائی گئی اور نہ سابق ڈائریکٹربینظیرچیئرکواس سلسلے میں کونوٹس جاری کیاگیا اس کے برعکس سیکریٹریٹ برائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزکے دباؤ پر موجودہ ڈائریکٹر کوعہدے سے فارغ کردیاگیا جبکہ سابق ڈائریکٹر بینظیر چیئرکو شاہ لطیف چیئرکے ڈائریکٹرکے عہدے پر6 ماہ کے لیے توسیع دیدی گئی جس سے مزیدشکوک جنم لے رہے ہیں دو ہفتے قبل منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران بینظیرچیئرکی سبکدوش کی گئی ڈائریکٹرنے یہ الزام لگایاتھاکہ جب انتظامیہ سے کہاگیاہے کہ مذکورہ کنٹریکٹر اس منصوبے کااہل نہیں ہے توانتظامیہ کی جانب سے مسلسل یہ کہاگیاہے اسے کام جاری رکھنے دیاجائے۔
ادائیگیوں کے معاملے میں بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، منظور شدہ پی سی ون میں مختص رقم سے زائد ادائیگیاں کرنے کے علاوہ مستقل ڈائریکٹرکی موجودگی میں سابق ڈائریکٹرکی جانب سے بجٹ اور بینک اکائونٹ استعمال کرنے کے معاملات سامنے آئے ہیں یہ انکشاف وائس چانسلرسیکریٹریٹ کے ذرائع سے موصول آڈٹ رپورٹ میں ہوا ہے ۔
اس آڈٹ رپورٹ کے باوجود انتظامیہ نے ذمے داروں کے تعین کے لیے تحقیقات کی اور نہ ہی کسی کے خلاف کارروائی سامنے آئی رپورٹ کے مطابق بینظیر بھٹو چیئر کے اسائمنٹ اکاؤنٹ سے یونیورسٹی اکاؤنٹ میں 60 لاکھ روپے سے زائد رقم منتقل کی گئی یہ رقم 23 جون 2014 میں منتقل کی گئی تھی جب اس چیئرکے ڈائریکٹر پروفیسرسلیم میمن تھے رپورٹ میں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کہاگیا ہے آڈٹ آبزرویشن میں مزیدانکشاف کیاگیاہے کہ بینظیر بھٹو چیئر اورکنونشن سینٹرکی تعمیرکا ٹھیکہ سیکنڈلوئسٹ بڈر کوجاری کرکے قومی خزانے کو37.043 ملین روپے کانقصان پہنچایاگیا چیئراورکنونشن سینٹرکی تعمیر کے لیے ٹھیکہ دوسرے کم ترین بولی دینے والے ٹھیکے دارشمس اینڈ زین میوراجپوت کنسٹرکشن کمپنی کو 264.533 ملین روپے میں جاری کیاگیا جبکہ پہلے کم ترین بولی دینے والی کمپنی حاجی گل محمد خان شیرانی نے اس کی تعمیر کے لیے 227.490ملین روپے کی بولی دی تھی جو پروفارمے پر سیکیورٹی جمع نہ کرائے جانے کا اعتراض لگاکر مستردکردی گئی جس سے حکومت کو37.043ملین روپے کانقصان ہوا ۔
اس سلسلے میں آڈٹ کوپے آرڈر، ڈیمانڈ ڈرافٹ کی شکل میں بڈ سیکیورٹی کاعکس فراہم نہیں کیا گیا متعلقہ منصوبے کی ڈر ائنگ اورمیپنگ اورمکمل سپرویژن کے لیے متعلقہ فرم شہزادایسوسی ایٹ کوپی سی ون میں موجود مجموعی رقم کے 2 فیصد ادائیگی کے بجائے ایک فیصد بڑھاکر3 فیصد ادائیگی کی گئی متعلقہ کمپنی کو7.936ملین روپے دیے گئے جو مجموعی رقم کا 3 فیصد ہے جبکہ کمپنی کو2 فیصدیعنی 5.290ملین روپے جاری کیے جانے تھے اور 2.646ملین روپے اضافی جاری کردیے گئے جس کے لیے اتھارٹی سے منظوری بھی نہیں لی گئی متعلقہ کمپنی کو7.936ملین روپے سپرویژن کی مد میں جاری کیے گئے جس میں اسے کنونشن سینٹر،دفتراورمنسلک سہولیات کی کنسلٹنسی سپرویژن کرنی تھی تاہم پری کوالی فکیشن دستاویزات کے مطابق یہ ادارہ اس کنٹریکٹ کا اہل ہی نہیں تھا اس سلسلے میں جو پروکیورمنٹ کمیٹی بنائی گئی۔
ایس پی پی قانون 2010 سے متصادم ہے کمیٹی کے ساتوں اراکین جامعہ کراچی سے تعلق رکھتے تھے جبکہ حکومت سندھ محکمہ ترقیات ومنصوبہ بندی اور محکمہ خزانہ کوکمیٹی میں رکنیت ہی نہیں دی گئی اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ ڈائریکٹرجنرل آڈٹ سندھ کی جانب سے سابق وائس چانسلرکو24جون 2016کوایک خط جاری کیا گیا جس میں بتایاگیاکہ2 جون 2015 کوچیئرکی ڈائریکٹرسحر گل کی جانب سے عہدے کاچارج سنبھالنے کے باوجود چیئرکے سابق ڈائریکٹر پروفیسرسلیم میمن نے اپنے اختیارات کاناجائز استعمال کرتے ہوئے12جون 2015 کو2کروڑ46لاکھ 70ہزارروپے کے چیک پر دستخط کیے جبکہ رجسٹرارآفس کے ریکارڈ کے مطابق سحر گل اپنے عہدے کاچارج لے چکی تھیں یہ چیک شمس اینڈ زین میوراجپوت کنسٹرکشن کمپنی کوجاری کیاگیا رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹرکی موجودگی میں غیر مجاز اتھارٹی کی جانب سے کنٹریکٹرکوکی گئی اتنی بڑی رقم کی ادائیگی سے شکوک جنم لے رہے ہیں قابل ذکرامریہ ہے کہ آڈٹ رپورٹ کے بیشترمندرجات موجودہ وائس چانسلرکے دور میں ہی جاری کیے گئے ہیں۔
تاہم یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلرکی جانب سے اس سلسلے میں انکوائری کرائی گئی اور نہ سابق ڈائریکٹربینظیرچیئرکواس سلسلے میں کونوٹس جاری کیاگیا اس کے برعکس سیکریٹریٹ برائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزکے دباؤ پر موجودہ ڈائریکٹر کوعہدے سے فارغ کردیاگیا جبکہ سابق ڈائریکٹر بینظیر چیئرکو شاہ لطیف چیئرکے ڈائریکٹرکے عہدے پر6 ماہ کے لیے توسیع دیدی گئی جس سے مزیدشکوک جنم لے رہے ہیں دو ہفتے قبل منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران بینظیرچیئرکی سبکدوش کی گئی ڈائریکٹرنے یہ الزام لگایاتھاکہ جب انتظامیہ سے کہاگیاہے کہ مذکورہ کنٹریکٹر اس منصوبے کااہل نہیں ہے توانتظامیہ کی جانب سے مسلسل یہ کہاگیاہے اسے کام جاری رکھنے دیاجائے۔