آزادی کی آگ ابھی تک زندہ ہے

ہر سال 5 فروری کو جموں کشمیر میں یوم سیاہ تو آزاد کشمیر میں یوم یک جہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔


Ghulam Mohi Uddin February 05, 2013
جمہوریت پسند ممالک سے لے کر اقوام متحدہ تک کشمیر کے نام پر مکمل خاموشی دکھائی دے رہی ہے۔ فوٹو : فائل

تاریخ کے آئینے میں:

کشمیر برصغیر پاک و ہند کے شمال مغربی خطے میں واقع ہے۔

انیسویں صدی کے وسط تک کوہِ ہمالیہ اور کوہِ پیر پنجال کے درمیان واقع وادی ہی کو کشمیر کہا جاتا تھا تاہم آج کشمیر کا نام بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر سے لے کر لداخ تک محیط ہے اور یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ گلگت/بلتستان اور چین کے زیراہتمام آکاسی چن Akasichin اور قراقرم بھی کشمیر کا حصہ ہیں۔

اس خطے کی تاریخ بہت قدیم ہے تاہم اس کی اہمیت بعد مسیح کی پہلی پانچ صدیوں میں محسوس کی گئی جب یہ خطہ ہندو مت اور بعد میں بدھ مت کا اہم مرکز بنا۔ نویں صدی میں یہاں شومت نے زور پکڑا جب کہ 1349 میں شاہ میر یہاں پہلا مسلمان فرماں روا ہوا جس سے سلاطینِ کشمیر کا سلسلہ جاری ہوا یہ حکم ران سواتی خاندان بھی کہلانے لگے۔ مغلوں نے بھی اس پر 1526 سے 1751 تک حکومت کی، افغانستان کے درانی بھی اس پر 1747 سے 1820 تک فرماں روائی کرتے رہے بعد میں پنجاب کے مہاراجا رنجیت سنگھ نے اسے اپنی اقلیم میں داخل کر لیا اور پھر 1846 میں ڈوگروں (گلاب سنگھ) نے یہ خطہ انگریزوں سے معاہدہ امرت سر کے تحت خرید لیا۔ روایات کے مطابق ڈوگروں نے اسے محض 75 لاکھ روپے (نانک شاہی) میں حاصل کیا۔ خرید و فروخت کے اس عمل کے باوجود کشمیر کی سرپرستی تاج برطانیہ (Paramountcy) ہی کے پاس تھی جو 1947 تک جاری رہی۔ تقسیم کے عمل کے بعد یہ خطہ متنازع ہو گیا اور تین حصوں میں بٹ گیا، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر تو دو سامنے کے ٹکڑے ہیں جب کے ایک ٹکڑا اس کا چین کے قبضے میں ہے۔

کشمیر میں مسلمان بادشاہ شاہ میر وادیٔ سوات سے تعلق رکھنے والا ایک پٹھان تھا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا جمشید اسریر آراء سلطنت ہوا تاہم اسے اس کے بھائی علی شیر نے چند ہی ماہ کے بعد معزول کر دیا اور خود علائو الدین کے نام سے بادشاہ بن گیا۔ سواتی خاندان کے بعد یہاں جا کر تخت نشیں ہوئے اور مغلوں کے آنے (1586) تک کشمیریوں پر مسلط رہے۔

مسلم سلاطین میں سلطان زین العابدین ایک بڑا نام ہے اسے بڈ شاہ (1423-1474) کی عرضیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کے عہد میں بھی تمام مذاہب کے لوگ بھائی چارے کے ساتھ رہے اس حوالے سے بڈشاہ (پڑے شاہ) کو کشمیر کا جلال الدین اکبر کے مماثل قرار پاتا ہے جب کہ بدترین سلطان سکندر بٹ شیکان کو قرار دیا جاتا ہے اس کا دور 1389-1413 بنتا ہے۔ تاریخ میں اس سلطان کی سفاکی کی متعدد داستانیں درج ہیں۔ 1819 میں کشمیر سکھوں نے فتح کر لیا۔ کشمیری ایک بار تو خوش ہوئے کہ انہیں ظالم درانی اور مغل حکم رانوں سے نجات ملی لیکن جانتے نہ تھے کہ سکھ حکم ران ان سے بھی زیادہ سفاک ہیں۔ سو ان پر ظلم و اِدبار کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ سکھوں نے یہاں خاص طور پر مسلمانوں کو اپنی زد پر رکھا اور ان کے خلاف سخت قوانین مرتب کیے۔ کئی مسلمانوں کو کوا مارنے پر موت کی سزا دی گئی۔ ان کے عہد میں سری نگر کی جامع مسجد کو تالا ڈال دیا گیا اور اذان پر پابندی لگا دی گئی اور ان پر بھاری لگان اور آبیانے عاید کر دیے گئے۔ زمینوں کی کاشت پر پابندیاں عاید کی گئیں کیوں کہ کاشت کاری زیادہ تر مسلمان کرتے تھے ایک وقت ایسا آیا جب کشمیر میں محض سولہویں (1/16) حصے پر کاشت رہ گئی جس سے یہاں قحط آ گیا تو 1832 میں سکھا شاہی کو ٹیکسوں میں کمی کرنا پڑی۔ اور کسانوں کو بے سود قرضے بھی فراہم کیے گئے۔ واضح رہے کے کشمیر سکھوں کو ٹیکس فراہم کرنے والا دوسرا بڑا خطہ تھا۔ یہ ہی دور تھا جب کشمیری شال کی شہرت یورپی منڈیوں تک پہنچی، کشمیر کو خریدنے والے مہاراجا گلاب سنگھ کا دادا رنجیت دیو جموں کا راجا تھا سکھوں نے 1780 میں جموں پر بھی قبضہ کر لیا۔ بعد میں گلاب سنگھ کو سکھوں کے دربار میں ملازمت کرنا پڑی، اس نے پورے کشمیر پر سکھوں کی عمل داری قائم کرنے میں خاصی خدمات انجام دیں اور یوں سکھوں کی نظر میں توقیر حاصل کی اور 1820 میں گورنر کشمیر مقرر ہوا اور زورآور سنگھ کی مدد سے لداخ اور بلتستان کو بھی کشمیر میں شامل کروایا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے دوران کشمیری حکم رانوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا جس سے خوش ہو کر انگریز راج نے اس خطے کو اپنی سرپرستی میں لیا۔

1941 کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی یہاں 77 فی صد تھی جب کہ ہندو 20 فی صد تھے اور سکھ محض 3 فی صد تھے۔ 77 فی صد آبادی ہونے کے باوجود مسلمانوں کی حالت زار یہاں ناگفتہ بہ تھی۔ یہاں کے ممتاز صحافی پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں مسلمان بدترین حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے پاس زمین نہیں ہے، وہ غیر موجود زمین داروں کی زمینوں پر زرعی غلاموں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور چھوٹی سی ہندو اشرافیہ ان پر حاکم ہے۔ وہ بنیوں اور مہاشوں کے پرانے مقروض ہیں۔ سود خور ان کا خون چوس رہے ہیں۔ نہ ان کو تعلیم کے مواقع میسر ہیں اور نہ ہی وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔ یاد رہے کہ 1930 تک راج دربار میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔

1925 میں ہری سنگھ یہاں کا راجا ہوا جو 1947 تک مسلط رہا، اس راجا نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کا عندیہ دیا تھا تاہم جب 14 اگست کو پاکستان اور 15 اگست کو ہندوستان وجود میں آئے تو راجا اپنی زبان سے پھر گیا اور ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ اس پر کشمیریوں اور قبائلی پٹھانوں نے ہتھیار اٹھا لیے، راجا نے انگریز گورنر جنرل ہندوستان لارڈ مائونٹ بیٹن سے درخواست کی، لارڈ نے اس شرط پر مدد کی ہامی بھری کے راجا اپنا الحاق بھارت کے ساتھ کرے۔ (ہسٹری آف انڈیا مصنفہ برٹن سٹینن)، راجا کی آمادگی پر بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہو گئی۔ بعد میں یہ قضیہ اقوام متحدہ میں پہنچا، جس نے 1948 کے اواخر میں جنگ بندی کرائی تاہم کشمیر میں الحاق کے حوالے سے رائے شماری کا مطالبہ بھی کیا جو بہ ہرحال آج تک بھارت پورا نہ کر سکا۔ اس دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان تین بڑی جنگیں بھی ہوئیں اور بے شمار جھڑپیں بھی رونما ہوئیں، عوامی سطح پر یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ ان جنگوں کے ظاہری مقاصد خواہ کچھ بھی رہے ہوں ان کے پس منظر میں کشمیر ضرور رہتا ہے۔

حال کا عکس:
کتنی عجیب بات ہے کہ ہر سال 5 فروری کو جموں کشمیر میں یوم سیاہ تو آزاد کشمیر میں یوم یک جہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے اقوام عالم یہ تماشا دیکھتی چلی آرہی ہیں، یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی عوام کسی بھی لمحے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبداد کے چنگل میں پھنسے کشمیریوں کے دکھ اور درد کو بھولے نہیں اور نہ ہی مستقبل میں بھولیں گے تو بے جا ء نہ ہو گا۔ میاں محمد نواز شریف جب 90 کی دہائی کے شروع میں وزیراعظم بنے تو اُس وقت حکومتی سطح پر یوم یک جہتی کشمیر کاآغاز ہوا تھا اور اب ہر سال 5 فروری کو یہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کی ہر سطح پر امداد جاری رکھی جائے گی۔

چند ماہ قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کے مختلف اجلاسوں کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آ جائے گی لیکن ایک دفعہ پھر دونوں جانب سے ''اسٹیٹس کو'' کی طاقتوں نے حالات بگاڑ دیے اور جو لوگ کشمیر کے مسئلے کو بات چیت کے تناظر میں حل ہوتا دیکھ رہے تھے ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ دوسری جانب سات لاکھ سے زائد بھارتی افواج کی سنگینوں تلے آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو بھی امید ہو چلی تھی کہ اگر دونوں ممالک کے باہمی تعلقات بہتر ہوں گے تو کشمیر کے مسئلے پر بھی بات چیت نسبتاً بہتر ماحول میں ہو سکے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔

اِس ضمن میں کچھ ناقدین ہمارے حکمرانوں کی کم زور خارجہ پالیسیوں کو دوش دیتے ہیں تو بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت کی روایتی خباثت جب تک ختم نہیں ہوگی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے مختلف نظریات اور تھیوریاں اپنی جگہ لیکن اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب بھی کشمیر کے حوالے سے ذکر ہوتا ہے جانے کیوں بھارت استدلال کی بجائے محاذ جنگ پر سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے۔ بھارت نے کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کا جس بے دردی کے ساتھ خون بہایا، اُس کو دیکھ کر بھارت کی حالیہ ترقی اور خوشحالی کے دعوے بے بنیاد اور جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔

پھر سچ یہ بھی ہے جمہوریت پسند ممالک سے لے کر اقوام متحدہ تک گزشتہ کئی سالوں سے کشمیر کے نام پر مکمل خاموشی دکھائی دے رہی ہے، سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ کیاکشمیریوں پرہونے والا ظلم امریکا کو نظر نہیں آتا، عراق ، کویت، فلسطین اورافغانستان پر ظلم کے نام پر امریکا نے اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر ماضی میں جو گل کھلائے اُس سے جہاں عالمی امن خطرے میں پڑا تھا، وہاں عالمی معیشت بھی ڈگمگا کر رہ گئی تھی، مگر اِس کے باوجود امریکا نے آج تک بھارت پر کبھی زور نہیں دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے جامع بنیادوں پر اقدامات کرے۔ کچھ حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا کو عالمی امن کے لیے انسانی ہمدردی کی بجائے اپنی لوٹ کھسوٹ کی زیادہ فکر ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم ممالک کی معدنیات اور تیل پر قابض ہونے کے لیے مسلم دشمنی ہی امریکا کی اصل پالیسی ہے۔ اگر امریکا جمہوریت پسند ہے اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے تو پھر کشمیریوں کی آزادی کے لیے وہ بھارت پر حملہ کیوں نہیں کرتا۔

دوسری جانب مسئلہ کشمیر کے تنازع میں پاکستانی عوام پاکستان کے آزاد خیال لیڈروں پر بھی تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بہ قول ان کے یہ آزاد خیال لیڈر صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، دولت کمانا ان کی اولین ترجیح میں شامل ہو چکا ہے، اِن کو پاکستان کی عوام اور پاکستان کی بقاء سے کوئی دل چسپی نہیں اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل سے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ کتنا مخلص ہے یہ سوال بھی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں ہر وقت موجود رہتا ہے، عوام کی غالب اکثریت یہ جانتی ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کسی بھی حوالے سے کبھی اہمیت نہیں دی۔ غالب اکثریت یہ بھی جانتی ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور جب تک یہ شہ رگ بھارت کے ہاتھ میں ہے کوئی پاکستانی حکومت بھارت سے پائیدار تعلقات استوار نہیں کر سکے گی۔

بعض کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر دونوں ممالک کے حکم رانوں کو اپنی اپنی عوام سے اتنی ہی دل چسپی ہے تو وہ پہلے بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کو حل کیوں نہیں کر لیتے۔ برصغیر پاک و ہند کے لوگ آج نئی صدی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن اب تک وہ صدیوں پرانے اِس تنازعے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اِس ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن کیا یہ وجوہات ہمیشہ اِس خطے کا مقدر بنی رہیں گی۔ یوم یک جہتی کشمیر کے دن پاکستان کے راہنمائوں کو چاہیے کہ وہ دھواں دار تقریریں کرنے اور بیان دینے سے گریز کریں اور مل کر یہ عہد کریں کہ وہ آنے والے دنوں میں امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتوں کو اس بات پر راضی کریں گے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے ا پنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ جنوبی ایشیائی خطے سمیت عالمی امن کی ضمانت کو ممکن بنایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں