کرن کوئی آرزو کی لاؤ پہلا حصہ
اگر آپ جانتے ہی نہ ہوں کہ آپ کے آس پاس کیا ہورہا ہے تو آپ کو اس کے مضمرات اور خطرات کا علم کیسے ہوسکتا ہے۔
قدیم عبرانی زبان میں حرف چار نہیں ہوتے تھے چنانچہ فیکٹ (Fact) اور فکشن (Fict) یعنی حقیقت اور افسانے کی ایک ہی ہجے ہوتی تھی(Fct) اور پڑھنے کے دوران نفس مضمون کے اعتبار سے تلفظ ادا کیا جاتا تھا۔ یہ زبان قبل مسیح کے زمانوں میں مصر، شام، عراق (بشمول بابل) اور فلسطین کے کچھ علاقوں میںادب اور بول چال کی زبان تھی۔ صدیاں گزر گئیں اور قدیم عبرانی زبان چاہ بابل کی طرح داستان پارینہ بن گئی۔ مگر ہم پاکستانی فیکٹ اور فکشن کو انتہائی تن دہی اور خوش اسلوبی سے آپس میں خلط ملط بلکہ بقول حکیم محمد سعید کے باہم آمیختہ کیے ہوئے ہیں۔
یہ آمیختہ کا بھی قصد عجیب ہے کہ ہم تعلیم کی مشقت سے فارغ ہوتے ہی ابھی سرکاری ملازمت کی وحشت میں گرفتار ہی ہوئے تھے کہ ریڈیو یا ٹی وی کے کسی پروگرام کے سلسلے میں حکیم محمد سعید سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پروگرام کی جزئیات پر سیر حاصل سے کچھ زیادہ گفتگو کے بعد جناب نے ازراہ شفقت یہ تشخیص فرمایا کہ اگر ہم نے دانشمندی، احتیاط اور ضبط سے کام نہ لیا تو عین ممکن ہے کہ ہم چالیس سال بعد خفقان اور خلجان میں مبتلا ہوجائیں۔ ایسی نامانوس بیماریوں کا نام سن کر ہمارا بد حواس ہوجانا اور حکیم صاحب کا ہماری بدحواسی کو بھانپ جانا قدرتی امر تھا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے مزید شفقت فرماتے ہوئے یہ نسخہ تجویز فرمایا کہ اگر ہم ایک تولہ خمیرہ گاؤ زبان اور سفوف بادیان بقدر چھ ماشہ باہم آمیختہ کرکے نہایت کرارے سانچی پان میں لپیٹ کر دن میں کئی بار کھالیا کریں تو ایسے موذی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی ٹل جائے گا اور خوف بھی زائل ہوجائے گا۔ چنانچہ ہم نے صدق دل سے اس نسخے کا باقاعدہ استعمال شروع کردیا۔
امراض مذکورہ کے حملہ آور نہ ہونے کی کوئی بشارت تو ہمیں موصول نہ ہوئی مگر جلد ہی ہمیں بکثرت میٹھا پان کھانے کی عادت پڑگئی جو بعدازاں ذیابیطس کے مرض میں اچانک مبتلا ہونے کے خوف سے چھوڑنی پڑی۔ ہمیں من حیث القوم فیکٹ اور فکشن کو خط ملط کرنے کی عادت بھی پڑگئی ہے اور اسی عادت کے ردعمل کے طور پر ہم خفقان اور خلجان کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کیفیت میں مستقل مبتلا رہتے ہیں۔ ہمیں اس عادت سے اب مفر بھی نہیں رہا کیونکہ عادتوں کی زنجیریں اتنی ہلکی ہوتی ہیں کہ ان کا احساس ہی نہیں ہوتا تا وقتیکہ وہ اتنی وزنی اور مضبوط نہ ہوجائیں کہ ٹوٹ ہی نہ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک بدترین تخریب کاری، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا شکار ہیں، ہمارے عوام اور ہمارے سیکیورٹی کے ادارے ہمہ وقت اس کے نشانے اور زد پر ہیں۔
افسانہ یہ ہے کہ اس کی ہزار تاویلیں، ہزار تشریحیں، ہزار محرکات، ہزار پیغامات، ہزار الزامات، نعرے، جلسے، جلوس اور ہر سانحے کے بعد ماتمی اجتماعات اور تعزیتی پیغامات اور بیانات اور پھر دوسرے سانحے تک کے لیے ایک درمیانی وقفہ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ خلجان اور خفقان کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس سنگین ترین قومی مسئلے پر کوئی متفقہ قابل عمل قومی پالیسی نہیں، کوئی اتفاق رائے نہیں۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم بس ''یومیہ'' بنیادوں پر زندگی گزار رہی ہے۔ کسی کو طالبان کہا جارہا ہے، کسی کو نرم گوشہ بردار، حکومت بسر و چشم شتر مرغ کے خواص کی علمبردار ہے اور جن کے پاس صرف ہتھوڑا ہے ان کو اگر ہر مسئلہ محض کیل ہی نظر آتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔
ہماری قومی زندگی کی دوسری بڑی حقیقت وہ موذی عارضہ ہے جسے عرف عام یا عمومی اصطلاح میں ''کرپشن'' کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح اپنے وسیع تر معنوں میں معاشرے کے تمام صاحبان اقتدار و اختیار کے طاقت کے بے جا استعمال کے علاوہ بددیانتی اور عیاری و فریب کاری کے ذریعے ناجائز فوائد کا حصول اور خواہشات کی تکمیل اور کسی بھی شکل میں رشوت کا بالجبر یا بہ رضا، خفیہ یا علی الاعلان حاصل کرنا شامل ہے۔ یہ حقیقت ملک میں داخل ہونے والے یا اس سے باہر جانے کے ہر دروازے سے شروع ہوکر ملک کے طول و عرض میں کہیں ماند نہیں پڑتی، ہر جگہ پھلتی پھولتی نظر آجاتی ہے۔ افسانہ یہ ہے کہ روز ہی اس کی المناک اور شرمناک کہانیاں سنائی جاتی ہیں، دکھائی جاتی ہیں، لکھی جاتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں اور چند دنوں میں افسانہ نیا رخ اختیار کرتا ہے اور متعلقہ افراد کی شرافت، نجابت، دیانت اور علمیت کی داستانیں چار سُو گردش کرنے لگتی ہیں۔ ان کی فہم و فراست کے ترانوں سے فضا گونج اٹھتی ہے۔ اس طرح ملک کے طول و عرض میں خفقان و خلجان کا روز ایک نیا اہتمام ہوجاتا ہے۔
عدالتیں سزائیں دیتی ہیں تو تفتیشی اور عملدرآمد کرنے والے ادارے اسے مزید نیا رخ دے کر تاویلوں اور حیلوں کا وہ طومار باندھتے ہیں کہ سڈنی شیلڈن اور ارونگ ویلس بھی پانی بھریں۔ دراصل حقیقت اور افسانہ ہماری قومی اور علمی زندگی میں اتنی مذموم سطح تک گر گئے ہیں کہ بقول رئیس امروہوی مرحوم ''اب کوئی خون بھی روئے تو ہنسی آتی ہے۔'' گزشتہ چند برسوں کے دوران اقتدار پر قابض حکمرانوں اور ان کے طرز حکمرانی نے دلوں سے دیانت داری اور سچائی کی امنگ ہی ختم کردی ہے۔ ویسے بھی ایمانداری اور سچائی وہ بیش اور پیش قیمت خوبیاں ہیں جو کمتر اور کم ظرف لوگوں میں نہ پیدا ہوتی ہیں اور نہ سماسکتی ہیں، اور نہ ٹھہر سکتی ہیں۔ اور حسن اتفاق سے ہم ایسے ہی لوگوں کو تواتر سے خود پر حکمرانی کے لیے منتخب کرتے رہے ہیں، اور وہ ویسے ہی افراد کو ہر ادارے، ہر محکمے اور ہر شعبے میں تعینات کرکے قوم پر مسلط کرتے رہے ہیں۔
اس طرح ایک نہایت سریع الاثر اور منظم طریقہ کار کے ذریعے انواع و اقسام کی منفی قدروں کا نفاذ پورے معاشرے میں اس قوت اور شدت سے کیا گیا ہے کہ عوام کی اکثریت کی اصل کیفیت ''پریشانی و بے سروسامانی'' کی مجسم تصویر بن کر رہ گئی ہے۔ جدید معاشی نظریات کے مطابق قیمت وہ ہے جو آپ ادا کرتے ہیں اور مالیت وہ ہے جو بدلے میں آپ حاصل کرتے ہیں، تو اس اصول کے مطابق یہ دیکھ اور سن کر دل کانپ اٹھتا ہے کہ ہماری مسائل سے مبہوت قوم صرف زندہ رہنے کی کتنی بڑی قیمت ادا کر رہی ہے۔ ادھر حکمران طبقے کا یہ حال ہے کہ نشہ اقتدارکے سرور اور ثمرات کی فراوانی کے درمیان انھیں اس کی خبر ہی نہیں کہ ان کے ہاتھوں ملک کا کیا حال ہورہا ہے اور ملک کے اندر اور اطراف و جنوب سے کیسی کیسی آندھیاں اور بجلیاں لپکنے اور کوندنے کے لیے بے تاب ہیں اور اصول تو یہی ہے کہ اگر آپ جانتے ہی نہ ہوں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور آپ کے آس پاس کیا ہورہا ہے تو آپ کو اس کے مضمرات اور خطرات کا علم کیسے ہوسکتا ہے۔
(جاری ہے)