بے حسی کا پانچواں موسم
جن ملکوں میں جمہوری نظام مضبوط ہوتا ہے وہاں بیرونی طاقتیں مداخلت کرنے سے گھبراتی ہیں۔
کراچی کے لوگ طویل عرصے سے خوف کی کیفیت میں مبتلا ہیں، ایک بار پھر کسی ممکنہ خطرے کے پیش نظر ذہنی طور پر منتشر نظر آتے ہیں، دیکھا جائے تو گزشتہ سال پرتشدد واقعات میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سال رواں جنوری کے مہینے میں 200 لوگ موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں، جب ہر طرف افراتفری کا سماں دکھائی دے تو آپ بھی اپنی ذات سے کوسوں دور نکل آتے ہیں، ایک سرد اور کہر آلود موسم مستقل آپ کے دل و دماغ میں بسیرا کر لیتا ہے، لگتا ہے لوگوں نے چار موسم دیکھے ہی نہیں، جو فقط ایک ہی موسم میں جی رہے ہیں، جو بے حسی کا پانچواں موسم ہے۔ کبھی لگتا ہے کوئی عفریت آگیا ہو، ایک دم راستے ویران ہوجاتے ہیں، امید دھواں بن کر فضاؤں میں تحلیل ہوجاتی ہے، ماحول میں خوف کی تاریکی بکھر جاتی ہے، خوف وقت کو منجمد کردیتا ہے، محض فریب بن کے رہ جاتا ہے، خوف کے سائے تلے پلنے والی قومیں یا تو بہت کھوکھلی رہ جاتی ہیں (جیسے ہم سطحی ہوتے جارہے ہیں) یا پھر وہ خوف کو اپنی طاقت بناکر دنیا فتح کرنے نکل کھڑی ہوتی ہیں، یہ خوف کئی سالوں سے ہمارے ذہنوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
ہمارا ملک دن بدن افریقہ کے معدنی وسائل سے مالامال ملک کانگو کی طرح بنتا جارہا ہے، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو نے 1960 میں بلجیم سے آزادی حاصل کی تھی اور آزادی حاصل کرنے کے بعد آج تک مسلسل قتل و غارتگری اور انتشار کا شکار رہا ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد جمہوری عمل کے تحت وزیر اعظم منتخب ہونیوالے لیڈر پیٹرک لوممبا کو مغربی حکومت نے قتل کرنے کے بعد وہاں پر ڈکٹیٹرشپ مسلط کردی، کانگو کی یہ تاریخ اس ملک میں بھی دہرائی گئی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو جیسے شعلہ بیاں مقرر اور عوام کے معیار زندگی کی بہتری کے خواب دیکھنے والے لیڈر کو ضیاء الحق نے تختہ دار پر پہنچا کے دم لیا اور اس ملک کے عوام کی قسمت کو آمریت کی تاریکی سے ڈھانپ دیا اور آج تک کانگو کے معدنی وسائل پر قبضہ آور بیرونی طاقتیں پاکستان کو بھی اپنی سازشوں سے سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر منتشر کرتی رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا پودا کم تعلیم یافتہ ملکوں میں پنپ نہیں سکتا اور اگر نامساعد حالات میں وہ پودا زمین کی حدود سے نکل کر آسمان کی وسعتوں کو چھونے کے خواب دیکھنے لگتا ہے تو آمریت کے ظالم ہاتھ اسے جڑ سے اکھاڑ کے پھینک دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انگریزی کا نقاد کارلائل ڈیمو کریسی کو ڈیول کریسی کہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ''عوام کے منتخب شدہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان چھوٹے لوگوں کے مسائل سے بے خبر ہوتے ہیں۔'' اس لیے ناخواندگی کے شکار ملکوں میں عوام اور ان کے منتخب نمایندوں میں واضح فاصلہ پایا جاتا ہے جو عوامی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
گزشتہ 10سالوں سے کانگو پر آمر جوزف کے زرد مہیب سائے منڈلا رہے ہیںاور اس نے 2011 میں انتخاب کروا کے اپنی حکومت کے مزید 5سال مستحکم کرلیے ہیں۔ جیسا کہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں ہوا مگر ہم کانگو سے کچھ زیادہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ہمارا ملک معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے ساتھ ذہین اور زرخیز رہنماؤں کا خطہ بھی کہلاتا ہے۔ چاہے انھیں عقل ودانشمندی کی سزا کے طور پر تختہ دار پر لٹکایا گیا یا گولیوں سے ان کے سینوں کو چھلنی کردیا گیا مگر انھوں نے جو بیج اپنے لہو میں تر کرکے اس زمین میں بویا ہے، وہ فصل بہار کا متلاشی رہا ہے۔ گوکہ فصل کاٹنے کے دن آمریت کے حصے میں آئے اور اس جلی ہوئی زمین کی راکھ جمہوریت نے صاف کی اور اس زمین کو دوبارہ کاشت کے قابل بنایا۔ ہم امریکا کی سرزمین پر جنگلی پودے کی مانند پھلنے پھولنے والے ملک کانگو سے کہیں زیادہ خوش بخت ہیں کہ غیر جمہوری رویوں کے باوجود جمہوریت کے 5سال پورے کرنے جارہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو کانگو میں گزشتہ 5دہائیوں میں ہونے والی خانہ جنگی میں تقریباً 50 لاکھ مقامی لوگ مارے جاچکے ہیں اور ہم ان کی طرح ستر کی دہائی سے شروع ہونے والی سیاسی کشمکش میں انگنت قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں۔ کوئی زمانہ تھا کہ سب مل جل کے ساتھ رہتے تھے، مل کے دکھ سکھ بانٹتے تھے، اس یکجہتی میں ایک سرور تھا، آئینہ اور عکس یکجا تھے، پھر اچانک پانچویں موسم کی بے حسی در آئی، محبت کی مٹھاس کہیں کھوگئی، زندگی کے حلق میں زہر جیسی کڑواہٹ بھر گئی، وجود کے اندر خلاء گہرا ہونے لگا، اجنبیت نے تن میں تشنگی بھر دی، روح اپنی ہی پیاس کے بھنور میں ڈوبنے لگی، محبتیں نظریوں کی بھینٹ چڑھ گئیں تو اتفاق بھی قصہ پارینہ ہوا، ہم مرکزیت سے انتشار کی طرف چلے گئے، انتشار یقین کی طاقت چھین لیتا ہے، پھر انسان رنگ، نسل، جنس و مذہب کے خانوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔
ملک میں امن وامان کی صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جارہی ہے خاص طور پر کراچی کے حالات سماجی و سیاسی حلقوں میں تشویش کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2012 کے دوران کراچی میں 3105 بے گناہ شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں جن میں عام شہری، عورتیں، بچے، سکیورٹی اہلکار، سیاسی و مذہبی کارکن شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روشنیوں کے شہر کراچی میں سرد خانوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے، جن میں تقریباً 50 کے لگ بھگ لاشیں روز لائی جاتی ہیں، دہشت گردی کی یہ بڑھتی ہوئی لہر ملک کو معاشی بحران کی طرف لے کر جا رہی ہے، تعلیمی اداروں کی سرگرمیاں بھی اکثر ان حالات کی وجہ سے معطل ہوجاتی ہیں، حقیقت میں تعلیم یافتہ معاشروں میں جمہوریت کے لیے فضا زیادہ ہموار رہتی ہے جب کہ ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ تقریباً 75 فیصد بچے دسویں جماعت تک رسائی حاصل ہونے سے قبل اسکول کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں 62 فیصد اور بلوچستان میں 78 فیصد 3 سے 5 سال کی عمر کے بچے اسکول نہیں بھیجے جاتے۔
دیکھا جائے تو ان تمام مسائل کا حل مستحکم جمہوریت میں پوشیدہ ہے، کیونکہ جن ملکوں میں جمہوری نظام مضبوط ہوتا ہے وہاں بیرونی طاقتیں مداخلت کرنے سے گھبراتی ہیں۔
دہشت گردی کے ستائے ہوئے لوگ شدت سے چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر ربط باہمی کا حسن زندگی کے سناٹے کا جمود تاڑدے اور وقت کے چہرے سے نفرتوں کے داغ دھل جائیں، وقت کی گود میں گمشدہ موسم پلٹ آئیں، پودوں کی جڑوں میں پناہ لینے والی سہمی تتلیاں دوبارہ فضاؤں میں رنگ بکھیر دیں، سناٹا، پر امید آوازوں کے ہجوم میں کھوجائے، لوگ سوچ کی حبس زدہ گلیوںسے باہر نکل کر آسمان کی وسعتوں سے ہم خیال ہوجائیں۔ تفریق کو ہمیشہ کے لیے بھول جائیں، ڈوبتے ذہنوں کو سوچ کا روشن زاویہ چاہیے، بے حسی کے اس پانچویں موسم سے باہر یقین و محبتوں کی ایک خوبصورت کائنات منتظر ہے۔