20 لاکھ امریکی ڈالر
وہ آپ نے سُنا ہو گا کہ انسان بچپن میں جو باتیں سیکھ لیتا ہے وہ کبھی نہیں بھولتا
طاقت اور دولت جتنی ننگی ہو اُس سے ہاتھ ملانے کا اپنا مزا ہوتا ہے ۔ اور جب آپ طاقت کے نشے میں دھت ہوں تو پھر آپ پوری دنیا کو ننگا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ ایک بار پھر ہماری غیرت جاگ گئی ہے ۔ اور ہم ایک کتاب کے چند ننگے لفظوں سے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کسی نے ہمیں آئینہ دکھا دیا ہے ۔ لیکن سوچیں جب بے لباسی کے اربوں ڈالر رقص کر رہے ہوں اور آپ کو یہ گمان ہو کہ آپ دنیا کی ننگی طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر کون سا قانون اور کون سی کتاب آپ کو تاریخ رقم کرنے سے روک سکتی ہے ۔ ہماری تاریخ میں ایک ریمنڈ ڈیوس ہی نہیں بلکہ ہزاروں امریکا کے دوست اور دشمن شامل ہیں جنھیں نواز کر ہم نے اپنی غیرت کی بے مثال کہانی تحریر کی ہے ۔ شاید ڈیوس نے کتاب لکھ دی ہے ۔ ہمیں آئینہ دکھا دیا ہے تو ہم ہاتھوں میں پتھر لے کر اپنے چہرے کو سرخ کرنے دوڑ پڑے ہیں۔
یوں تو ناجانے ایسے کتنے ڈیوس ہیں جنھیں دولت اور طاقت نے ہماری پہلے سے بند آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر امریکا کے حوالے کیا ۔ مگر اس سے فرق کیا پڑتا ہے ۔ چند نقاد سوشل میڈیا پر ''ٹرینڈ'' بنا کر رکھیں گے ۔ کچھ TV کے ٹاک شوز ہونگے ۔ ہم جیسے کچھ کالے لوگ اپنے چہرے کی سیاہی سے اخبار کے صفحے کالے کرینگے ۔ چند جذباتی نعرے ہونگے ۔ سیاست کے پہلو میں تھوڑا سا شور مچے گا ۔ سب کسی نہ کسی کا دامن تھام کر اپنے جھنڈے کو اونچا کرینگے ۔ تحریک انصاف والے نواز شریف اور زرداری کو ہر گناہ کا ذمے دار کہیں گے ۔ کچھ لبرل ، سرخے وغیرہ اسٹیبلشمنٹ پر موم بتی جلائیں گے ۔ کچھ لوگ اپنی پاک دامنی کو ثابت کریں گے ۔کچھ لوگ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ، کچھ ایبٹ آباد رپورٹ اور کچھ قرارداد مقاصد سے کہانی کا آغاز کرینگے ۔ اور پھر ایک اور دھماکہ ہو جائیگا ۔ بعد میں ایک اور نئی کہانی ہو گی ۔ آج کا نیا ٹرینڈ ہو گا۔ پھر نئی غیرت جاگے گی ۔ بہر حال یہاں ہر روز ایک نئی غیرت جاگتی ہے یا جگائی جاتی ہے ۔ وہی گھسے پٹے جملے اور وہی وقت کا قتل۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ بلکہ میرے پاس وہ اشتہار بھی موجود ہے ۔ جب پاکستان کے سب بڑے اخباروں میں ایک اشتہار چھپا تھا ۔ جس میں چھاپنے والے کا نام بھی موجود نہیں تھا ۔ بس سب سے اوپر لکھا ہوا تھا ۔ انعام 20 لاکھ امریکی ڈالر ۔ نیچے ایک طرف عامل کانسی کی تصویر تھی اور دوسری طرف لکھا ہوا تھا ایسی اطلاع فراہم کرنے والے کو دیا جائے گا جس کی بنیاد پر ، 1993 میں امریکا میں ایک ظالمانہ حملے میں دو افراد کو ہلاک اور تین دیگر افراد کو شدید زخمی کرنے کے ملزم عامل کانسی کو گرفتار کر کے سزا دلائی جا سکے ۔ نیچے لکھا تھا باور کیا جاتا ہے کہ عامل کانسی پاکستان میں مقیم ہے ۔ خصوصی پیشکش یہ تھی کہ انعام کے علاوہ فراہم کرنے والے کو بشرط ضرورت ، امریکا منتقل ہو جانے کی پیشکش بھی کی جاسکتی ہے ۔ اشتہار کے نیچے ٹیلی فون نمبر دیے گئے تھے۔
یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا ۔ اور میری صحافت کا ابتدائی دور ۔ انٹرنیٹ کی فراہمی تھی نہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ آج کے بچوں کی نظروں میں ہم دور ِ جہالت میں رہتے تھے ۔ اس لیے اپنے استاد کے حکم کے مطابق تمام اہم خبروں کی کٹنگ یا اس طرح کے اشتہار ہم سنبھال کر رکھ لیا کرتے تھے ۔ میں کیوں کہ ابھی صحافت میں نووارد تھا تو اپنے استاد سے پوچھا کہ ''باس ، اس نے امریکا میں لوگوں کو مارا ہے لیکن ہمارے ٹیلی فون ایکسچینج کے نمبر کیسے چھپ گئے ؟اور اس میں کال کریں تو کوئی گوری اٹھائے گی یا پھر کوئی پاکستانی ــ''۔کیونکہ غیرت جاگ گئی تھی کہ پاکستان کے ٹیلی فون ایکسچینج کے نمبروں پر کوئی خوبصورت گوری کیسے بیٹھ کر ہماری کال سُن سکتی ہے ۔ ہمارے صحافت کے استاد نے کہا جاؤ اور پہلے یوسف رمزی کا کیس پڑھ لو ۔ پھر کہانی کا اینڈ مجھ سے پوچھنا۔
اس وقت ''گوگل '' تھا نہیں ورنہ لمحے میں بتا دیتے کہ یوسف رمزی کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ کتابیں اور اخبار کے پرانے تراشے ڈھونڈھنا شروع کر دیے ۔ ابتدائی معلومات ہمارے حکمرانوں اور امریکیوں کی ایک جیسی تھی کہ یوسف رمزی نے 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں حملہ کر کے دو افراد کو ہلاک کیا تھا ۔ لیکن دوسری بات پر میری غیرت مند سوئی اٹک گئی ۔ 7 فروری 1995 کو یوسف رمزی کو گرفتار کیا گیا۔
کراچی میں اُس وقت سوئی بھی گر جاتی تو ہمارے حکام کو خبر ہوتی ۔ لیکن اس آپریشن پر ان کو بھی چپ لگ گئی تھی ۔ جب امریکی میڈیا نے اس پر شور مچایا تو دو دن بعد ہماری حمیت جاگ اٹھی اور 9 فروری کو وزارت خارجہ نے ایک پریس کانفرنس کی ۔ جس میں پہلی بات انھوں نے یہ کہی کہ امریکا کو مطلوب عراقی باشندہ یوسف رمزی پاکستان سے گرفتار کر کے فورا امریکا بھیج دیا گیا ہے ۔ یہ ہی پہلی بات میرے لیے دوسری تھی جس نے میری غیرت جگائی ۔ سارے امریکی اخبار یہ کہہ رہے تھے کہ یوسف رمزی کا اصل نام عبدالباسط ولد عبدالکریم ہے ۔ اور ان کے والدین پاکستانی ہیں ۔ یوسف بھی پاکستانی ہے لیکن اس کی پیدائش کویت میں ہوئی ہے ۔ ابھی تو میں صحافت میں بچہ تھا سمجھ ہی نہیں پایا کہ جب ہم نے پکڑ کر دے ہی دیا ہے تو آخر ہم کیوں نہیں مان رہے کہ وہ پاکستانی ہے ۔ یا پھر یہ بے وقوف امریکن کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ عراقی نہیں ہے۔
یوسف رمزی کو پکڑنے کے لیے آپریشن کیا گیا۔ رمزی کی مخبری اُسی کے خاص آدمی اشتیاق پارکر نے کی تھی جسے 20 لاکھ امریکی ڈالر بھی ملے اور امریکا میں گھر بھی مل گیا ۔ یہ سب پڑھ کر میں عامل کانسی کے اشتہار کا نتیجہ تو سمجھ گیا تھا ۔ پہلی بات یہ کہ کوئی بھی پیسے لے کر مخبری کرے گا ۔ دوسرا یہ کہ ہمارے ملک میں ہمارے اداروں کا کتنا عمل دخل ہو گا ۔ اور کتنی دیر میں جہاز پاکستان کو چھوڑ کر ہماری غیرت کو ساتھ لے جائیگا۔
وہ آپ نے سُنا ہو گا کہ انسان بچپن میں جو باتیں سیکھ لیتا ہے وہ کبھی نہیں بھولتا۔ میں نے اپنی صحافت کی ابتدا میں ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان میں امریکی ڈالر کیسے آتے ہیں ، کیسے امریکا بہادر کی پسند کی چیز جاتی ہے ۔ اور ہماری حکومتیں اس میں کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ یا پھر کوئی ان سے پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس کرتا ہے یا نہیں ۔؟ ایسے میں ریمینڈ ڈیوس کی کتاب مجھ پر کون سے نئے انکشافات کر لے گی ۔ سب وہ ہی تو ہے ۔ نام اور کردار بدل کر ۔ پہلے ہی ہماری غیرت جاگی تھی لیکن یہ سوچ کر رک گئے تھے کہ ہو سکتا ہے پاکستان کے ٹیلی فون ایکسچینج میں گوری آواز سُننے کو مل جائے ۔ مگر اردو والا گوری کم اور انگریزی والا گوری زیادہ ہی نصیب ہوا۔
کام کی بات تو بھول ہی گیا اس غیرت کے چکر میں ۔ سنئے، یوسف رمزی کو گرفتار کرنے کے لیے جو دو اہم امریکی آگے آگے تھے ، آپ کو معلوم ہے وہ آج کل کہاں ہیں ۔ وہ مصر میں بھی حکومت کی تبدیلی کے وقت اہم جگہ پر تھا ، وہ عراق میں بھی رہا ہے اور آج کل ٹرمپ کے بھی ساتھ ہے ۔ پاکستان کے بارے میں اور یہاں کی غیرت کے بارے میں بھی خوب جانتا ہے ۔ دوسرے کا حال خود ڈھونڈھ لیں ۔ اس لیے اگر کوئی اور ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کو مار کر چلا جائے اور کتاب لکھ ڈالے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گئی۔ بس ایک اور کالم ہی لکھنا ہو گا ۔ لکھ دینگے۔
یوں تو ناجانے ایسے کتنے ڈیوس ہیں جنھیں دولت اور طاقت نے ہماری پہلے سے بند آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر امریکا کے حوالے کیا ۔ مگر اس سے فرق کیا پڑتا ہے ۔ چند نقاد سوشل میڈیا پر ''ٹرینڈ'' بنا کر رکھیں گے ۔ کچھ TV کے ٹاک شوز ہونگے ۔ ہم جیسے کچھ کالے لوگ اپنے چہرے کی سیاہی سے اخبار کے صفحے کالے کرینگے ۔ چند جذباتی نعرے ہونگے ۔ سیاست کے پہلو میں تھوڑا سا شور مچے گا ۔ سب کسی نہ کسی کا دامن تھام کر اپنے جھنڈے کو اونچا کرینگے ۔ تحریک انصاف والے نواز شریف اور زرداری کو ہر گناہ کا ذمے دار کہیں گے ۔ کچھ لبرل ، سرخے وغیرہ اسٹیبلشمنٹ پر موم بتی جلائیں گے ۔ کچھ لوگ اپنی پاک دامنی کو ثابت کریں گے ۔کچھ لوگ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ، کچھ ایبٹ آباد رپورٹ اور کچھ قرارداد مقاصد سے کہانی کا آغاز کرینگے ۔ اور پھر ایک اور دھماکہ ہو جائیگا ۔ بعد میں ایک اور نئی کہانی ہو گی ۔ آج کا نیا ٹرینڈ ہو گا۔ پھر نئی غیرت جاگے گی ۔ بہر حال یہاں ہر روز ایک نئی غیرت جاگتی ہے یا جگائی جاتی ہے ۔ وہی گھسے پٹے جملے اور وہی وقت کا قتل۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ بلکہ میرے پاس وہ اشتہار بھی موجود ہے ۔ جب پاکستان کے سب بڑے اخباروں میں ایک اشتہار چھپا تھا ۔ جس میں چھاپنے والے کا نام بھی موجود نہیں تھا ۔ بس سب سے اوپر لکھا ہوا تھا ۔ انعام 20 لاکھ امریکی ڈالر ۔ نیچے ایک طرف عامل کانسی کی تصویر تھی اور دوسری طرف لکھا ہوا تھا ایسی اطلاع فراہم کرنے والے کو دیا جائے گا جس کی بنیاد پر ، 1993 میں امریکا میں ایک ظالمانہ حملے میں دو افراد کو ہلاک اور تین دیگر افراد کو شدید زخمی کرنے کے ملزم عامل کانسی کو گرفتار کر کے سزا دلائی جا سکے ۔ نیچے لکھا تھا باور کیا جاتا ہے کہ عامل کانسی پاکستان میں مقیم ہے ۔ خصوصی پیشکش یہ تھی کہ انعام کے علاوہ فراہم کرنے والے کو بشرط ضرورت ، امریکا منتقل ہو جانے کی پیشکش بھی کی جاسکتی ہے ۔ اشتہار کے نیچے ٹیلی فون نمبر دیے گئے تھے۔
یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا ۔ اور میری صحافت کا ابتدائی دور ۔ انٹرنیٹ کی فراہمی تھی نہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ آج کے بچوں کی نظروں میں ہم دور ِ جہالت میں رہتے تھے ۔ اس لیے اپنے استاد کے حکم کے مطابق تمام اہم خبروں کی کٹنگ یا اس طرح کے اشتہار ہم سنبھال کر رکھ لیا کرتے تھے ۔ میں کیوں کہ ابھی صحافت میں نووارد تھا تو اپنے استاد سے پوچھا کہ ''باس ، اس نے امریکا میں لوگوں کو مارا ہے لیکن ہمارے ٹیلی فون ایکسچینج کے نمبر کیسے چھپ گئے ؟اور اس میں کال کریں تو کوئی گوری اٹھائے گی یا پھر کوئی پاکستانی ــ''۔کیونکہ غیرت جاگ گئی تھی کہ پاکستان کے ٹیلی فون ایکسچینج کے نمبروں پر کوئی خوبصورت گوری کیسے بیٹھ کر ہماری کال سُن سکتی ہے ۔ ہمارے صحافت کے استاد نے کہا جاؤ اور پہلے یوسف رمزی کا کیس پڑھ لو ۔ پھر کہانی کا اینڈ مجھ سے پوچھنا۔
اس وقت ''گوگل '' تھا نہیں ورنہ لمحے میں بتا دیتے کہ یوسف رمزی کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ کتابیں اور اخبار کے پرانے تراشے ڈھونڈھنا شروع کر دیے ۔ ابتدائی معلومات ہمارے حکمرانوں اور امریکیوں کی ایک جیسی تھی کہ یوسف رمزی نے 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں حملہ کر کے دو افراد کو ہلاک کیا تھا ۔ لیکن دوسری بات پر میری غیرت مند سوئی اٹک گئی ۔ 7 فروری 1995 کو یوسف رمزی کو گرفتار کیا گیا۔
کراچی میں اُس وقت سوئی بھی گر جاتی تو ہمارے حکام کو خبر ہوتی ۔ لیکن اس آپریشن پر ان کو بھی چپ لگ گئی تھی ۔ جب امریکی میڈیا نے اس پر شور مچایا تو دو دن بعد ہماری حمیت جاگ اٹھی اور 9 فروری کو وزارت خارجہ نے ایک پریس کانفرنس کی ۔ جس میں پہلی بات انھوں نے یہ کہی کہ امریکا کو مطلوب عراقی باشندہ یوسف رمزی پاکستان سے گرفتار کر کے فورا امریکا بھیج دیا گیا ہے ۔ یہ ہی پہلی بات میرے لیے دوسری تھی جس نے میری غیرت جگائی ۔ سارے امریکی اخبار یہ کہہ رہے تھے کہ یوسف رمزی کا اصل نام عبدالباسط ولد عبدالکریم ہے ۔ اور ان کے والدین پاکستانی ہیں ۔ یوسف بھی پاکستانی ہے لیکن اس کی پیدائش کویت میں ہوئی ہے ۔ ابھی تو میں صحافت میں بچہ تھا سمجھ ہی نہیں پایا کہ جب ہم نے پکڑ کر دے ہی دیا ہے تو آخر ہم کیوں نہیں مان رہے کہ وہ پاکستانی ہے ۔ یا پھر یہ بے وقوف امریکن کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ عراقی نہیں ہے۔
یوسف رمزی کو پکڑنے کے لیے آپریشن کیا گیا۔ رمزی کی مخبری اُسی کے خاص آدمی اشتیاق پارکر نے کی تھی جسے 20 لاکھ امریکی ڈالر بھی ملے اور امریکا میں گھر بھی مل گیا ۔ یہ سب پڑھ کر میں عامل کانسی کے اشتہار کا نتیجہ تو سمجھ گیا تھا ۔ پہلی بات یہ کہ کوئی بھی پیسے لے کر مخبری کرے گا ۔ دوسرا یہ کہ ہمارے ملک میں ہمارے اداروں کا کتنا عمل دخل ہو گا ۔ اور کتنی دیر میں جہاز پاکستان کو چھوڑ کر ہماری غیرت کو ساتھ لے جائیگا۔
وہ آپ نے سُنا ہو گا کہ انسان بچپن میں جو باتیں سیکھ لیتا ہے وہ کبھی نہیں بھولتا۔ میں نے اپنی صحافت کی ابتدا میں ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان میں امریکی ڈالر کیسے آتے ہیں ، کیسے امریکا بہادر کی پسند کی چیز جاتی ہے ۔ اور ہماری حکومتیں اس میں کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ یا پھر کوئی ان سے پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس کرتا ہے یا نہیں ۔؟ ایسے میں ریمینڈ ڈیوس کی کتاب مجھ پر کون سے نئے انکشافات کر لے گی ۔ سب وہ ہی تو ہے ۔ نام اور کردار بدل کر ۔ پہلے ہی ہماری غیرت جاگی تھی لیکن یہ سوچ کر رک گئے تھے کہ ہو سکتا ہے پاکستان کے ٹیلی فون ایکسچینج میں گوری آواز سُننے کو مل جائے ۔ مگر اردو والا گوری کم اور انگریزی والا گوری زیادہ ہی نصیب ہوا۔
کام کی بات تو بھول ہی گیا اس غیرت کے چکر میں ۔ سنئے، یوسف رمزی کو گرفتار کرنے کے لیے جو دو اہم امریکی آگے آگے تھے ، آپ کو معلوم ہے وہ آج کل کہاں ہیں ۔ وہ مصر میں بھی حکومت کی تبدیلی کے وقت اہم جگہ پر تھا ، وہ عراق میں بھی رہا ہے اور آج کل ٹرمپ کے بھی ساتھ ہے ۔ پاکستان کے بارے میں اور یہاں کی غیرت کے بارے میں بھی خوب جانتا ہے ۔ دوسرے کا حال خود ڈھونڈھ لیں ۔ اس لیے اگر کوئی اور ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کو مار کر چلا جائے اور کتاب لکھ ڈالے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گئی۔ بس ایک اور کالم ہی لکھنا ہو گا ۔ لکھ دینگے۔