سرحدی علاقے میں افغانستان امریکا کی زیر نگرانی مشترکہ آپریشن پر رضا مند
پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں مشترکہ انسداد دہشتگردی آپریشنز کی تجویز سے متفق ہیں، افغان صدر، امریکی وفد سے گفتگو
لاہور:
افغانستان نے امریکا کی زیر نگرانی پاکستان کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی آپریشنز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق امریکی سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں امریکی سینیٹ کے وفد سے ملاقات کے دوران صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغانستان امریکا کی نگرانی میں پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحدی کارروائیوں کی تجویز سے متفق ہے۔
امریکی سینیٹرز کے وفد نے دورہ پاکستان کے دوران اعلیٰ قیادت سے ملاقاتوں کے بعد کابل پہنچنے پر افغان لیڈر شپ کے ساتھ ملاقات کی، اس دوران صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغانستان نے تجارتی اور ٹرانزٹ کے لنکس کو مختلف النوع بنا دیا ہے، اس لیے اب ہمارا پاکستان پر مزید انحصار نہیں رہا ہے۔
دریں اثنا افغان ٹی وی طلوع نیوز کے مطابق ملاقات کے دوران امریکی سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ پاکستان رویہ نہیں بدلتا تو ہو سکتا ہے امریکا کو رویہ تبدیل کرنا پڑے، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تعاون کی بات پاکستان پر واضح کر دی۔امید ہے پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تعاون کرے گا۔
کانگریس کے وفد نے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ افغانستان میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی کی ضرورت تھی، جنگ جیتنے کیلیے فورسز کو مزید اختیارات دیے جائیں۔
واضح رہے کہ امریکی وفد نے دورہ پاکستان میں وزیر اعظم نواز شریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں، جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا، وفد نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جبکہ پاک افغان بارڈر سیکیورٹی کی اہمیت پر بھی زور دیا تھا، امریکی وفد میں جان مکین، لنڈسے گراہم، شیلڈن وائٹ ہاس، الزبتھ وارن اور ڈیوڈ پرڈیو شامل تھے۔
افغانستان نے امریکا کی زیر نگرانی پاکستان کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی آپریشنز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق امریکی سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں امریکی سینیٹ کے وفد سے ملاقات کے دوران صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغانستان امریکا کی نگرانی میں پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحدی کارروائیوں کی تجویز سے متفق ہے۔
امریکی سینیٹرز کے وفد نے دورہ پاکستان کے دوران اعلیٰ قیادت سے ملاقاتوں کے بعد کابل پہنچنے پر افغان لیڈر شپ کے ساتھ ملاقات کی، اس دوران صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغانستان نے تجارتی اور ٹرانزٹ کے لنکس کو مختلف النوع بنا دیا ہے، اس لیے اب ہمارا پاکستان پر مزید انحصار نہیں رہا ہے۔
دریں اثنا افغان ٹی وی طلوع نیوز کے مطابق ملاقات کے دوران امریکی سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ پاکستان رویہ نہیں بدلتا تو ہو سکتا ہے امریکا کو رویہ تبدیل کرنا پڑے، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تعاون کی بات پاکستان پر واضح کر دی۔امید ہے پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تعاون کرے گا۔
کانگریس کے وفد نے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ افغانستان میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی کی ضرورت تھی، جنگ جیتنے کیلیے فورسز کو مزید اختیارات دیے جائیں۔
واضح رہے کہ امریکی وفد نے دورہ پاکستان میں وزیر اعظم نواز شریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں، جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا، وفد نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جبکہ پاک افغان بارڈر سیکیورٹی کی اہمیت پر بھی زور دیا تھا، امریکی وفد میں جان مکین، لنڈسے گراہم، شیلڈن وائٹ ہاس، الزبتھ وارن اور ڈیوڈ پرڈیو شامل تھے۔