مودی کے دورہ اسرائیل پر پاکستانی حلقوں میں تشویش
بھارت اپنے مفاد کی خاطر بیک وقت اسرائیل اور ایران سے تعلقات استوار کررہا ہے جو دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی گزشتہ روز اسرائیل کے تین روزہ دورے پر تل ابیب پہنچ گئے جہاں بن گوریئن ایئرپورٹ پر ان کا اس انداز سے استقبال کیا گیا جو اس سے پہلے صرف امریکی صدور ہی کےلیے مخصوص تھا۔
عالمی سیاسی و دفاعی مبصرین پہلے ہی اس دورے کو غیرمعمولی قرار دے رہے ہیں کیونکہ بھارت کی 70 سالہ تاریخ میں نریندر مودی وہ پہلے وزیراعظم ہیں جو اسرائیل کا دورہ کررہے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نریندر مودی اسرائیل کے تین روزہ دورے پر تل ابیب پہنچ گئے
مختلف ذرائع سے ملنے والی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ اس دورے میں بھارت اور اسرائیل کے مابین ایک ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے۔
اگرچہ پاکستان نے سرکاری طور پر نریندر مودی کے دورہ اسرائیل پر کوئی تبصرہ جاری نہیں کیا ہے لیکن پاکستانی دفاعی تجزیہ نگار اس معاملے کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ دورہ پورے برصغیر کےلیے بالعموم اور پاکستان کےلیے بالخصوص خطرناک صورتِ حال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کے مطابق سابق پاکستانی سفارت کاروں اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی اپنے اس دورے میں بھارت اسرائیل دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر خصوصی توجہ دیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں بھارت اس دورے کے ذریعے اسرائیل کو استعمال کرتے ہوئے جدید ترین امریکی دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ ماضی میں بھی وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات سے اسی طرح فائدہ اٹھاتا آیا ہے۔
جنرل شعیب کا مؤقف تھا کہ اگر بھارت اپنے مفاد کی خاطر بیک وقت اسرائیل اور ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرسکتا ہے جبکہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہیں، تو پاکستان کو بھی اپنے قومی مفادات سامنے رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِثانی کرنی چاہیے اور گنتی کے چند ملکوں کو خوش رکھنے والی سوچ سے باہر آنا چاہیے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں عالمی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت اور اسرائیل میں بڑھتے ہوئے عسکری تعلقات جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑ سکتے ہیں کیونکہ بھارت اپنے میزائل پروگرام کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے کےلیے اسرائیل سے ضرور مدد حاصل کرے گا جس سے دفاعی استعداد کو ایک خاص سطح تک رکھنے کی پاکستانی پالیسی شدید طور پر متاثر ہوگی۔
دریں اثنا بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تمام تر زمینی حقائق کو بالائے طاق رکھ دیا۔ بھارتی نیوز چینلز پر تجزیہ کاروں اور اینکرز نے بار بار یہ بات دوہرائی کہ اسرائیل اور بھارت کو دہشت گردی کے حوالے سے یکساں حالات کا سامنا ہے اور یہ کہ دونوں ممالک کو دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے یکساں حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ اس ضمن میں ان دونوں کا مشترکہ دشمن پاکستان ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: اسرائیل کا پاکستان کے خلاف بھارت کی ہرممکن مدد کرنے کا اعلان
اگرچہ اسرائیلی حکام نے یہ واضح کیا ہے کہ نریندر مودی کے دورہ اسرائیل میں ایجنڈے کے مرکزی نکات میں دہشت گردی اور عسکری امور شامل نہیں ہوں گے لیکن عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس دورے میں بھارت اور اسرائیل کے مابین یقینی طور پر کچھ نہ کچھ خفیہ معاہدے ضرور طے پائیں گے جو بیان کردہ ایجنڈے سے بالکل ہٹ کر بھی ہوسکتے ہیں۔
عالمی سیاسی و دفاعی مبصرین پہلے ہی اس دورے کو غیرمعمولی قرار دے رہے ہیں کیونکہ بھارت کی 70 سالہ تاریخ میں نریندر مودی وہ پہلے وزیراعظم ہیں جو اسرائیل کا دورہ کررہے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: نریندر مودی اسرائیل کے تین روزہ دورے پر تل ابیب پہنچ گئے
مختلف ذرائع سے ملنے والی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ اس دورے میں بھارت اور اسرائیل کے مابین ایک ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے۔
اگرچہ پاکستان نے سرکاری طور پر نریندر مودی کے دورہ اسرائیل پر کوئی تبصرہ جاری نہیں کیا ہے لیکن پاکستانی دفاعی تجزیہ نگار اس معاملے کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ دورہ پورے برصغیر کےلیے بالعموم اور پاکستان کےلیے بالخصوص خطرناک صورتِ حال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کے مطابق سابق پاکستانی سفارت کاروں اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی اپنے اس دورے میں بھارت اسرائیل دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر خصوصی توجہ دیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں بھارت اس دورے کے ذریعے اسرائیل کو استعمال کرتے ہوئے جدید ترین امریکی دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ ماضی میں بھی وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات سے اسی طرح فائدہ اٹھاتا آیا ہے۔
جنرل شعیب کا مؤقف تھا کہ اگر بھارت اپنے مفاد کی خاطر بیک وقت اسرائیل اور ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرسکتا ہے جبکہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہیں، تو پاکستان کو بھی اپنے قومی مفادات سامنے رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِثانی کرنی چاہیے اور گنتی کے چند ملکوں کو خوش رکھنے والی سوچ سے باہر آنا چاہیے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں عالمی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت اور اسرائیل میں بڑھتے ہوئے عسکری تعلقات جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑ سکتے ہیں کیونکہ بھارت اپنے میزائل پروگرام کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے کےلیے اسرائیل سے ضرور مدد حاصل کرے گا جس سے دفاعی استعداد کو ایک خاص سطح تک رکھنے کی پاکستانی پالیسی شدید طور پر متاثر ہوگی۔
دریں اثنا بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تمام تر زمینی حقائق کو بالائے طاق رکھ دیا۔ بھارتی نیوز چینلز پر تجزیہ کاروں اور اینکرز نے بار بار یہ بات دوہرائی کہ اسرائیل اور بھارت کو دہشت گردی کے حوالے سے یکساں حالات کا سامنا ہے اور یہ کہ دونوں ممالک کو دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے یکساں حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ اس ضمن میں ان دونوں کا مشترکہ دشمن پاکستان ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: اسرائیل کا پاکستان کے خلاف بھارت کی ہرممکن مدد کرنے کا اعلان
اگرچہ اسرائیلی حکام نے یہ واضح کیا ہے کہ نریندر مودی کے دورہ اسرائیل میں ایجنڈے کے مرکزی نکات میں دہشت گردی اور عسکری امور شامل نہیں ہوں گے لیکن عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس دورے میں بھارت اور اسرائیل کے مابین یقینی طور پر کچھ نہ کچھ خفیہ معاہدے ضرور طے پائیں گے جو بیان کردہ ایجنڈے سے بالکل ہٹ کر بھی ہوسکتے ہیں۔