پولیس نے تحفظ دینے کے بجائے شوہر اور دیور کو اغوا کیا عزیزہ بی بی کی عدالت میں دہائی
اہل خانہ پسندکی شادی پرہراساں کررہےتھے،ملتان بینچ نےتحفظ کاحکم دیا،پولیس نےشوہراوردیورکوحوالات میں تشدد کانشانہ بنایا
عزیزہ بی بی نے فیروز خان سے پسند کی شادی کی تھی انکے اہل خانہ شادی سے ناخوش تھے اور انھیں پولیس کے ذریعے ہراساں کررہے تھے۔
عدالت عالیہ ملتان بینج نے ایس ایچ او تھانہ سہراب گوٹھ کو پسند کی شادی کرنیوالے جوڑے کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا،پولیس نے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے خاتون کے شوہر اور اسکے دیور کو غیرقانونی حبس بے جا میں رکھا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا، تفصیلات کے مطابق سہراب گوٹھ کی رہائشی عزیزہ بی بی نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی ایکٹ491کے تحت وکیل کے ذریعے حبس بے جا کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اسکے والدین اسکی شادی ایک بوڑھے شخص سے کرنا چاہتے تھے جو کہ اچھے کردار کا نہیں تھا۔
اس لیے اس نے24 فروری 2011 کو اپنی مرضی سے فیروز خان سے کورٹ میرج کرلی تھی جس پر اسکے قریبی رشتہ دار امان اﷲ ، عصمت اﷲ ، نجیب اﷲ اور دیگر اس کی جان کے دشمن ہوگئے تھے اور ہراساں کررہے تھے جس پر جان بچانے کے لیے شہر چھوڑنا پڑا اور لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں تحفظ سے متعلق درخواست دائر کی تھی عدالت عالیہ نے ایس ایچ او سہراب گوٹھ کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا پولیس افسر نے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے 29جنوری کو تھانہ سہراب گوٹھ کے انسپکٹر انار خان مذکورہ افراد کے ہمراہ اسکے گھر سے شوہر فیروز خان اور دیور دولت خان کو حراست میں لیکر حوالات میں بند کردیا اور رہائی کیلیے 70ہزار روپے طلب کیے۔
درخواست گزار نے متعدد بار تھانے سے رجوع کیا اور عدالت عالیہ کے احکامات بھی دیے لیکن پولیس نے رقم کا تقاضا جاری رکھا اس دوران مغویوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور رقم کی عدم ادائیگی پر قتل کی دھمکی بھی دی، درخواست میں شوہر اور دیور کی بازیابی کی استدعا کی تھی، سیشن جج ملیر نے عدالتی عملے کو حبس بے جا کی درخواست پر تھانہ سہراب گوٹھ پر چھاپہ اور مغویوں کی بازیابی کا حکم دیا تھا۔
عدالت عالیہ ملتان بینج نے ایس ایچ او تھانہ سہراب گوٹھ کو پسند کی شادی کرنیوالے جوڑے کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا،پولیس نے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے خاتون کے شوہر اور اسکے دیور کو غیرقانونی حبس بے جا میں رکھا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا، تفصیلات کے مطابق سہراب گوٹھ کی رہائشی عزیزہ بی بی نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی ایکٹ491کے تحت وکیل کے ذریعے حبس بے جا کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اسکے والدین اسکی شادی ایک بوڑھے شخص سے کرنا چاہتے تھے جو کہ اچھے کردار کا نہیں تھا۔
اس لیے اس نے24 فروری 2011 کو اپنی مرضی سے فیروز خان سے کورٹ میرج کرلی تھی جس پر اسکے قریبی رشتہ دار امان اﷲ ، عصمت اﷲ ، نجیب اﷲ اور دیگر اس کی جان کے دشمن ہوگئے تھے اور ہراساں کررہے تھے جس پر جان بچانے کے لیے شہر چھوڑنا پڑا اور لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں تحفظ سے متعلق درخواست دائر کی تھی عدالت عالیہ نے ایس ایچ او سہراب گوٹھ کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا پولیس افسر نے تحفظ فراہم کرنے کی بجائے 29جنوری کو تھانہ سہراب گوٹھ کے انسپکٹر انار خان مذکورہ افراد کے ہمراہ اسکے گھر سے شوہر فیروز خان اور دیور دولت خان کو حراست میں لیکر حوالات میں بند کردیا اور رہائی کیلیے 70ہزار روپے طلب کیے۔
درخواست گزار نے متعدد بار تھانے سے رجوع کیا اور عدالت عالیہ کے احکامات بھی دیے لیکن پولیس نے رقم کا تقاضا جاری رکھا اس دوران مغویوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور رقم کی عدم ادائیگی پر قتل کی دھمکی بھی دی، درخواست میں شوہر اور دیور کی بازیابی کی استدعا کی تھی، سیشن جج ملیر نے عدالتی عملے کو حبس بے جا کی درخواست پر تھانہ سہراب گوٹھ پر چھاپہ اور مغویوں کی بازیابی کا حکم دیا تھا۔