چند گھنٹے عشرت العباد کے ساتھ
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان انتہائی سادگی اور خلوص کے ساتھ بے تکلفانہ انداز میں ملتے ہیں
PESHAWAR:
قصد امریکا کا تھا۔ بیٹے کو چھٹی نہیں ملی ، تو سوچا کہ عید دبئی میں بیٹے کی فیملی کے ساتھ مناتے ہوئے آگے بڑھ جائیں۔ یوں جس روز وہاں پہنچے، 28 واں روزہ تھا ۔ بیشتر احباب عید کرنے وطن جاچکے تھے۔ صرف ڈاکٹر عشرت العباد خان کی فیملی کے ساتھ ملاقات رہی۔ جس میں لازمی طور پر سیاست پر گفتگو بھی ہوئی اور بہت سے امور آف دی ریکارڈ بھی قرار پائے۔ پرویز مشرف کے جس معاون کا نمبر میرے پاس تھا، اس سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ بریگیڈئیر اخترضامن کو SMSکیا، مگر ان کا جواب نہیں آیا، یوں جنرل (ر) پرویز مشرف سے ملاقات نہیں ہوسکی۔
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان انتہائی سادگی اور خلوص کے ساتھ بے تکلفانہ انداز میں ملتے ہیں، اس لیے ان کے ساتھ خاصی بے تکلفی کا تعلق ہے۔ بہت سے معاملات پر کھل کر گفتگو ہوجاتی ہے، جب کہ بیشتر معاملات کی خاصے محتاط رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین السطور میں نشاندہی کردیتے ہیں۔ موجودہ سیاسی منظرنامے کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ سیاسی حالات تیزی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں۔ خاص طور پر اداروں کے درمیان اور ان کے اندر ٹکراؤ کی جو کیفیت پیدا ہوئی ہے، اس کی وجہ سے سیاسی فضا خاصی کنفیوز ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز حکومت پر یہ کڑا وقت ہے۔ حالات ان کے حق میں جاتے نظر نہیں آرہے۔ ہوسکتا ہے کہ اندر پکنے والی کھچڑی سے انھیں کچھ فائدہ ہوجائے۔
سندھ کی سیاست کے بارے میں خاصے دلبرداشتہ نظر آئے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کے طرز حکمرانی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے سندھ میں تقطیب(Polarization)کا عمل مزید گہرا ہورہا ہے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی اگر سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرے ، تواس کے لیے اربن سندھ میں گنجائش پیدا کرنا مشکل نہیں ہے، مگر پیپلز پارٹی نہ جانے کیوں خود کو محدود کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس طرز عمل سے وہ کیا فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے، سمجھ سے باہر ہے۔
کراچی آپریشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے دور گورنری میں بہت سے معاملات اور نزاکتوں کی مسلسل نشاندہی کرتا رہا ہوں۔ میں بار بار ٹوکتا رہا تھا کہ جس انداز میں PSP بنائی جا رہی ہے، وہ فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان کا موجب بنے گی۔ وہ اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے، جن کے لیے آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ان چار برسوں کے دوران جو کچھ ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے۔ جتنے کرمنل عناصر پکڑے گئے تھے انھیں pap میں شامل کرا دیا گیا ۔ لہٰذا آج اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کی جو مسلسل خبریں آرہی ہیں، وہ ایک گلی کا کچرا دوسری گلی میں پھینکنے کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ہر میٹنگ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جن جماعتوں کے عسکری ونگز کے بارے میں سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع ہے، ان تمام جماعتوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ صرف ایک جماعت کو نشانہ بنانے سے آپریشن متنازع ہوجائے گا، مگر میرے مشوروں پر توجہ نہیں دی گئی۔
ہم نے انھیں یاد دلایا کہ 1992میں بھی اسی قسم کا تجربہ حقیقی بنا کرکیا گیا تھا، جو بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے منصوبہ سازوں میں اتنی بھی سوجھ بوجھ نہیں کہ وہ ناکام تجربات سے سبق سیکھ سکیں اور ایسے اقدامات کرنے سے گریز کریں، جو ماضی میں خفت اٹھانے کا باعث بن چکے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ آپریشن کی منصوبہ بندی کرتے وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اس مرتبہ چونکہ الطاف حسین لندن میں مقدمہ بھگت رہے ہیں، اس لیے انھیں سیاست سے باہر کرنا آسان ہوگا۔ ساتھ ہی یہ تصور بھی کرلیا گیا تھا کہ مصطفیٰ کمال نے چونکہ اپنی نظامت کے دور میں مقبولیت حاصل کی ہے،اس لیے ان کے ذریعے باآسانی اصل قیادت کو Replace کرایا جاسکتا ہے، حالانکہ یہ خام خیالی تھی۔ کیونکہ مصطفیٰ کمال صرف منظر عام پر تھے۔ اصل محنت ان کارکنوں کی تھی، جو اپنے قائد کے اشارے پران کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔اس لیے محض بلدیاتی کاموں کی بنیاد پر کوئی کارکن اپنے قائد کی جگہ کیسے لے سکتا ہے، اس پہلو پر غور نہیں کیا گیا۔
ہم نے انھیں بتایا کہ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ منصوبہ سازوں نے یہ کیوں سمجھ لیا کہ اربن سندھ کے شہری اس قیادت کو آنکھ بند کرکے قبول کرلیں گے، جسے وہ متعارف کرائیں گے۔ کیا یہ حلقے شہری سندھ کے عوام کو اتنا احمق سمجھتے ہیں کہ انگلی پکڑ کر جدھر چاہے موڑنا چاہیں گے، ادھر چل پڑیں گے۔ اس لیے اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ آج بھی منصوبہ سازوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود اصل قیادت وہی ہے، جس نے جماعت تشکیل دی ہے اور جو آج بھی اربن سندھ کے عوام کے دلوں میں بستی ہے۔
اس کے علاوہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وقت ضایع کرنے کے بجائے حکمران اپنی غلطیوں کاکھلے دل سے اعتراف کریں اور اس قیادت کے ساتھ گفت و شنید کریں، جواصل ہے۔ رہی بات نعروں کی، تو ایسی ایک ہزار مثالیں موجود ہیں، جب سیاسی رہنماؤں نے کھلے عام وطن مخالف تقاریر کیں اور نعرے لگائے۔ ایک رہنما نے تو بھارتی ٹینکوں پر سوار ہوکر واپس آنے کی بات تک کی تھی۔ مگر آج وہ اسٹبلشمنٹ کی نظر میں محب وطن ہیں۔ اس لیے ہمارے خیال میں ایسے مسائل نہ چھیڑے جائیں جن سے Son of soulاور غیرSon of soul کے امتیاز کا تاثر ابھرے۔
اس کے علاوہ ایسے جرائم پیشہ افراد جو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت میں شامل ہوں، ان کے خلاف کارروائی کرتے وقت اسٹبلشمنٹ کو تین باتوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اول، صرف ان کارکنان پر ہاتھ ڈالا جائے جن کے بارے میں واضح انٹیلی جنس رپورٹس ہوں۔ دوسرے تیسرے اور نچلے درجے کے ان رہنماؤں اورکارکنوں کو چھیڑنے سے گریز کیا جائے، جن پرکوئی الزام نہیں ہے۔ دوئم، پارٹی کی بحیثیت مجموعی کردار کشی اور میڈیا ٹرائل سے گریز کیا جائے، کیونکہ یہ عمل ریاستی آپریشن کو متنازع بنا دیتا ہے۔ سوئم، آپریشن کی غیر جانبدارانہ مانیٹرنگ کا بندوبست کیا جائے، تاکہ کسی بھی وقت دانستہ یا نادانستہ ہونے والی کسی زیادتی کا ازالہ کیا جا سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سندھ میں ہونے والے آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کا تعلق دیگر لسانی اکائیوں سے ہے،اس بارے میں شکایات بھی سامنے آئی ہیں ، مگر ان پر توجہ نہیں دی گئی۔
ڈاکٹر صاحب خاموشی کے ساتھ ہماری گفتگو سن رہے تھے۔ ان کے انداز سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ ہمارے نقطہ نظر سے متفق ضرور ہیں، مگر اپنی رائے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا رویہ درست تھا، کیونکہ ان کے سامنے طویل سیاسی مستقبل ہے، اس لیے ان کا محتاط رہنا ضروری ہے۔ ہمیں نہ کسی عہدے کی تمنا ہے اور نہ ہی حکمران اشرافیہ اور اسٹبلشمنٹ سے کسی نیکی یا ریوارڈ کی توقع۔ اس لیے ہم تاریخ اور سیاست کے ادنیٰ طالب علم کے طور پر جو بہتر سمجھتے ہیں، لکھتے اور کہتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ انشا اللہ آخری سانس تک جاری رکھیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ کراچی آپریشن کے بارے میں ہم روز اول سے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہمارے تحفظات مسلسل درست ثابت ہورہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے حکمرانوں کے لیے ہم جیسے ادنیٰ شہریوں کے مشوروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ 1971سے وہ ایک ہی غلطی مسلسل دہرا رہے ہیں ۔ سابقہ مشرقی پاکستان سے بلوچستان تک اور اب کراچی میں ہمارے منصوبہ سازوں کے غلط فیصلوں سے معاملات کس نہج پر پہنچے ہیں، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ رات کے دو بجنے کو آئے تھے، اس لیے ڈاکٹر صاحب اور ان کی اہلیہ سے اجازت چاہی اور واپس ابوظہبی کے لیے روانہ ہوگئے، کیونکہ گزشتہ روز امریکا کے لیے روانہ ہونا تھا۔