جو کچھ جس کی قسمت میں تھا
میں دنیا کی ایک کیفیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے
برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک سرتاپا دیہاتی لڑکا بغل میں پھٹی پرانی کتابوں کے چند ورق سنبھالے ہوئے راستے میں ادھر ادھر پھیلی ہوئی جھاڑیوں کو پھلانگتا ہوا ایک مسجد کی طرف جا رہا تھا جہاں اپنے وقت کے ایک عالم دین حضرت خدا بخش کا درس تھا اور اس درس میں دور دراز سے طلبہ حاضر ہوتے تھے۔ درس کیا تھا علم و فضل کا ایک آستانہ تھا جہاں جس کو زندگی میں ایک بار مل گیا اس کی دنیا اور عاقبت سنور گئی۔ سادگی کی ایک زندہ علامت جہاں کے درس دیہات کے اس خطے میں پھیلے ہوئے تھے جہاں اس زمانے میں مجلس احرار کا غلغلہ برپا تھا اور احراری علماء دور دور تک اس درس کی شہرت کو لے کر اپنی تقریریں سجاتے تھے اور علم کے پیاسوں کو کھینچ لاتے تھے۔
ایک نیم باغی جماعت مجلس احرار کے علماء اس درس کی شہرت پھیلا رہے تھے۔ تعلیم مفت تھی اور صرف تعلیم ہی نہیں کتابیں بھی اور کچھ لباس بھی جو جانے والے طلبہ اپنے ساتھیوں کے لیے چھوڑ جاتے تھے۔ اس طرح تعلیم کا یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ حضرت مولانا خدا بخش کے غریبانہ گھر سے اس مدرسے کے طلبہ کے لیے دو وقت کا کھانا بھی آ جایا کرتا تھا۔ دال روٹی میں اتنی برکت تھی کہ نہ جانے کہاں کہاں کے طلبہ پیٹ بھر کر کھاتے تھے اور جب کھانا ختم ہوتا اور طلبہ کے چہروں پر خوشی مچلتی دکھائی دیتی تھی تو حضرت مولانا اس وقت ہاتھ پھیلا دیتے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان پھیلے ہوئے ہاتھوں میں کئی برکات نازل ہوتیں کہ آج میں یاد کرتا ہوں کہ برکات کا کتنا بڑا خزانہ ان پھیلے ہوئے ہاتھوں میں اتر آیا کرتا تھا جس سے اہل علم کے لیے ہر سمت جگمگ پھیل جاتی اور یہ پہاڑی وادی خیر و برکت کا ایک مرقع بن جاتی۔ پہاڑوں کو یاد کرتا ہوں تو اپنے آپ پر فخر کرتا ہوں کہ میں کن بابرکت لوگوں کے قدموں میں سرنگوں رہا اور خیر و برکت سے اپنی دنیا و عاقبت بھرتا رہا۔ بہرکیف یہ کیفیت ہر ایک کے نصیب میں کہاں یہ قدرت کا ایک عطیہ ہے جو ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا بس جس کے نصیب میں ہو اسے مل جاتا ہے۔
میں دنیا کی ایک کیفیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے۔ زمانہ گزرا کہ میں نماز کے وقت مسجد کے ایک حجرے میں روپوش ہو گیا۔ میری یہ غیر حاضری ہمارے استادوں نے محسوس کی اور جس جگہ میں نماز چھوڑ کر چھپا بیٹھا تھا۔ ہمارے استاد محترم نے اس برآمدے میں جھانک کر کہا کہ ہکنا نوں رب بکلی للیا تے ہکنا رہ گئے وچ مسیت ( کچھ لوگوں کو تو ان کے رب نے آغوش میں لے لیا لیکن کچھ مسیت (مسجد) کے اندر ہی رہ گئے)۔ وقت کے استاد نے جس شکائتی انداز میں مجھ سے یہ کہا وہ زندگی بھر یاد رہے گا۔
اپنے مرحوم استاد کے کچھ فرمودات جو ان کی زبان مبارک سے بے ساختہ نکلے عمر بھر یاد رہیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زندگی کی ایک یاد بن کر زندہ رہیں، ایک ایسی یاد جو اتفاق سے نازل ہوتی ہے اور اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے۔ استاد محترم جن کا ذکر میں زندگی بھر کرتا رہوں گا، ان کی ایک بات مجھ تک پہنچی کہ ان کی وفات کے بعد ان کی قبر کو قبر ہی رہنے دیا جائے، اسے کسی مزار کا درجہ دے کر اس کی عبادت گاہ نہ بنایا جائے۔ ہمارے یہ دیہاتی استاد جو معرفت کا خزانہ تھے، اپنی معمولی سی آمدنی سے ہی درس و تدریس کا یہ سلسلہ چلاتے تھے اور اب جب میں یاد کرتا ہوں کہ وہ اپنے طلبہ کے لیے کسی ایسے صاحب حیثیت افراد کا انتظار کرتے جو ان کے کسی شاگرد کے دو کپڑے سلوا دیں اور جب ان کے یہ شاگرد پرانے کپڑے پہن لیتے تو وہ سیدھے سجدے میں گر جاتے کہ یہ سب خدا کی دین تھی کسی انسان کی نہیں اور اس احسان میں کسی انسان کی ضرورت تھی۔
حضرت خدا بخش زندگی بھر دال روٹی ہی کھاتے رہے اور اس دال روٹی پر زندہ رہے۔ وہ یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ کھانا دال روٹی سے بڑھ کر بھی ہوتا ہے ۔ ہمارے اس استاد کے بڑے بھائی سندھ کے کسی مقام پر تبلیغ کرتے اور نیکیوں کے پہاڑ لے کر گاؤں میں لوٹتے تھے جہاں گاؤں کے لوگ ہوتے تھے اور جو کچھ ان کے پاس جمع ہوتا وہ سب لٹا دیتے۔ اس وقت ان کے چہرے پر نور کا جو ہالہ پھیلا ہوا ہوتا وہ ان کا ہی نصیب تھا اور یہ کسی کسی کو نصیب ہوتا تھا۔ بہرکیف حیران کن نیکی کا یہ سلسلہ کسی کسی کی قسمت میں ہوا کرتا تھا۔ مزیدکچھ عرض کرنے کی ہمت نہیں اللہ تعالیٰ ان کو یہی نصیب کرے۔