دین و دنیا … ساتھ ساتھ

جاپان میں کاروبار کی وجہ سے عامر بن علی اور اس کے بھائیوں کا گھر جاپانیوں کا گھر کہلاتا ہے


Amjad Islam Amjad July 06, 2017
[email protected]

عزیزی عامر بن علی نے کوئی ایک ماہ قبل سے یکم جولائی کی شام میاں چنوں میں ایک مشاعرے کے لیے محفوظ کرا رکھی تھی مگر اب جو دعوت نامے میں شعراء کے ناموں کی فہرست دیکھی تو وہ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی حدود سے بھی آگے کی طرف رواں دواں تھی اور غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بیس کے لگ بھگ مقامی شاعر اس کے علاوہ تھے۔ معلوم ہوا کہ مشاعرہ عامرکے بڑے بھائی اور مقامی ایم پی اے رانا بابر حسین کی سرپرستی میں بلدیہ اور عامر بن علی کی ادارت میں شایع ہونے والے ماہنامہ ''ارژنگ'' کے تعاون سے پیش کیاجارہا ہے۔

برادرم ظفر اقبال صدر مشاعرہ تھے اور انور مسعود' عطا الحق قاسمی اور مجھے مہمانان خصوصی کا اعزاز دیا گیا تھا ، چھوٹے شہروں اور قصبوں میں چونکہ بڑے مشاعرے کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں ، اس لیے عام طور پر مختلف نوع کے دباؤ اور مقامی مصلحتوں کی وجہ سے شعرأ کی فہرست طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے جس کا منفی اثر مشاعرے کے معیار اور سامعین کی تعداد اور دلچسپی پر پڑتا ہے لیکن یہ مشاعرہ اس اعتبار سے مثالی اور غیر معمولی تھا کہ رات دس بجے سے لے کر صبح تقریباً چار بجے تک کھلے میدان میں گرمی کے باوجود دو ہزار کے قریب سامعین اپنی نشستوں پر جمے رہے جب کہ سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے کھڑے ہو کر سننے والوں کی تعداد بھی خاصی تھی، مسعود عثمانی اور میں شوکت فہمی کی کار میں اس کے ساتھ سفر کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے چار بجے سہ پہر میاںچنوں پہنچ گئے۔

اس تعجیل کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں کچھ وقت نزدیکی قصبے تلمبہ میں مولانا طارق جمیل کے ساتھ گذارنا تھا کہ اس کے لیے ایک دن قبل انھوں نے خاص طور پر نہ صرف فون کیا تھا بلکہ متعلقہ انتظامات بھی کر رکھے تھے سو برادر عزیز رانا بلال حسین اور ان کے دو دوست آنکھیں فرش راہ اور گاڑیاں اسٹارٹ کیے ہمارے منتظر تھے مولانا طارق جمیل سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات 2007ء میں حج کے دوران ہوئی تھی اس کے بعد وہ دو مرتبہ میرے غریب خانے پر بھی تشریف لائے لیکن گذشتہ تین چار برس میں ان سے رابطہ ان کے مختلف ٹی وی پروگراموں اور لیکچرز ہی کی معرفت چلا آ رہا تھا۔ کچھ عرصے سے ٹی وی پر قدرے کم مگر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ اور انتہائی خطرناک انداز میں فرقہ پرستی اور مسلکی اختلافات کو جو ہوا دی جا رہی ہے اس کے زیر اثر اب ہر دین کی بات کرنے والے کو دین سے پہلے اور کہیں زیادہ مسلک اور متعصبانہ فرقہ بندی کے حوالے سے دیکھا اور پسند یا ناپسند کیا جاتا ہے ذاتی طور پر تو میں اکبر الہ آبادی کے اس اعلان کے حق میں ہوں کہ

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

لیکن بدقسمتی سے ہمارے عمومی معاشرتی رویے اس ''فالتو عقل''کے متاثرین ہیں جس کی وجہ سے آپ کو بالخصوص سوشل میڈیا پر مختلف مسالک کے مولویوں' ذاکروں اور پیروں کے ایسے ایسے روپ دیکھنے کو ملتے ہیں جو بیک وقت افسوس ناک بھی ہیں اور شرمناک بھی۔ ایسے میں مولانا مودودی' ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کے بعد جن دو مذہبی اسکالرز کو جزوی اختلافات سے قطع نظر احترام اور توجہ کے ساتھ قبول عام کا شرف حاصل ہوا ہے وہ مولانا طارق جمیل اور جاوید احمد غامدی صاحب ہی ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا نام بھی اس فہرست میں آ سکتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات اس قدر تبدیل ہو گئی ہیں کہ اب وہ عالم دین کے طور پر کم اور سیاستدان کی حیثیت سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کے خاندان کا تلمبہ میں خاصا وسیع اور آبائی زمیندارہ ہے ان کے مدرسے سے ملحقہ خوبصورت مسجد میں عصر کی نماز کے بعد ہمیں ان کے کشادہ ڈیرے پر لے جایا گیا جس کے سامنے ہی ان کا رہائشی مکان ہے۔ یہاں ان سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی بہت دلچسپ خوشگوار اور معلومات اور ایمان افزا ملاقات رہی ایک نزدیکی کمرے میں پر تکلف چائے کا انتظام تھا جس کا انداز فرشی نشست کا تھا جہاں سے مغرب کی نماز کے لیے دوبارہ مسجد گئے اور اس وعدے کے ساتھ وہاںسے رخصت ہوئے کہ اب ملاقاتوں کے درمیان زیادہ وقفہ نہیں کیا جائے گا ذوق کا ایک شعر ہے

واجب القتل اس نے ٹھہرایا

آئتوں سے' روائتوں سے مجھے

مگر اس محفل کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ آئتوں اور روائتوں کے کثیر اور بے تکلف استعمال کے باوجود گفتگو کا موضوع' اور مقصد انسان دوستی' اختلاف رائے کی برداشت' خیر کی تلاش اور اپنی تہذیب کے حسن کی حفاظت اور اس کی خوشبو کو ہمہ وقت ساتھ رکھنے کے گرد ہی گھومتی رہی۔ مولانا طارق جمیل کی گفتگو کا انداز اس قدر مؤثر اور متاثرکن ہے کہ ان کے مسلک اور بیان کردہ روایات سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی جادو بیانی اور جذباتی فضا میں (وقتی طور پر ہی سہی) کھو سے جاتے ہیں مجھے غامدی صاحب کے حوالے سے ان کی یہ رائے سن کر بہت خوشی ہوئی کہ بات کرنے کا ڈھب اور دیکھنے والے کا انداز نظراپنی جگہ اصل بات یہ ہے کہ جس کی جو اور جتنی بات دل اور دماغ کو اچھی لگے اور قرآن و سنت کے مطابق ہو اسے لے لینا چاہیے یعنی زور اتفاق کے امور پر ہونا چاہیے نہ کہ اختلافی مباحث پر۔

جاپان میں کاروبار کی وجہ سے عامر بن علی اور اس کے بھائیوں کا گھر جاپانیوں کا گھر کہلاتا ہے اس کے وسیع سبزہ زار میں مہمانوں کے لیے ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا اور میزبان جس خلوص اور توجہ سے ہر مہمان کی خاطر داری کر رہے تھے وہ ایک بہت روح پرور منظر تھا کہ آج کل تو کھانے کی دعوتوں میں ویٹر اور بیرے تک سر سے بوجھ سا اتار نے کا تاثر دیتے ہیں، مشاعرہ گاہ میں بلدیہ کے عہدیدار اور شہر کے دیگر عمائدین ہاتھوں میں ہار لیے مشاعروں کے منتظر تھے، نظامت کے فرائض ڈاکٹر صغریٰ صدف اور وصی شاہ نے انجام دیے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ اسپین' فرانس' ناروے اور مسقط سے بھی شعرا نے شرکت کی جب کہ بھارت سے مدعو شاعر ویزے کے مسائل کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے۔ ایک اور بہت اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ مہمانوں کی تعداد اور احترام کو سامنے رکھتے ہوئے میزبان شعراء نے رضا کارانہ طور پر شاعروں کے بجائے سامعین کے طور پر شرکت کا اعلان کر دیا اور بہت خوشدلی سے آخر تک مشاعرے میں شریک رہے جس پر مہمان شعرا اور سامعین نے مل کر ان کا شکریہ ادا کیا اوریوں ہم 24 گھنٹوں کے اندر اندر دین اور دنیا دونوں کی خوشگوار فضا میں سانس لیتے ہوئے واپس اپنے اپنے گھر کو پہنچے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔