توہین عدالت ایک وزیراعظم کو سزا ہوئی دوسرے کو کیسے چھوڑ دیا جائے چیف جسٹس
اب کارروائی نہیں ہوسکتی، قانون تبدیل ہوچکا، وکیل وفاق، کوئی جج کو گالی دے توکیا جج اٹھ کر چلا جائے؟ عدالت
سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح کیا ہے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا پبلک آفس ہولڈر توہین عدالت سے مستثنیٰ ہوگا، ملکی سالمیت کے خلاف یا توہین عدالت پر مبنی رائے زنی کی آزادی نہیں، پارلیمنٹ قابل احترام ہے مگر سادہ اکثریت سے آئین تبدیل نہیں ہو سکتاجبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹرین توہین عدالت کرے تو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ، ٹرائل کیلیے کیس بھیجنے کے پابند ہیں، این آر او فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر ایک وزیراعظم کو سزا ہوئی تو دوسرے کو کیسے چھوڑدیا جائیگا؟
عدالتیں اصول پر کاربند رہنے اور آئین کی پابند ہیں ، ایک ہی نوعیت کے جرم میں دو افراد کے ساتھ الگ سلوک نہیں ہو سکتا، کوئی جج کو گالی دے تو کیا جج اٹھ کر چلا جائے؟ معاملہ کسی کو سزا دینے کا نہیں عدالتی وقار کا ہے۔ سوئس حکام کو خط لکھنے کا عدالتی فیصلہ حتمی ہے یہ خط لکھنا ہی ہوگا۔ بدھ کو توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو وفاق کے وکیل عبد الشکور پراچہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ پارلیمنٹ کو یہ قانون بنانے کا مکمل اختیار ہے، مقننہ پر قانون سازی سے متعلق بدنیتی کا الزام، عوام پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا کہ نئے قانون میں سزا دینے کیلیے عدلیہ کا اختیار کم نہیں کیا گیا بڑھایاگیاہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے حتی کہ وہ استثنیٰ سے متعلق بھی قانون سازی کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نئے قانون میں لکھاہے کہ مخصوص افرادعدالت میں جوچاہیں کریں ان پر توہین عدالت نہیں لگے گی، آرٹیکل 19کے تحت پارلیمنٹرینز کو اظہاررائے کی آزادی ہے مگر یہ مشروط ہے۔ وفاق کے وکیل نے کہا کہ آئین میں ارکان پارلیمنٹ کو ایوان میں کی گئی تقاریر پر استثنیٰ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹرین توہین عدالت کرے تو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ، ٹرائل کیلیے کیس بھیجنے کے پابند ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح کیا کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ پبلک آفس ہولڈر جو مرضی کرے وہ توہین عدالت سے مستثنیٰ ہو گا۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف یا توہین عدالت پر مبنی رائے زنی کی آزادی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نئے قانون سے تاثر یہ ملتا ہے کہ وزیراعظم توہین عدالت کرے تو استثنیٰ جبکہ کوئی عام آدمی اس کا مرتکب ہو تو اسے سزا دی جائے لیکن قانون جیسا بھی ہو عدالتی حکم پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ توہین عدالت کیخلاف 1976 اور 2012 کے قوانین کی کئی شقوں میں مماثلت ہے، صوبوں اور وفاق کا قانون سازی کا اپنا دائر کار ہے، آئین کے مطابق وفاق کے قانون کا صوبائی جوڈیشل کیڈر پر اطلاق نہیں ہوگا۔
وفاق کے وکیل نے کہاکہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اسے کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت بھی رہنمائی پارلیمنٹ سے لیتی ہے مگر پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے قوانین کی تشریح سپریم کورٹ کا کام ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر انگلیاں اٹھانا اور بدنیتی کا الزام لگانا دراصل عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون کے تحت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کو بھی تفصیل سے پڑھا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن اور رضا ربانی نے صحیح بات کہنے کی جرات کی اور نئے قانون کو خلاف آئین قرار دیا اس کے علاوہ کچھ ارکان پارلیمنٹ نے اس نئے قانون کے حق میں بھی تقاریر کی ہیں۔وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے موقف اختیار کیا کہ قانون میں معمولی امتیاز کیا جاسکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون میں کیسے امتیاز کیا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ این آر او فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر اگر ایک وزیراعظم کو سزا ہوئی تو دوسرے کو کیسے چھوڑدیا جائے گا؟
انھوںنے کہاکہ عدالتیں اصول پر کاربند رہنے اور آئین کی پابند ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ لیکن تشریح عدالت نے کرنی ہے، ایک ہی نوعیت کے جرم میں دو افراد کے ساتھ الگ سلوک نہیں ہو سکتا، یہ معاملہ کسی کو سزا دینے کا نہیں عدالتی وقار کا ہے، اگر کوئی جج کو گالی دے تو کیا جج اٹھ کر چلا جائے؟وفاق کے وکیل نے کہا کہ ایک وزیراعظم کو سزا مل چکی جسے مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ نئے قانون میں افراد کو نہیں اقدامات کو استثنیٰ دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سزا افراد کو ملتی ہے،اقدام یا فائلوں کو نہیں۔ وفاق کے وکیل شکور پراچہ نے کہا کہ آرٹیکل 204 میں توہین عدالت کی تعریف نہیں دی گئی۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ آرٹیکل 204 کی چاروں شقیں توہین عدالت کی تعریف پر مبنی ہیں، نئے قانون میں توہین عدالت کی تعریف تبدیل کردی گئی، پارلیمنٹ قابل احترام ہے مگر سادہ اکثریت سے آئین تبدیل نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے دلائل مکمل کرلیے۔ (آج) جمعرات کواٹارنی جنرل عرفان قادر دلائل دیں گے۔
عدالتیں اصول پر کاربند رہنے اور آئین کی پابند ہیں ، ایک ہی نوعیت کے جرم میں دو افراد کے ساتھ الگ سلوک نہیں ہو سکتا، کوئی جج کو گالی دے تو کیا جج اٹھ کر چلا جائے؟ معاملہ کسی کو سزا دینے کا نہیں عدالتی وقار کا ہے۔ سوئس حکام کو خط لکھنے کا عدالتی فیصلہ حتمی ہے یہ خط لکھنا ہی ہوگا۔ بدھ کو توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو وفاق کے وکیل عبد الشکور پراچہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ پارلیمنٹ کو یہ قانون بنانے کا مکمل اختیار ہے، مقننہ پر قانون سازی سے متعلق بدنیتی کا الزام، عوام پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا کہ نئے قانون میں سزا دینے کیلیے عدلیہ کا اختیار کم نہیں کیا گیا بڑھایاگیاہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے حتی کہ وہ استثنیٰ سے متعلق بھی قانون سازی کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نئے قانون میں لکھاہے کہ مخصوص افرادعدالت میں جوچاہیں کریں ان پر توہین عدالت نہیں لگے گی، آرٹیکل 19کے تحت پارلیمنٹرینز کو اظہاررائے کی آزادی ہے مگر یہ مشروط ہے۔ وفاق کے وکیل نے کہا کہ آئین میں ارکان پارلیمنٹ کو ایوان میں کی گئی تقاریر پر استثنیٰ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹرین توہین عدالت کرے تو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ، ٹرائل کیلیے کیس بھیجنے کے پابند ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح کیا کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ پبلک آفس ہولڈر جو مرضی کرے وہ توہین عدالت سے مستثنیٰ ہو گا۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف یا توہین عدالت پر مبنی رائے زنی کی آزادی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نئے قانون سے تاثر یہ ملتا ہے کہ وزیراعظم توہین عدالت کرے تو استثنیٰ جبکہ کوئی عام آدمی اس کا مرتکب ہو تو اسے سزا دی جائے لیکن قانون جیسا بھی ہو عدالتی حکم پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ توہین عدالت کیخلاف 1976 اور 2012 کے قوانین کی کئی شقوں میں مماثلت ہے، صوبوں اور وفاق کا قانون سازی کا اپنا دائر کار ہے، آئین کے مطابق وفاق کے قانون کا صوبائی جوڈیشل کیڈر پر اطلاق نہیں ہوگا۔
وفاق کے وکیل نے کہاکہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اسے کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت بھی رہنمائی پارلیمنٹ سے لیتی ہے مگر پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے قوانین کی تشریح سپریم کورٹ کا کام ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین پر انگلیاں اٹھانا اور بدنیتی کا الزام لگانا دراصل عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون کے تحت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کو بھی تفصیل سے پڑھا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن اور رضا ربانی نے صحیح بات کہنے کی جرات کی اور نئے قانون کو خلاف آئین قرار دیا اس کے علاوہ کچھ ارکان پارلیمنٹ نے اس نئے قانون کے حق میں بھی تقاریر کی ہیں۔وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے موقف اختیار کیا کہ قانون میں معمولی امتیاز کیا جاسکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون میں کیسے امتیاز کیا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ این آر او فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر اگر ایک وزیراعظم کو سزا ہوئی تو دوسرے کو کیسے چھوڑدیا جائے گا؟
انھوںنے کہاکہ عدالتیں اصول پر کاربند رہنے اور آئین کی پابند ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ لیکن تشریح عدالت نے کرنی ہے، ایک ہی نوعیت کے جرم میں دو افراد کے ساتھ الگ سلوک نہیں ہو سکتا، یہ معاملہ کسی کو سزا دینے کا نہیں عدالتی وقار کا ہے، اگر کوئی جج کو گالی دے تو کیا جج اٹھ کر چلا جائے؟وفاق کے وکیل نے کہا کہ ایک وزیراعظم کو سزا مل چکی جسے مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ نئے قانون میں افراد کو نہیں اقدامات کو استثنیٰ دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سزا افراد کو ملتی ہے،اقدام یا فائلوں کو نہیں۔ وفاق کے وکیل شکور پراچہ نے کہا کہ آرٹیکل 204 میں توہین عدالت کی تعریف نہیں دی گئی۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ آرٹیکل 204 کی چاروں شقیں توہین عدالت کی تعریف پر مبنی ہیں، نئے قانون میں توہین عدالت کی تعریف تبدیل کردی گئی، پارلیمنٹ قابل احترام ہے مگر سادہ اکثریت سے آئین تبدیل نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے دلائل مکمل کرلیے۔ (آج) جمعرات کواٹارنی جنرل عرفان قادر دلائل دیں گے۔