عزیزاللہ ایک نظریاتی ساتھی
اس بیان کے فورا بعد عزیز اللہ اورکمیونسٹ پارٹی نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی
KARACHI:
عزیزاللہ اکتوبر 1918 میں پیلی بھیت، یوپی انڈیا میں ایک زمیندارگھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا سمیع اللہ جنگ آزادی کے سر گرم کارکن تھے، جنھیں انگریز استعمار نے پھانسی دے دی تھی۔ انکو پھانسی دینے کے بعد بھی انگریز سرکار نے ان کے خاندان کوچین سے جینے نہیں دیا،اکثر اوقات خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرتے تھے،اس لیے ان کے اہل خانہ مرادآباد منتقل ہوگئے ، جب وہاں بھی تنگ کرنے لگے تو ان کا خاندان پیلی بھیت چلا گیا جہاں ان کے کچھ رشتے دار پہلے سے رہائش پذیر تھے۔ان کے والد حبیب اللہ اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔
وہ جنگ آزادی کے اس حد تک متوالے تھے کہ پیلی بھیت میں ہندو مسلمان جو بھی جنگ آزادی میں شریک ہونے کا عہدکرتا وہ آکر ان سے اجازت لیتا تھا۔ عزیزاللہ نے ''بھارتیہ نوجوان سبھا'' (جس میں بھگت سنگھ نے اہم کردار ادا کیا) میں بحیثیت کارکن کام کیا ۔ بعد ازاں وہ انڈین نیشنل کانگریس پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ان کا شمار گرم پنتھی میں کیا جاتا تھا ۔کا نگر یس میں دو دھڑے پائے جاتے تھے ، ایک نرم پنتھی اوردوسرا گرم پنتھی ۔ نرم پنتھی وہ کہلاتے تھے جولبرل تھے اورگرم پنتھی وہ کہلاتے تھے جو بائیں بازو کے سوشلسٹ خیالات رکھتے تھے ۔ عزیزاللہ جب علی گڑھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو وہاں انھوں نے قابل ذکر سرگرمی دکھائی ۔ تعلیم کے بعد ''بھارتیہ کسان سبھا'' میں سرگرم رہے۔
عزیزاللہ نے تنظیمی فیصلے کے مطابق انگریزوں سے 60 بندوقیں چھین کر مخصوص مقام پر پہنچائیں، اس عمل میں وہ دوبار انگریزوں کے مسلح دستوں کے حصار میں گھرگئے تھے اور وہاں سے بمشکل بچ نکلے۔ انھوں نے کسانوں کے حقوق کے لیے ہندوستان میں بیش بہا قربانیاں دیں اور حکومت سے مطالبات بھی منوائے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ 1950 میں جیکب آباد شہر میں رہائش پذیر ہوئے ۔ وہاں ایک سرکاری اسکول میں بحیثیت سائنس ٹیچر ملازمت اختیارکی اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کارکن بنے پھر وہ ''سندھ ہاری کمیٹی'' میں سرگرم ہوگئے ۔انھوں نے جن لو گوں کے ساتھ کام کیا ان میں پہومل، سوبھگیان چندانی، سید جمال الدین بخاری ، شانتا، عزیزسلام بخاری، حیدربخش جتوئی، جی ایم سید وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
پاکستان بننے کے فورا بعد سندھ ہاری کمیٹی نے ہاری الاٹی تحریک چلائی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ ہاری الاٹی تحریک کی رہنمائی کے لیے ہاری کمیٹی نے کرا چی سے دوکامریڈزکو اندرون سندھ بھیجنے کی درخواست کی جس پر سندھ کی پارٹی نے عزیز اللہ اور عزیز سلام کو بھیجنے کا فیصلہ کیا اور یہ شرط رکھی کہ یہ دونوں سندھی زبان سیکھیں گے۔ عزیزاللہ اردو بولنے والے اور عزیز سلام گجراتی ۔ بہرحال دونوں نے وعدہ کیا اور بعد میں سندھی زبان سیکھی اسی لیے عزیزاللہ جب کراچی آتے تو لوگ انھیں سائیں پکارنے لگے۔ تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان آرہے تھے تو راستے میں ہی ان کا ایک بیٹا علاج کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث انتقال کرگیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد صوبہ سندھ کی حکومت نے یہ طے کیا تھا کہ ہندوستان سے آنیوالے مہاجرین کو 25 ہزار روپے کاروبارکے لیے دیے جائینگے اور ہاریوں کو 25 ایکڑ زمین دی جائے گی ۔ اس پر ہاری کمیٹی اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان تیار نہ تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان سے آنیوالے مہاجرین کو 50 ہزار روپے دیکر حکو مت خود انھیں کاروبارکروائے اور ہاریوں کو 25 ایکڑکے بجائے 50 ایکڑ زمین دی جائے۔ یہ تحریک پورے سندھ میں آب وتاب سے چلی اور آخرکار اپنے مطالبات بھی منوالیے۔ عزیز اللہ نے ہاری کمیٹی کے ساتھیوں سے مل کر حیدرآباد سے 10ہزار ہاریوں کو ٹھٹھہ منتقل کرکے انھیں زمین دلوائی ۔ چند سال بعد جب عام انتخابات ہوئے تو سابق مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ صرف 19نشستیں حاصل کر پائی، باقی ساری نشستیں ''جکتو فرنٹ '' نے حاصل کرلی تھیں اور اس جکتوفرنٹ یعنی متحدہ محاذ میں 80 فیصد منتخبہ اراکین اسمبلی کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے تھا۔
اسے لیے حکمرانوں نے خوف کے مارے 1954میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی ۔ بعد ازاں 1951میں ہی عزیزاللہ نے پشاور اورکو ئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پشاور میں جن تین افراد پر مشتمل پارٹی سیل بنا تھا، ان میں کاکا صنوبرخان، کاکا خوشحال خان اورافضل بنگش شامل تھے۔ 1952- 54 تک پاکستان نیوی میں بحیثیت سول افسرملازمت کی بعد میں پارٹی کے کل وقتی کارکن بن گئے۔ عزیز اللہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی، سیکریٹریٹ اور پولٹ بیورو کے رکن تھے ۔ان کے دنیا کے متعدد کمیو نسٹ پارٹیوں سے روابط تھے جن میں جنوبی افریقہ، روس، مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ، وسطیٰ ایشیا،کوہ قاف، جنوبی و شمالی امریکا اور ایشیائے کوچک کے ممالک قابل ذکر ہیں۔
عزیزاللہ اندرون سندھ میں پیکر نقوی اور کراچی میں چاچا علی جان کے ساتھ ملکر مزدوروں کی رہنمائی کی۔ جنرل ایوب خان کی آمریت میں پابند سلاسل ہوئے پھرایک بار جنرل ضیاالحق کی آمریت میں روپوشی اختیارکرنی پڑی۔ حسین شہید سہروردی جب وزیراعظم بنے تو عزیزاللہ عوامی لیگ میں بحیثیت کمیونسٹ کام کرتے تھے۔ جب فرانس اوربرطانیہ نے مصر پرحملہ کیا تو شہید سہروردی نے اس کی مذمت کی، بعدازاں جب وہ شاہ ایران سے ملاقات کرکے ماڑی پور ائیر پورٹ پر جہاز سے اترے تو بیان دیا کہ فرانس اور برطانیہ کا مصر پر حملہ کر نے کی جو مخالفت کررہے ہیں وہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں اورکمیونسٹ ہیں۔
اس بیان کے فورا بعد عزیز اللہ اورکمیونسٹ پارٹی نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ یہی حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بننے کے بعد جب ڈھاکہ سے ماڑی پور ائیرپورٹ اترے تو عزیز اللہ سے پوچھا کہ آپ کو جو کچھ چاہیے بتائیں ہم دینگے۔ جس پر عزیز اللہ نے کہا کہ ہمارے چند ساتھی امام علی نازش،کاوش رضوی اور دیگر جیل میں ہیں ان کی رہائی کا حکم دیں، سہروردی صاحب نے جہازکی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہی لکھ کر رہائی کا حکم صادرکیا ۔ عزیز اللہ 80 گزکے مکان میں رہائش پذیر تھے، اب بھی اسی گھر میں ان کے دوبیٹے رہائش پذیر ہیں ۔ عزیز اللہ تادم مرگ محنت کشوں اورکسانوں کے لیے جدوجہد کرتے رہے ۔ ان کا کمیونسٹ انقلاب پر غیرمتزلزل یقین تھا وہ 21 جون 2002 کوکراچی میں انتقال کرگئے لیکن ان کا نظریہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔آج بھی اسی پارٹی کے سیکریٹری جنرل امداد قاضی سرگرم عمل ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی ایک غیرطبقاتی سماج قائم ہوگا اور عوام کی تمام تر ضروریات پوری ہوں گی۔
عزیزاللہ اکتوبر 1918 میں پیلی بھیت، یوپی انڈیا میں ایک زمیندارگھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا سمیع اللہ جنگ آزادی کے سر گرم کارکن تھے، جنھیں انگریز استعمار نے پھانسی دے دی تھی۔ انکو پھانسی دینے کے بعد بھی انگریز سرکار نے ان کے خاندان کوچین سے جینے نہیں دیا،اکثر اوقات خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرتے تھے،اس لیے ان کے اہل خانہ مرادآباد منتقل ہوگئے ، جب وہاں بھی تنگ کرنے لگے تو ان کا خاندان پیلی بھیت چلا گیا جہاں ان کے کچھ رشتے دار پہلے سے رہائش پذیر تھے۔ان کے والد حبیب اللہ اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔
وہ جنگ آزادی کے اس حد تک متوالے تھے کہ پیلی بھیت میں ہندو مسلمان جو بھی جنگ آزادی میں شریک ہونے کا عہدکرتا وہ آکر ان سے اجازت لیتا تھا۔ عزیزاللہ نے ''بھارتیہ نوجوان سبھا'' (جس میں بھگت سنگھ نے اہم کردار ادا کیا) میں بحیثیت کارکن کام کیا ۔ بعد ازاں وہ انڈین نیشنل کانگریس پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ان کا شمار گرم پنتھی میں کیا جاتا تھا ۔کا نگر یس میں دو دھڑے پائے جاتے تھے ، ایک نرم پنتھی اوردوسرا گرم پنتھی ۔ نرم پنتھی وہ کہلاتے تھے جولبرل تھے اورگرم پنتھی وہ کہلاتے تھے جو بائیں بازو کے سوشلسٹ خیالات رکھتے تھے ۔ عزیزاللہ جب علی گڑھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو وہاں انھوں نے قابل ذکر سرگرمی دکھائی ۔ تعلیم کے بعد ''بھارتیہ کسان سبھا'' میں سرگرم رہے۔
عزیزاللہ نے تنظیمی فیصلے کے مطابق انگریزوں سے 60 بندوقیں چھین کر مخصوص مقام پر پہنچائیں، اس عمل میں وہ دوبار انگریزوں کے مسلح دستوں کے حصار میں گھرگئے تھے اور وہاں سے بمشکل بچ نکلے۔ انھوں نے کسانوں کے حقوق کے لیے ہندوستان میں بیش بہا قربانیاں دیں اور حکومت سے مطالبات بھی منوائے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ 1950 میں جیکب آباد شہر میں رہائش پذیر ہوئے ۔ وہاں ایک سرکاری اسکول میں بحیثیت سائنس ٹیچر ملازمت اختیارکی اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کارکن بنے پھر وہ ''سندھ ہاری کمیٹی'' میں سرگرم ہوگئے ۔انھوں نے جن لو گوں کے ساتھ کام کیا ان میں پہومل، سوبھگیان چندانی، سید جمال الدین بخاری ، شانتا، عزیزسلام بخاری، حیدربخش جتوئی، جی ایم سید وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
پاکستان بننے کے فورا بعد سندھ ہاری کمیٹی نے ہاری الاٹی تحریک چلائی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ ہاری الاٹی تحریک کی رہنمائی کے لیے ہاری کمیٹی نے کرا چی سے دوکامریڈزکو اندرون سندھ بھیجنے کی درخواست کی جس پر سندھ کی پارٹی نے عزیز اللہ اور عزیز سلام کو بھیجنے کا فیصلہ کیا اور یہ شرط رکھی کہ یہ دونوں سندھی زبان سیکھیں گے۔ عزیزاللہ اردو بولنے والے اور عزیز سلام گجراتی ۔ بہرحال دونوں نے وعدہ کیا اور بعد میں سندھی زبان سیکھی اسی لیے عزیزاللہ جب کراچی آتے تو لوگ انھیں سائیں پکارنے لگے۔ تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان آرہے تھے تو راستے میں ہی ان کا ایک بیٹا علاج کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث انتقال کرگیا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد صوبہ سندھ کی حکومت نے یہ طے کیا تھا کہ ہندوستان سے آنیوالے مہاجرین کو 25 ہزار روپے کاروبارکے لیے دیے جائینگے اور ہاریوں کو 25 ایکڑ زمین دی جائے گی ۔ اس پر ہاری کمیٹی اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان تیار نہ تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان سے آنیوالے مہاجرین کو 50 ہزار روپے دیکر حکو مت خود انھیں کاروبارکروائے اور ہاریوں کو 25 ایکڑکے بجائے 50 ایکڑ زمین دی جائے۔ یہ تحریک پورے سندھ میں آب وتاب سے چلی اور آخرکار اپنے مطالبات بھی منوالیے۔ عزیز اللہ نے ہاری کمیٹی کے ساتھیوں سے مل کر حیدرآباد سے 10ہزار ہاریوں کو ٹھٹھہ منتقل کرکے انھیں زمین دلوائی ۔ چند سال بعد جب عام انتخابات ہوئے تو سابق مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ صرف 19نشستیں حاصل کر پائی، باقی ساری نشستیں ''جکتو فرنٹ '' نے حاصل کرلی تھیں اور اس جکتوفرنٹ یعنی متحدہ محاذ میں 80 فیصد منتخبہ اراکین اسمبلی کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے تھا۔
اسے لیے حکمرانوں نے خوف کے مارے 1954میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی ۔ بعد ازاں 1951میں ہی عزیزاللہ نے پشاور اورکو ئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پشاور میں جن تین افراد پر مشتمل پارٹی سیل بنا تھا، ان میں کاکا صنوبرخان، کاکا خوشحال خان اورافضل بنگش شامل تھے۔ 1952- 54 تک پاکستان نیوی میں بحیثیت سول افسرملازمت کی بعد میں پارٹی کے کل وقتی کارکن بن گئے۔ عزیز اللہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی، سیکریٹریٹ اور پولٹ بیورو کے رکن تھے ۔ان کے دنیا کے متعدد کمیو نسٹ پارٹیوں سے روابط تھے جن میں جنوبی افریقہ، روس، مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ، وسطیٰ ایشیا،کوہ قاف، جنوبی و شمالی امریکا اور ایشیائے کوچک کے ممالک قابل ذکر ہیں۔
عزیزاللہ اندرون سندھ میں پیکر نقوی اور کراچی میں چاچا علی جان کے ساتھ ملکر مزدوروں کی رہنمائی کی۔ جنرل ایوب خان کی آمریت میں پابند سلاسل ہوئے پھرایک بار جنرل ضیاالحق کی آمریت میں روپوشی اختیارکرنی پڑی۔ حسین شہید سہروردی جب وزیراعظم بنے تو عزیزاللہ عوامی لیگ میں بحیثیت کمیونسٹ کام کرتے تھے۔ جب فرانس اوربرطانیہ نے مصر پرحملہ کیا تو شہید سہروردی نے اس کی مذمت کی، بعدازاں جب وہ شاہ ایران سے ملاقات کرکے ماڑی پور ائیر پورٹ پر جہاز سے اترے تو بیان دیا کہ فرانس اور برطانیہ کا مصر پر حملہ کر نے کی جو مخالفت کررہے ہیں وہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں اورکمیونسٹ ہیں۔
اس بیان کے فورا بعد عزیز اللہ اورکمیونسٹ پارٹی نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ یہی حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بننے کے بعد جب ڈھاکہ سے ماڑی پور ائیرپورٹ اترے تو عزیز اللہ سے پوچھا کہ آپ کو جو کچھ چاہیے بتائیں ہم دینگے۔ جس پر عزیز اللہ نے کہا کہ ہمارے چند ساتھی امام علی نازش،کاوش رضوی اور دیگر جیل میں ہیں ان کی رہائی کا حکم دیں، سہروردی صاحب نے جہازکی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہی لکھ کر رہائی کا حکم صادرکیا ۔ عزیز اللہ 80 گزکے مکان میں رہائش پذیر تھے، اب بھی اسی گھر میں ان کے دوبیٹے رہائش پذیر ہیں ۔ عزیز اللہ تادم مرگ محنت کشوں اورکسانوں کے لیے جدوجہد کرتے رہے ۔ ان کا کمیونسٹ انقلاب پر غیرمتزلزل یقین تھا وہ 21 جون 2002 کوکراچی میں انتقال کرگئے لیکن ان کا نظریہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔آج بھی اسی پارٹی کے سیکریٹری جنرل امداد قاضی سرگرم عمل ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی ایک غیرطبقاتی سماج قائم ہوگا اور عوام کی تمام تر ضروریات پوری ہوں گی۔