کچھ درد انگیز سانحات

گزشتہ دنوں میرا اپنے دوست کے ہمراہ کام کے سلسلہ میں اپنی ذاتی گاڑی سے بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا


قمر عباس نقوی July 06, 2017

ISLAMABAD: مسلمانان عالم کا 1438ہجری کا توبہ واستغفار اور سحر سے غروب تک رکن دین روزے کی حالت میں عبادات و ریاضات کے ساتھ ساتھ تقوی و پرہیزگاری کی عملی مشق کرتے ہوئے قمری سال کا مقدس ترین با لترتیب نواں مبارک مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا اور یوں شوال کو خوش آمدید کہتے ہوئے مسلمانان عالم عید سعید کی پر مسرت خوشیوں سے مالا مال ہوئے۔

موسم میں تغیرات قدرت کا انمول کرشمہ ہے۔ پورا مہینہ جس شدید جھلساتی ہوئی گرمی کی حدت کی لپیٹ میں رہا ، وہ روزہ دار کے لیے بلا شبہ صبر کی کڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔ اس آزمائش کے علاوہ انسانی غفلت اور نا اہلی کی وجہ سے پید ا ہونے والی حسب معمول بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی بدترین خراب صورتحال ، پانی کی مسلسل فراہمی میں شدید تعطل، ضروری اور بنیادی اشیائے خوردنی کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں جیسی صعوبتیں جھیلتے ہوئے اور سونے پے سہاگہ یہ کہ روزہ دارکا صبر و تحمل کے ساتھ کٹھن امتحان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اللہ تعالی ان تمام صبر و شکر کے ساتھ ادا کی گئیں عبادات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرما (آمین)۔اس رمضان کی ایک خاص بات یہ رہی کہ اس مرتبہ چاند کی زیارت رویت ہلال کمیٹی کے لیے متنازعہ کا سبب نہ بن سکی، یقینا خوش آیند امرہے۔

عجب اتفاق ہے کہ اس مہینے کی رحمتوں اور برکتوں کی بارش کے طفیل ابھی ہماری قوم برطانیہ کے شہر اوول کے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کے ہاتھوں پاکستان ہی کے دیرینہ روایتی حریف بھارت کی عبرت ناک شکست فاش کے سحر کے جمود سے باہر ہی نہ نکلے تھے کہ اس مہینے میں یکے بعد دیگرے دو اندوہناک حادثات نے یکلخت فضا کو سوگوار کردیا۔ و فاقی حکومت کے زیر انتظام 'فاٹا' (FATA) کا اہم قبائلی علاقہ ' 'پارا چنار'' کے مقام ''طوری'' کرم ایجنسی میں ہونے والا شدید بم دھماکے کے نتیجے میں لگ بھگ 200 سے زائد معصوم لو گوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع اور متعدد لوگوں کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں۔ با وثوق موصولہ اطلاعات کے مطابق چھ ماہ کے عرصے میں یہ تیسرا دھماکا ہے جس کی جتنی بھی ہر پلیٹ فارم سے بھرپور انداز میں مذمت کی جائے کم ہے۔

پوری قوم اس بربریت نما اندوہناک سانحے پر نہ صرف سراپا احتجاج رہی بلکہ ملک بھر میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ جمعے کو چیف آف آرمی کے دورہ پارا چنار اور ان کی قبائلی عمائدین اور علماکرام کے وفود سے تفصیلی گفت و شنید اور متاثرین کے ورثا کو یقین دہانی کے بعد دھرنوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ ابھی ہم اس صدمے سے باہر ہی نکل پائے تھے کہ اچانک حواس باختہ کردینے والے اس اندوہناک خبر نے دل دہلا کر رکھ دیا کہ بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے ہائی وے پر رواں دواں آئل ٹینکر کے الٹ جانے سے ہزاروں ٹن پیٹرول کی مقدار بہنے سے ارد گرد کا علاقہ پیٹرول کے دریا کی شکل اختیار کرگیا۔

چند ہی لمحوں بعد اس بہتے ہوئے پیٹرول کے بھڑکنے سے دیکھتے ہی دیکھتے انسانوںکی خاکستر ڈھانچوں کا ڈھیر لگ گیا جو نہ صرف قابل افسوس اور رنج و الم کا باعث بھی ہے بلکہ لالچ اور بے حس انسانیت کے لیے قابل عبرت بھی۔ ہم سانحہ سے چند لمحات قبل ہی ٹی وی نیوز چینلز پر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بالٹیوں ، ڈرمز، واٹرکولرز اور بوتلوں میں جس انداز میں جائے حادثہ پر جمع شدہ بیٹرول کی لوٹ مار مچا رہے تھے جیسے سونا یا ہیرے جواہرات ہاتھ لگ گئے ہوں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ہماری شناخت اس عالمی ترقی یافتہ دنیا میں محض من حیث ا لقوم بھوکے، ہوس پرستوں کے منظم گروہ کی ہے۔ اسے جہالت اور بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی لوٹ مارکی بھگدڑ میں انسان کے ہوش و حواس بھلا کہاں قائم رہ سکتے ہیں۔

اندیشہ ہے اسی بھگدڑکی کیفیت میں کسی نے نادانستہ طور پر جلتی ہوئی سگریٹ پھینک دی ہو۔ پٹرول و مٹی کے تیل (آتش گیر مادہ)کو بھڑکنے کے لیے ہلکی سی چنگاری ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کا اظہا ر کرتے ہوئے ہمارے لیے قابل عزت و بصد احترام محترم خادم اعلیٰ پنجاب نے بہت اچھی بات کہی کہ اس کی بنیادی وجہ ملک میں ہونے والی غربت ، تعلیم و تربیت اور روزگار کے فقدان کا شاخسانہ ہے ۔ اس سانحے کے بعد بھی لوگ عبرت حاصل نہ کرسکے، چند روز قبل کراچی سے حیدرآباد کے درمیان کھڑے ہوئے آئل ٹینکر سے بے ضرر لوگ اپنے ابا جی کی جائیداد سمجھتے ہوئے عقبی حصہ پر نصب والو (valve)کھول کر پیٹرو ل کی لوٹ مار کر رہے تھے جب کہ آئل ٹینکر کے عقبی حصے میں جلی حروف میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے ''خطرہ'' یا انگریزی میں Combustible Itemیعنی فورا بڑھک جانے والا مواد لکھا ہوتا ہے۔

ہائی ویز پر ٹرالرز، ٹرکس ، آئل ٹینکرز کا اس طرح ہا ئی ویز پر الٹ جانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ روزکا معمول ہے اور ایسے حادثات زیادہ تر اورٹیک کرتے وقت ہوتے ہیں باالخصوص رات کے وقت۔ عموما رات کے وقت ڈرائیور حضرات پر نیند کا غلبہ بھی ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اکثر ڈرائیور حضرات چرس یا افیون کے نشے کے بھی عادی ہوتے ہیں اور اسی غنودگی کے عالم میں ٹرکس، ٹرالرز بھی اپنی منزل مقصود کی طرف بلا تعطل رواں دواں رہتے ہیں۔ ان تمام حادثات کے پیش نظر ہائی ویز کی تعمیر و ساخت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتااور ہمیں اس حقیقت کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ آیا بے دریغ قوم کا سرمایہ ان ہائی ویز اور موٹر ویز کی تعمیر کے نام پر خرد برد تو نہیں ہو رہا اور ٹول ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والا بے بہا آمدنی کا درست انداز میں مصرف بھی ہو رہا ہے۔

گزشتہ دنوں میرا اپنے دوست کے ہمراہ کام کے سلسلہ میں اپنی ذاتی گاڑی سے بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا، ظاہر ہے ان ہی حکومتی ہائی ویز اور موٹر ویز پر سفر کرنا پڑا ۔ میری والدہ اکثر کہا کرتی ہیں(ماشااللہ حیات ہیں) کہ'' جب تک چیز نہ برتو اس کی کوالٹی سمجھنا بہت مشکل کام ہے اور دوسری بات یہ کہ قبر کا حال مردہ ہی جان سکتا ہے۔'' بلاشہ حقائق پر مبنی فطری صداقتیں ہیں۔ یہ ہائی ویز عالمی معیار کی نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان ہائی ویز پر صرف اور صرف حکمرانی سامان سے لدے دیو ہیکل ٹرالرز، ٹرکس کی ہے جو کسی خطرناک اور خونی اژدھے کی مانند پوری ہائی ویز پر رواں دواں رہتے ہیں اور یہ صورت حال رات میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ ایسی بھاری گاڑیوں کے لیے بالکل علیحدہ لین ہونی چاہیے۔ جگہ جگہ گداگروں کی طرح ٹول پلازے کہ انسان ان پلازوں کو رقم بانٹتا رہے۔ اتفاق ہے کہ وقت کی کمی کے باعث کچھ سفر رات کو بھی کرنا پڑا۔ سڑک کے بائیں جانب کچھ کچھ فاصلے کے وقفے سے شہر اور فاصلے کی سمت کی رہنمائی کے لیے ریفلیکٹر ر(Reflector) نما سلیب نصب ہونا بے حد ضروری ہے۔

یہ امر غور طلب ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس قسم کے خونی حادثات وسانحات کا سامنہ ہمیں اسی مقدس ماہ میں دیکھنا نصیب ہوتے ہیں۔ سال گزشتہ کے اسی مبارک مہینے ہی میں ہم ملک کے مشہور و معروف قومی قوال امجد فرید صابری کے بہیمانہ قتل کے واقعے سے دو چار ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں