جناح سٹیزن کلب لاڑکانہ توجہ کا منتظر
میں یہ سوچتا ہوں کہ دوسرے ممالک میں پرانے اداروں کو سنبھالنے کے لیے کتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے
لاڑکانہ کو ضلع کی حیثیت 1901 میں ملی جس سے پہلے وہ شکارپور ضلع کا حصہ تھا۔ وہ انگریزوں کا دور تھا اور سرکاری عہدوں پر انگریز ہی فائز تھے اور انگریز شام کے وقت تفریح کرنا، کھیلوں میں حصہ لینا اور کلب جانا پسند کرتے تھے۔ دوسرے اضلاع کی طرح انھوں نے لاڑکانہ میں بھی ایک کلب بنایا جو اس وقت کلکٹر کی رہائش گاہ کی پچھلی طرف تھا۔ جسے وہ Gymkhana کہتے تھے۔ اب اس جگہ آفیسرز کلب بن گیا ہے۔ کلکٹر نے اپنی رہائش گاہ سے ایک دروازہ بنوایا تھا جہاں سے وہ نکل کر Gymkhanaجاتے تھے۔ اس زمانے میں ہندو بیوپار بھی کرتے تھے اور پڑھنے میں حصہ لے کر سرکاری نوکری میں شامل ہورہے تھے۔ انھوں نے اپنی سماجی Activities کرنے کے لیے ایک کلب قائم کرنے کا خیال آیا۔ انھوں نے سٹیزن کلب کے نام سے جناح باغ جو اس وقت کجر باغ تھا وہاں پر مغرب کی جانب قائم کیا۔
مگر جب دو ہندو بزنس مینوں نے اس کے بنانے میں کافی رقم خرچ کی تو اس کلب کا نام شام داس نارائن داس رکھا گیا جو 1926 میں بن کے تیار ہوگیا۔ جہاں پر ہر روز شام کو اپنے بزنس اور کام سے فارغ ہوکر شہری وہاں پر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے تھے۔ کلب کے برابر ایک جگہ تھی جس پر بعد میں ٹاؤن ہال بنایا گیا تھا وہاں پر سفید نیکر اور شرٹ میں فلیٹ جوتے پہن کر کھلاڑی بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے۔ جنھیں دیکھنے کے لیے ہندو مسلمان لڑکے زمین پر بیٹھ کر کھیل دیکھتے رہتے تھے۔ جب Partition ہوا تو ہندو یہاں سے انڈیا چلے گئے، جس کی وجہ سے یہ کلب بند ہوگیا اور وہاں پر ویرانی چھاگئی۔ جب ہندوستان سے اردو بولنے والے مسلمان لاڑکانہ میں آئے تو انھوں نے 1950 میں اس کلب کو دوبارہ آباد کیا اور اس کا نام جناح سٹیزن کلب رکھا۔
اس کلب میں آزادی سے پہلے ایک گورنر بھی بیڈمنٹن کھیل چکے ہیں جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ ون یونٹ کے زمانے میں بھی پڑھا لکھا کلاس، بزنس مین، سیاست دان اور بیوروکریٹس اس کلب میں برج تاش کھیلتے تھے۔ ایک مرتبہ خیرپور ڈویژن کے کمشنر لاڑکانہ کے وزٹ پر آئے تو شام کو انھیں کلب میں آنے کی دعوت دی گئی جہاں پر اس نے بھی برج کھیل میں حصہ لیا۔ گورنمنٹ کالج لاڑکانہ کے پرنسپل محمدعلی تھے جو پیدائشی کھلاڑی تھے۔ وہ باقاعدہ روزانہ کلب میں آتے تھے اور بیڈمنٹن کرکٹ، ٹینس اور برج کھیلا کرتے تھے اور خاص طور پر وہ بیڈ منٹن کے ماہر کھلاڑی تھے جس کی وجہ سے وہ لاڑکانہ ضلع کے 6 سال تک چیمپئن رہے۔ وہ جہاں بھی جاتے کھیلوں میں ضرور حصہ لیتے اور اسپیشلی وہ جب شکارپور میں لیکچرار تھے۔
اب دن بدن اس کلب کی رونقیں بڑھتی گئیں اور کلب میں آنا اس کی ممبر شپ حاصل کرنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ شروع میں اردو بولنے والوں کی تعداد کافی تھی مگر پھر لوکل لوگ بھی اس میں شامل ہوتے گئے اور ماحول بڑا خوش گوار ہوتا چلا گیا۔ مختلف سالوں میں مختلف لوگ عہدیدار بنتے گئے جس میں 1962-63 میں محمد بچل تنیو کو جنرل سیکریٹری چنا گیا اور اس کی اچھی کارکردگی اور ایمانداری سے کلب کے ممبران بڑے خوش تھے جس کی وجہ سے وہ اس پوزیشن پر تقریباً 25 سال رہے۔ اس کے علاوہ الائیڈ ٹیکسٹائل مل لاڑکانہ کے جنرل منیجر افتخار لاری صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ جب کہ لاڑکانہ کی بڑی اہم شخصیات جس میں عبدالغفور بھرگڑی، پیر بخش گھانگھرو، شاہ محمود وغیرہ کلب کے صدر رہ چکے ہیں۔
ایک وقت آیا کہ کلب کی عمارت کی حالت خستہ ہوگئی جس کے لیے کلب کے صدر عبدالغفور بھرگڑی نے چندا جمع کرکے اس کی مرمت کروا کے صحیح حالت میں لے آئے۔ اس میں مزید کام کروا کے اس میں ڈرینج کا سسٹم، برانڈا (صحن) کچن، باتھ روم، بیڈمنٹن کا لان، ٹینس کا کورٹ، ڈرائنگ رومز بنوائے کیونکہ جہاں پر پہلے بیڈمنٹن اور ٹینس کھیلی جاتی تھی وہ جگہ ٹاؤن ہال بن گیا تھا اور باقی کلب کا حصہ خراب ہوچکا تھا۔ کلب کا پلاٹ میونسپل کمیٹی کا تھا جسے کلب کے نام پر الاٹ کروایا گیا۔ اب اس کے برابر پریس کلب بننے لگا تو پریس والوں نے چاہا کہ وہ اپنے لیے کلب کا کچھ حصہ اس میں ملائیں اور دوسری طرف ٹاؤن ہال میں پاکستان نیشنل سٹیزن قائم ہوا تو ان کا بھی یہی ارادہ تھا کہ وہ سٹیزن کلب کا کچھ حصہ ہڑپ کرلیں مگر ممبران کلب نے بڑی ہمت اور جرأت کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دیا۔ اچھی کارکردگی کی وجہ سے کلب والوں نے محمد بچل تنیو کو دو سال تک صدر کے عہدے پر فائز کردیا۔
جناح سٹیزن کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں پر ذوالفقار علی بھٹو، قاضی فضل اﷲ، قاضی اختر اور بہت ساری اہم شخصیات آچکی ہیں۔ کلب کی رونقیں بڑھانے کے لیے ممبران کے لیے اچھی شخصیات کو خاص طور پر دعوت دے کر بلایا جاتا تھا جس میں فیض احمد فیض، قتیل شفائی وغیرہ شامل ہیں۔ ہر قسم کی تقریبات منعقد ہوتی تھیں جس میں علمی، سماجی، ثقافتی پروگرام شامل تھے۔ جشن لطیف بھی منایا جاتا تھا۔ پریس کلب، سٹیزن کلب کے آگے باہر ایک چھوٹی سی جگہ خالی پڑی ہوتی تھی جسے پریس کلب والے اور سٹیزن کلب والے اپنے حصے میں شامل کرنا چاہتے تھے مگر کچھ اچھے لوگوں کی وجہ سے اس پر جمعو فقیر جو درویش صفت انسان تھا اس کے نام سے منسوب کرکے چھوٹا پارک بنایا گیا ہے جو اُجڑ چکا ہے۔
میں بھی اس کلب میں اب اکثر آنے لگا تھا اور اس وقت وہ بڑے عروج پر تھا جہاں پر جانے کے لیے شام سے ہی لوگ انتظار کرنا شروع کردیتے تھے۔ میں اس کا ممبر نہیں تھا مگر مجھ سے گیٹ فیس بھی نہیں لی جاتی تھی۔ میرا کام 24 گھنٹے والاتھا جس میں سرکاری اجلاس، وی آئی پیز کا وزٹ، دعوتیں اور بیورو کریٹس کی ملاقاتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ ان میں سے وقت نکال کر میں کلب ضرور جاتا تھا اور کبھی کبھی تو رات کو 12 بجے بھی جاتے تھے۔ سردیوں میں برانڈے کے اندر اور گرمیوں میں آنگن میں کرسیاں لگ جاتی تھیں۔ کچھ دوست کیرم بورڈ کھیلنا شروع کردیتے، کچھ تاش کھیلتے اور کچھ بیڈمنٹن میں مشغول رہتے تھے۔ میری یادوں میں ایک محمد خان مگسی جو ٹریزری آفیسر تھے، دوسرے اکبر میمن جو اس وقت ایڈیشنل سیشن جج تھے اور جمیل احمد سومرو اور چوتھے خالد میمن اور اس کے والد مشہور وکیل نظام الدین میمن، ایاز سولنگی وغیرہ تھے۔ حالانکہ وہاں پر نثار کھوڑو بھی آتے تھے لیکن ہماری ان سے ان کے مزاج کی وجہ سے نہیں لگتی تھی۔
کلب کے اندر ایک گیم تمبولا کھیلی جاتی تھی جس کا مجھ کو کوئی علم نہیں تھا مگر جب دوستوں کے اسرار پر کھیلنا شروع کی اتو اس میں بڑا مزا آنے لگا۔ اس کھیل میں دس روپے کی ایک پرچی خریدی جاتی تھی جس میں مختلف نمبرز لکھے ہوتے تھے اور ایک ممبر اپنے پاس رکھے ہوئے نمبر پکارتا تھا جس کی پرچی سے نمبر سب سے پہلے کٹ جاتے اسے وہ سارے پیسے ملتے تھے۔ پہلے میرے دوست میرے لیے یہ پرچی خریدتے تھے اور اگر انعام نکل آتے تو میں انھیں وہ پیسے دے دیتا تھا۔ بعد میں مجھے اپنی ٹکٹ خود خریدنی پڑی پھر کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہوتا۔ ایک دن میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ تو جوا کا قسم ہے اور پھر میں نے اپنے پیسوں سے کھیلنا بند کردیا۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ دوسرے ممالک میں پرانے اداروں کو سنبھالنے کے لیے کتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور جتنی چیز پرانی ہے اس کی ویلیواتنی ہی بڑی ہے مگر ہم لوگ اس چیز کے قائل نہیں ہیں۔ یہ ہمارا اثاثہ اور تاریخ کا حصہ ہے۔ کلب والوں کو بھی چاہیے کہ وہ نئے ممبرز بنائیں، کلب کے لیے حکومت اور دوسرے اداروں سے امداد حاصل کرکے اسے بنائیں اور وہاں دوبارہ علمی، ادبی، ثقافتی اور تفریحی پروگرام کروائیں جس میں ممبرز اور ان کی فیملی آکر انجوائی کریں۔ میونسپل کارپوریشن کو چاہیے کہ وہ جناح باغ کے اندر اور باہر صفائی کا انتظام اچھا رکھیں۔ وہاں پر لوگوں کی سہولت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کلب والوں کو بھی چاہیے کہ وہ شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد یہاں پر نہ کروائیں جس سے کلب کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ کلب کا ایک مقام ہے، تقدس ہے جسے پیسوں کے لیے نہ بیچا جائے۔ پھر ان پرانے ممبران کو اپنی شناخت کو نہیں بھولنا چاہیے جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں جانے پہچانے جاتے تھے۔
میں موجودہ حکومت کو التماس کرتاہوں کہ شہریوں کی تفریح گاہ جسے جناح سٹیزن کلب کہتے ہیں اس کی رونقیں دوبارہ واپس لانے کے لیے اس کی مالی امداد کی جائے کیونکہ حکومت کا کام ہے اداروں کو بچانا، انھیں سنوارنا، اس کے علاوہ لاڑکانہ کے شہریوں کو بھی اپنی مدد آپ کے تحت اس کلب کو بحال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مگر جب دو ہندو بزنس مینوں نے اس کے بنانے میں کافی رقم خرچ کی تو اس کلب کا نام شام داس نارائن داس رکھا گیا جو 1926 میں بن کے تیار ہوگیا۔ جہاں پر ہر روز شام کو اپنے بزنس اور کام سے فارغ ہوکر شہری وہاں پر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے تھے۔ کلب کے برابر ایک جگہ تھی جس پر بعد میں ٹاؤن ہال بنایا گیا تھا وہاں پر سفید نیکر اور شرٹ میں فلیٹ جوتے پہن کر کھلاڑی بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے۔ جنھیں دیکھنے کے لیے ہندو مسلمان لڑکے زمین پر بیٹھ کر کھیل دیکھتے رہتے تھے۔ جب Partition ہوا تو ہندو یہاں سے انڈیا چلے گئے، جس کی وجہ سے یہ کلب بند ہوگیا اور وہاں پر ویرانی چھاگئی۔ جب ہندوستان سے اردو بولنے والے مسلمان لاڑکانہ میں آئے تو انھوں نے 1950 میں اس کلب کو دوبارہ آباد کیا اور اس کا نام جناح سٹیزن کلب رکھا۔
اس کلب میں آزادی سے پہلے ایک گورنر بھی بیڈمنٹن کھیل چکے ہیں جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ ون یونٹ کے زمانے میں بھی پڑھا لکھا کلاس، بزنس مین، سیاست دان اور بیوروکریٹس اس کلب میں برج تاش کھیلتے تھے۔ ایک مرتبہ خیرپور ڈویژن کے کمشنر لاڑکانہ کے وزٹ پر آئے تو شام کو انھیں کلب میں آنے کی دعوت دی گئی جہاں پر اس نے بھی برج کھیل میں حصہ لیا۔ گورنمنٹ کالج لاڑکانہ کے پرنسپل محمدعلی تھے جو پیدائشی کھلاڑی تھے۔ وہ باقاعدہ روزانہ کلب میں آتے تھے اور بیڈمنٹن کرکٹ، ٹینس اور برج کھیلا کرتے تھے اور خاص طور پر وہ بیڈ منٹن کے ماہر کھلاڑی تھے جس کی وجہ سے وہ لاڑکانہ ضلع کے 6 سال تک چیمپئن رہے۔ وہ جہاں بھی جاتے کھیلوں میں ضرور حصہ لیتے اور اسپیشلی وہ جب شکارپور میں لیکچرار تھے۔
اب دن بدن اس کلب کی رونقیں بڑھتی گئیں اور کلب میں آنا اس کی ممبر شپ حاصل کرنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ شروع میں اردو بولنے والوں کی تعداد کافی تھی مگر پھر لوکل لوگ بھی اس میں شامل ہوتے گئے اور ماحول بڑا خوش گوار ہوتا چلا گیا۔ مختلف سالوں میں مختلف لوگ عہدیدار بنتے گئے جس میں 1962-63 میں محمد بچل تنیو کو جنرل سیکریٹری چنا گیا اور اس کی اچھی کارکردگی اور ایمانداری سے کلب کے ممبران بڑے خوش تھے جس کی وجہ سے وہ اس پوزیشن پر تقریباً 25 سال رہے۔ اس کے علاوہ الائیڈ ٹیکسٹائل مل لاڑکانہ کے جنرل منیجر افتخار لاری صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ جب کہ لاڑکانہ کی بڑی اہم شخصیات جس میں عبدالغفور بھرگڑی، پیر بخش گھانگھرو، شاہ محمود وغیرہ کلب کے صدر رہ چکے ہیں۔
ایک وقت آیا کہ کلب کی عمارت کی حالت خستہ ہوگئی جس کے لیے کلب کے صدر عبدالغفور بھرگڑی نے چندا جمع کرکے اس کی مرمت کروا کے صحیح حالت میں لے آئے۔ اس میں مزید کام کروا کے اس میں ڈرینج کا سسٹم، برانڈا (صحن) کچن، باتھ روم، بیڈمنٹن کا لان، ٹینس کا کورٹ، ڈرائنگ رومز بنوائے کیونکہ جہاں پر پہلے بیڈمنٹن اور ٹینس کھیلی جاتی تھی وہ جگہ ٹاؤن ہال بن گیا تھا اور باقی کلب کا حصہ خراب ہوچکا تھا۔ کلب کا پلاٹ میونسپل کمیٹی کا تھا جسے کلب کے نام پر الاٹ کروایا گیا۔ اب اس کے برابر پریس کلب بننے لگا تو پریس والوں نے چاہا کہ وہ اپنے لیے کلب کا کچھ حصہ اس میں ملائیں اور دوسری طرف ٹاؤن ہال میں پاکستان نیشنل سٹیزن قائم ہوا تو ان کا بھی یہی ارادہ تھا کہ وہ سٹیزن کلب کا کچھ حصہ ہڑپ کرلیں مگر ممبران کلب نے بڑی ہمت اور جرأت کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دیا۔ اچھی کارکردگی کی وجہ سے کلب والوں نے محمد بچل تنیو کو دو سال تک صدر کے عہدے پر فائز کردیا۔
جناح سٹیزن کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں پر ذوالفقار علی بھٹو، قاضی فضل اﷲ، قاضی اختر اور بہت ساری اہم شخصیات آچکی ہیں۔ کلب کی رونقیں بڑھانے کے لیے ممبران کے لیے اچھی شخصیات کو خاص طور پر دعوت دے کر بلایا جاتا تھا جس میں فیض احمد فیض، قتیل شفائی وغیرہ شامل ہیں۔ ہر قسم کی تقریبات منعقد ہوتی تھیں جس میں علمی، سماجی، ثقافتی پروگرام شامل تھے۔ جشن لطیف بھی منایا جاتا تھا۔ پریس کلب، سٹیزن کلب کے آگے باہر ایک چھوٹی سی جگہ خالی پڑی ہوتی تھی جسے پریس کلب والے اور سٹیزن کلب والے اپنے حصے میں شامل کرنا چاہتے تھے مگر کچھ اچھے لوگوں کی وجہ سے اس پر جمعو فقیر جو درویش صفت انسان تھا اس کے نام سے منسوب کرکے چھوٹا پارک بنایا گیا ہے جو اُجڑ چکا ہے۔
میں بھی اس کلب میں اب اکثر آنے لگا تھا اور اس وقت وہ بڑے عروج پر تھا جہاں پر جانے کے لیے شام سے ہی لوگ انتظار کرنا شروع کردیتے تھے۔ میں اس کا ممبر نہیں تھا مگر مجھ سے گیٹ فیس بھی نہیں لی جاتی تھی۔ میرا کام 24 گھنٹے والاتھا جس میں سرکاری اجلاس، وی آئی پیز کا وزٹ، دعوتیں اور بیورو کریٹس کی ملاقاتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ ان میں سے وقت نکال کر میں کلب ضرور جاتا تھا اور کبھی کبھی تو رات کو 12 بجے بھی جاتے تھے۔ سردیوں میں برانڈے کے اندر اور گرمیوں میں آنگن میں کرسیاں لگ جاتی تھیں۔ کچھ دوست کیرم بورڈ کھیلنا شروع کردیتے، کچھ تاش کھیلتے اور کچھ بیڈمنٹن میں مشغول رہتے تھے۔ میری یادوں میں ایک محمد خان مگسی جو ٹریزری آفیسر تھے، دوسرے اکبر میمن جو اس وقت ایڈیشنل سیشن جج تھے اور جمیل احمد سومرو اور چوتھے خالد میمن اور اس کے والد مشہور وکیل نظام الدین میمن، ایاز سولنگی وغیرہ تھے۔ حالانکہ وہاں پر نثار کھوڑو بھی آتے تھے لیکن ہماری ان سے ان کے مزاج کی وجہ سے نہیں لگتی تھی۔
کلب کے اندر ایک گیم تمبولا کھیلی جاتی تھی جس کا مجھ کو کوئی علم نہیں تھا مگر جب دوستوں کے اسرار پر کھیلنا شروع کی اتو اس میں بڑا مزا آنے لگا۔ اس کھیل میں دس روپے کی ایک پرچی خریدی جاتی تھی جس میں مختلف نمبرز لکھے ہوتے تھے اور ایک ممبر اپنے پاس رکھے ہوئے نمبر پکارتا تھا جس کی پرچی سے نمبر سب سے پہلے کٹ جاتے اسے وہ سارے پیسے ملتے تھے۔ پہلے میرے دوست میرے لیے یہ پرچی خریدتے تھے اور اگر انعام نکل آتے تو میں انھیں وہ پیسے دے دیتا تھا۔ بعد میں مجھے اپنی ٹکٹ خود خریدنی پڑی پھر کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہوتا۔ ایک دن میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ تو جوا کا قسم ہے اور پھر میں نے اپنے پیسوں سے کھیلنا بند کردیا۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ دوسرے ممالک میں پرانے اداروں کو سنبھالنے کے لیے کتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور جتنی چیز پرانی ہے اس کی ویلیواتنی ہی بڑی ہے مگر ہم لوگ اس چیز کے قائل نہیں ہیں۔ یہ ہمارا اثاثہ اور تاریخ کا حصہ ہے۔ کلب والوں کو بھی چاہیے کہ وہ نئے ممبرز بنائیں، کلب کے لیے حکومت اور دوسرے اداروں سے امداد حاصل کرکے اسے بنائیں اور وہاں دوبارہ علمی، ادبی، ثقافتی اور تفریحی پروگرام کروائیں جس میں ممبرز اور ان کی فیملی آکر انجوائی کریں۔ میونسپل کارپوریشن کو چاہیے کہ وہ جناح باغ کے اندر اور باہر صفائی کا انتظام اچھا رکھیں۔ وہاں پر لوگوں کی سہولت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کلب والوں کو بھی چاہیے کہ وہ شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد یہاں پر نہ کروائیں جس سے کلب کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ کلب کا ایک مقام ہے، تقدس ہے جسے پیسوں کے لیے نہ بیچا جائے۔ پھر ان پرانے ممبران کو اپنی شناخت کو نہیں بھولنا چاہیے جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں جانے پہچانے جاتے تھے۔
میں موجودہ حکومت کو التماس کرتاہوں کہ شہریوں کی تفریح گاہ جسے جناح سٹیزن کلب کہتے ہیں اس کی رونقیں دوبارہ واپس لانے کے لیے اس کی مالی امداد کی جائے کیونکہ حکومت کا کام ہے اداروں کو بچانا، انھیں سنوارنا، اس کے علاوہ لاڑکانہ کے شہریوں کو بھی اپنی مدد آپ کے تحت اس کلب کو بحال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔