میرے نام پر نہیں
ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’رگ وید ‘‘ میں گائے اور دوسرے جانوروں کا ذکر کئی بار آیا ہے
24جنوری 1966 ء کو اندرا گاندھی بھارت کی وزیراعظم منتخب ہوئیں، توایک سال سے بھی کم مدت گزرنے کے بعد مذہبی انتہا پسندوں نے ''گاؤ ہتھیا'' یعنی گائے کے قتل کے خلاف قانون بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا گھیراؤکرلیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین کی تعداد دس ہزار سے تجاوزکرگئی، لیکن اندرا گاندھی نے ایسا کوئی بھی قانون بنانے سے صاف انکار کر دیا، جس پر مظاہرین نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ حکومت کو دہلی میں اڑتالیس گھنٹے کے لیے کرفیو نافذ کرنا پڑا ۔اسی دوران مظاہرین کوکسی نے بتایا کہ یہ سب کچھ کانگریس کے صدرکی مرضی سے ہورہا ہے، بس پھرکیا تھا بپھرے ہوئے ہجوم نے صدرکے گھرکو بھی آگ لگا دی۔
ہنگامے پر قابو پانے کے لیے فائرنگ کی گئی تو اس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ 1870 ء میںبھی ہندوؤں نے انگریزوں سے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں گائے ذبح کرنے کے خلاف قانون بنایا جائے، لیکن انھیں کامیابی نہ مل سکی ۔ پھر دیا نند سرسوتی نے '' آریہ دھرم '' کی تحریک شروع کی جس کی بنیاد گائے کی حفاظت پر رکھی گئی تھی۔اس لیے کہ صرف اس طرح ہی تمام ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جا سکتا تھا ۔1883 ء میں دیانند سرسوتی پرلوک سدھارے اور یہ تحریک ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی جو مذہب کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت چاہتے تھے۔موجودہ ضلع ماؤ اس وقت اعظم گڑھ کا حصہ تھا جہاں گائے کے نام پر فسادات بھڑک اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہارکے بعد دوسری کئی ریاستوں تک پہنچ گئے۔گائے کے نام پر ہندو دھرم میں ہونے والے فسادات کا کوئی ذکر نہ تو ان کی مقدس کتابوں میں ملتا ہے اور نہ ہی سات ہزار سالہ تاریخ میں گائے کے نام پرایسے خراب حالات کی نوبت آئی جو اب ہندوستان کے گلی کوچوں میں دکھائی دیتی ہے۔
ہندوؤں کی مقدس کتاب ''رگ وید '' میں گائے اور دوسرے جانوروں کا ذکر کئی بار آیا ہے، مگر اسے اتنا مقدس نہیں بتایا گیا جتنا اس صدی میں بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رگ وید کے ساتویں باب کے آٹھویں منتر میں درج ہے کہ '' اس پرمیشور کی قدرت سے گھوڑے پیدا ہوئے،اسی نے دو رویہ دانت والے جانور اونٹ گدھے وغیرہ پیدا کیے اسی کی قدرت سے گائے ، بھیڑ، بکری وغیرہ بنے ہیں '' ۔ صرف اسی منتر میں نہیں بلکہ رگ وید کے کئی منتروں میں گائے کا ذکر آیا ہے ، مگر اسے دوسرے جانوروں پر برتری نہیں دی گئی ۔آزادی کے بعد وزیر اعظم نہرو نے اقتدار سنبھالا تو ہندوؤں کے مذہبی حلقوں نے سمجھا کہ اب صحیح وقت آیا ہے'' گاؤ ہتھیا'' کا قانون بنانے کا ، لیکن نہرو نے ایسا کرنے سے صاف انکار کیا تو اس وقت کے چار بڑے مذہبی لیڈروں نے ان کے خلاف بھی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔
وقت نے کروٹ بدلی تو ''سنگھ پریوار'' کے سیاسی غلبے اور اس کے ساتھ نریندر مودی کے سیاست میں آمد کے بعد گائے کے نام پر فسادات کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے ہندو مذہب کی لگ بھگ سات ہزار سالہ تاریخ کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا۔
'' گاؤ ہتھیا'' کے نام پر دلتوں اور مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ 2010 ء تک تو اسی رفتار سے چلتا رہا جیسے ماضی میں چلتا آرہا تھا ، مگر 2013 ء کے بعد اس میں تیزی آگئی۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں آر ۔ ایس ۔ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ ) سے متعارف ہونے والے نریندر مودی نے گریجویشن کے بعد شادی تو کر لی ، مگر بیوی سے نباہ نہ کر سکے ۔ گھر بار چھوڑ کر دو سال تک ''سنگھ پریوار '' کے مختلف اداروں کی خاک چھانتے رہے اورگھر لوٹنے کے بعداگلے تین برسوں کے دوران راشٹریہ سیوک سنگھ کے کل وقتی کارکن بن کر احمد آباد میں کام کرنے لگے۔
اسی دوران راشٹریہ سیوک سنگھ نے انھیں بی جے پی میں کام کرنے کے لیے منتخب کیا جہاں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے 2010ء میں وہ جنرل سیکریٹری کے عہدے تک پہنچ گئے۔ اسی سال اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کی بگڑتی ہوئی صحت کے باعث انھیں گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا اورلگ بھگ ایک سال بعد گودھرامیں ٹرین جلنے کا حادثہ پیش آیا جس کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کل 1044افراد ہلاک ہوئے جن میں790مسلمان اور 254ہندو تھے، مگر غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں 2000مسلمان مارے گئے تھے ۔ ٹائمز آف انڈیا کے ایک سابق ایڈیٹر کے مطابق ان فسادات کے نتیجے میں دو لاکھ مسلمان بے گھر ہوئے جو آج تک اپنے گھروں کو واپس نہ جا سکے اور جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان فسادات پر ایک کتاب '' گجرات دنگے۔ اصلی کہانی'' کے نام سے سامنے آئی جس کے مصنف ایم ڈی پانڈے الزام عائد کرتے ہیں کہ ان فسادات میں مرنے والے ہندوؤں پر میڈیا نے توجہ ہی نہ دی۔ایم ڈی پانڈے کی اس بات کو اس لیے اتنی اہمیت نہیں دی گئی کہ ان کا تعلق بھی '' راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ '' سے رہ چکا ہے۔گجرات میں ہونے والے فسادات کو اب پندرہ سال ہوگئے ہیں، لیکن ان فسادات کے دوران مودی کے کردار کو کون فراموش کر سکتا ہے جن کی با اثر شخصیت نے بنیاد پرست ہندوؤں کو اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ وقت نے بھارت کے روشن خیال اور سیکیولر حلقوں کو ای دفعہ پھر شدید مایوس کیا جب نریندر مودی 2014 ء کے عام انتخابات میں بھارت کے چودھویں وزیر اعظم منتخب ہوئے اور تب سے لے کر اب تک شاید کوئی بھی ایسا دن نہ گزرا ہو گا جب انھیں اقلیتوں کی قتل و غارت گری کا ذمے دار نہ ٹھہرایا گیا ہو۔ گائے کا گوشت کھانے اور اس کی کھال اتارنے کے الزام میں اب تک کئی بے گناہ مسلمانوں اور دلتوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر مارا جا چکا ہے، مگر سب سے خوف ناک واقعہ چند دن پہلے سورت کے رہائشی پندرہ سالہ جنید خان کے ساتھ پیش آیا جو اپنے دو بھائیوں کے ساتھ دہلی آیا ہوا تھا۔
دہلی کی ایک بس میں سفرکے دوران اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیلی میں گائے کا گوشت رکھنے کا الزام لگا کر وحشی ہجوم نے جنید کو قتل اور اس کے دو بھائیوں کو زخمی کر دیا ۔اس واقعے کے بعد بھارت کی سول سوسائٹی نے ہندوستان بھر اور یورپ کے مختلف ممالک کی سطح پر ایک منظم احتجاج کو جنم دیا جسے ''Not in my name'' کا ٹائٹل دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج ہندوستان کے سارے شہروں تک پھیل گیا اور اس ہفتے کے دوران اس احتجاج میں 38 تنظییمیں شامل ہو گئیں۔احتجاج کے دوران '' مودی بھگاؤ،دیش بچاؤ'' کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود گوہاٹی اور دوسرے شہروںمیں رکشوں اور گاڑیوں کو روک کر تلاشی لینے کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمان نوجوانوں پر تشدد کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔'' میرے نام پر نہیں'' تحریک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مذہبی اور سیاسی سطح پر مودی کی شخصیت متازع بنتی جارہی ہے۔ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ سیکیولر بھارت کی فتح ہوتی ہے یا ایک جانور کے نام پر بے گناہ مسلمانوں اوردوسری اقلیتوں کا قتل عام جاری رہتا ہے۔