بم دھماکوں اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی تفتیش سرد خانے کی نذر

سی ٹی ڈی سیل میں تعینات افسران میں شہر کے مختلف علاقے تقسیم کیے گئے اور انھیں الگ الگ نفری بھی دی گئی


Staff Reporter July 06, 2017
سی ٹی ڈی اورتفتیشی پولیس کی عدم توجہی سے کیسزحل نہ ہوسکے،موچکواورمنگھوپیرکے دھماکوں میں کالعدم بی ایل اے اور لشکرجھنگوی ملوث ہیں فوٹو:اے ایف پی / فائل

کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ اور سیکیورٹی اداروں کی شہر میں کارروائیوں کے باوجود رواں سال کے 6 ماہ کے دوران شہر میں4 بم دھماکوں اور تھانے اور بکتر بند پر دستی بم اور رائفل گرینیڈ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا، سی ٹی ڈی اور انویسٹی گیشن پولیس کے افسران کی عدم توجہی کے باعث تفتیشی افسروں نے شہر میں ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش سرد خانے کے نذرکردی، بم دھماکوں اور پولیس کی ٹارگٹ کلنگ میں تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

تفصیلات کے مطابق شہر میں رواں سال کے 6 ماہ کے دوران شہر کے مختلف مقامات پر 4 بم دھماکے ، ایک دستی بم اور رائفل گرینیڈ بم سے حملے ہوئے تھے تھانوں کی انویسٹی گیشن پولیس، سی ٹی ڈی اور سیکیورٹی اداروں کے انٹیلی جنس افسران و اہلکاروں کی جانب سے دہشت گردی کے مذکورہ واقعات کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کی گئیں اور متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا جبکہ فورتھ شیڈول میں شامل افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا اس کے باوجود پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو کامیابی نہ مل سکی، ایکسپریس کی جانب سے اسپیشل برانچ اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ محکمہ پولیس میں سی ٹی ڈی اس لیے بنائی گئی تھی کہ وہ شہر میں ہائی پروفائل کیسز اور خاص طور پر دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات کی باریک بینی سے تفتیش کریں اور ان میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جاسکے۔

سی ٹی ڈی سیل میں تعینات افسران میں شہر کے مختلف علاقے تقسیم کیے گئے اور انھیں الگ الگ نفری بھی دی گئی لیکن سی ٹی ڈی کے اعلی افسران کی عدم توجہی کے باعث ان کے ماتحت افسر و اہلکاروں نے ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش سرد خانے کے نذر کردی ہے، واضح رہے کہ6جنوری کو نامعلوم دہشت گردوں نے تیموریہ تھانے پر دستی بم سے حملہ کیا تھا جس میں تھانے کا ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا تھا اس کے بعد دہشت گردوں نے 12فروری کو دوبارہ تیموریہ تھانے کی حدود فائیو اسٹار چورنگی پر شاہراہ نورجہاؓں تھانے کی بکتر بند گاڑی پر رائفل گرینیڈ سے حملہ کیا،2 مئی کو اورنگی ٹاؤن تھانے کی حدود میں نامعلوم دہشت گردوں نے ندیم الیکٹرانکس کی دکان پر ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے بم دھماکا کیا جس سے ایک شہری زخمی ہوا ،17مئی کو منگھوپیر تھانے کی حدود حب ریور روڈ مدرسے کے قریب نامعلوم دہشت گردوں نے گیس پائپ لائن پر آئی ای ڈی ڈیوائس کے ذریعے بم دھماکا کیا ، 6جون کو موچکو کے علاقے نادرن بائی پاس منگھوپیر کے قریب نامعلوم دہشت گردوں نے بجلی کی ہائی ٹینشن لائن ٹاور کو دھماکے خیز مواد سے اڑایا جبکہ 23 جون کو شاہ لطیف ٹاؤن میں قائد آباد مچھلی بازار کے قریب کراچی سے لاہور جانے والی مسافر بس میں بم دھماکا ہوا۔

جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 19افراد زخمی ہوگئے تھے، شاہ لطیف ٹاؤن انویسٹی گیشن پولیس کے انچارج انسپکٹر حاکم سومرو نے بتایاکہ پولیس کو تفتیش کے دوران خاص شواہد ملے اور نہ ہی بس میں بم رکھنے والے گروپ کا معلوم ہوسکا انھوں نے بتایا کہ پولیس نے بس کے مالک مٹھل کورائی اور اڈے کے ملازمین کے بیانات بھی قلمبند کیے لیکن کوئی خاص معلومات نہیں ملی، پولیس کو کالعدم تنظیموں پر شبہ ہے جنھوں دہشت گردی پھیلانے کے لیے بم دھماکا کیا، موچکو اور منگھوپیر انویسٹی گیشن پولیس کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں ہونے والے بم دھماکوں میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور کالعدم لشکر جھنگوی العالمی کے دہشت گرد ملوث ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ لیاری میں ہونے والے دستی بم کے حملے تو لیاری گینگ وار کی جانب سے کیے جارہے ہیں اس میں جو گروپ ملوث ہے ان کے بارے میں اداروں کو معلوم ہے لیکن اس کے علاوہ مذکورہ بم حملوں اور پولیس کی ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم تنظیم کے کون کون سے گروپ ملوث ہیں ان کے بارے میں معلوم کرنا ضروری ہے تاکہ شہر میں دہشت گردوں کی کمر توڑی جاسکے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیشل برانچ اور انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ افسران اور سیکیورٹی اداروں کو روزانہ دی جانے والی رپورٹس میں علاقوں کے بارے میں آگاہی بھی دی جاتی ہے کہ کون کون سے علاقوں میں دہشت گرد روپوش ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں کالعدم تنظیم داعش اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کراچی میں موجود کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں سے رابطوں میں ہے، داعش ان کی مالی معاونت کے علاوہ جدید ہتھیاروں سے بھی نواز رہی ہے جس کی وجہ سے دہشت گرد تنظمیں شہر کراچی کے علاوہ اندرون سندھ دوبارہ فعال ہوچکی ہے جن کے خلاف کراچی اور اندرون سندھ میں بھرپور آپریشن کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں