مرحوم کی یاد میں

یہ تو اچھی بات ہے کہ اچھا کھیل پیش کرنے والوں کو سراہا جائے، لیکن آخر یہ انعامات کی برسات صرف کرکٹ پر ہی کیوں؟


صدام حسین July 07, 2017
ہمارے یہاں قومی کھیل کا درجہ دیکر ہاکی کے ساتھ وہی سوتیلا پن روا رکھا گیا جو ہر قومی ادارے کیساتھ رکھنا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: میں نے پوچھا کیوں بھائی مرزا، ''حسن سردار، سمیع اللہ، کلیم اللہ، منظور حسین، شہناز شیخ، شہباز سینئر، اختر رسول کا نام سنا ہے تم نے؟'' مرزا چہرے پر یونانی فلاسفروں والی سنجیدگی طاری کرکے ٹکر ٹکر ہمارا منہ ایسے تکنے لگے جیسے ہم نے مریخ پر جانے کا راستہ پوچھ لیا ہو۔

مرزا کا چہرہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اُسے کچھ نہیں معلوم، بس اِسی لیے سوچا کہ کیوں نہ مرزا کو شاندار تاریخ کے بارے میں کچھ بتایا جائے۔ اِس لیے ہم نے بتایا کہ ارے بھائی مرزا یہ ایک ایسا مرحوم کھیل ہے جو ساری دنیا کو کھیلنا ہم نے سکھایا، دنیا بھر کے گورے اور کالے اِس میدان میں ہمارے شاگرد تھے اور ہم اِس میدان کے شہسوار تھے۔ ایک زمانہ تھا جب اس کھیل کے چار عالمی کپ ہم نے جیتے، جبکہ اولمپک اور ایشیائی مقابلوں میں درجنوں تمغے اِس کے علاوہ ہیں۔

لیکن مرزا کی کمزور یادداشت پر ہماری اِس مغز ماری کا رتی بھر بھی اثر نہ ہوا۔

وہ اچانک گویا ہوئے،
''ارے بھئی تم کس نایاب کھیل کا ذکر لے بیٹھے ہو جس کا ہمیں نہیں تک معلوم؟ ہم بھی آخر پرانے کھلاڑی ہیں، ہمارے بھی نام کا ڈنکا بجتا تھا''

پھر ازراہِ تفنن عرض کرتے چلے کہ مرزا لال بیگ سے بچپن کی صاحب سلامت ہے جب وہ گاوں کے کچے مکانوں کی چھتوں پر خالص مومی کاغذ کی پتنگیں بنا کر گاوں کے لونڈوں سے پیچے لڑایا کرتے تھے اور انہی مقابلوں کے دوران ایک مکان کی چھت سے گر کر بائیں ٹانگ تڑوا بیٹھے تھے، وہ تو بھلا ہو کہ چھت نیچی تھی، ورنہ۔۔۔!

آخر مرزا کے کمزور ذہن پر بوجھ بننے کے بجائے ہم نے کہا بھئی ہم ذکر کررہے ہیں ہمارے اپنے قومی کھیل 'ہاکی' کی۔ جس کے بارے میں ہم نے لوگوں کو بہت کہتے سنا تو ہے لیکن بدقسمتی سے وہ کمالات ہم دیکھ نہیں سکے۔

''اچھا، اچھا''، مرزا نے غیر سنجیدگی سے کہا۔

مرزا کے اِس روّیے سے تنگ آکر ہم ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئے جہاں چیمپئین ٹرافی کی فاتح قومی کرکٹ ٹیم کو ایوان وزیرِاعظم میں انعام و اکرام سے نوازا جارہا تھا۔

سرفراز احمد کی نوآموز کپتانی میں عمر رسیدہ و کمر خمیدہ کھلاڑیوں سے نجات کے بعد قدرے نوجوانوں پر مشتمل کرکٹ ٹیم کی طرف سے بھارت کی لٹیا ڈبوئے تو دو ہفتوں سے زیادہ وقت بیت چکا، مگر داد و دہش اور تحسین و آفرین کے ڈونگڑے ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے، اور سچی بات یہ ہے کہ ایسا ہو بھی کیوں نہیں؟ آخر اپنے ازلی دشمن کو ایک مدت کے بعد دنیا کی آنکھوں کے سامنے ذلت آمیز شکست دیکر دھول چٹانے کا موقع ملا تھا، اور ویسے بھی بھارت کیخلاف جنگ ہے تو پھر چاہے میدان کرکٹ کا ہو یا میدان کارزار، لڑنا ہمارا عین ایمانی تقاضا ہے۔

لٹل ماسٹر حنیف محمد ہوں، ایشین بریڈمین ظہیر عباس یا پھر شارجہ کے مردِ میدان میانداد کا تاریخی چھکا، ناپاک بھارتی سازشوں کو خاک میں ملا کر ہمیشہ ہی ملک کو فتح سے ہمکنار کروانے کی سب نے ہی کوشش کی۔ اِس کے علاوہ عمران خان کی بھارتیوں کو کشمیر کی قسمت کے فیصلے کے لیے کرکٹ میچ کھیلنے کی آفر بھلا کون بھول سکتا ہے؟ پھر 1992ء کے ورلڈ کپ میں تاریخی فتح تو شاید کبھی کوئی پاکستانی بھی نہ بھلا سکے۔ اِس کے علاوہ ٹو ڈبلیوز یعنی وسیم اور وقار کی جوڑی کو تو جان لیوا باولنگ کرتے بچپن میں ہم نے بھی دیکھا۔ جب اِن دونوں کا دور کچھ مدھم پڑنے کا آغاز ہوا تو اُسی زمانے میں کہیں سے دبلے پتلے شعیب اختر آندھی طوفان بن کر آئے اور کرکٹ کے افق پر چھا گئے۔ گیند بازوں سے ہٹ کر بلے بازوں کی بات کی جائے انضمام الحق، محمد یوسف، یونس خان اور بوم بوم شاہد آفریدی تو سب کی آنکھوں کے تارے تھے۔ کرکٹ کے عروج کی بات کی جائے تو بھلا 2009ء میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کی فتح کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کی فتح کے بعد خواب یہی تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کا اعزاز بھی اگر مل جائے تو کتنا ہی اچھا ہو، ابھی پوری قوم یہ خواب ہی دیکھ رہی تھی کہ نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے قوم کی یہ خواہش بھی پوری کردی۔

کہتے ہیں کہ کرکٹ امراء کا کھیل ہے، پتہ نہیں اِس بات میں کچھ ہے بھی یا نہیں، ہاں لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہاکی ہرگز غرباء کا کھیل نہیں۔ لیکن ہمارے یہاں قومی کھیل کا درجہ دیکر ہاکی کے ساتھ وہی سوتیلا پن روا رکھا گیا جو ہر قومی ادارے کیساتھ رکھنا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔

اِس کھیل کے مائی باپ کب کے مرچکے، یتیم سمجھ کر پہلے مشتہرین نے ہاتھ اُٹھایا پھر حکومت نے منہ موڑا اور آخر میں اِس کھیل کو اِس کے اپنوں نے ہی لوٹ کھایا۔ اِس کھیل کو نہ اب کوئی اسپانسر میسر، نہ سر پر حکومت کا دستِ شفقت اور رہی کسر ہاکی فیڈریشن میں اندھا دھند لوٹ مار نے پوری کردی۔ پاکستان میں موجود ہاکی اسٹیڈیم میں تو اب جیسے اُلّو بولتے ہیں۔ بعید نہیں کہ آنے والے چند سالوں میں اِن ہاکی اسٹیڈیم کو شادی ہال میں نہ بدل دیا جائے۔ یعنی جس کھیل پر ہماری حکمرانی تھی، آج حال یہ ہوچکا ہے کہ اِسی کھیل کے عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے باقاعدہ کوالیفائنگ راونڈ کھیلنا پڑتا ہے۔

یہ ساری باتیں کرنے کا خیال مجھے اُن کروڑوں روپے کے انعامات کی خبر سن کر آیا جو وزیراعظم نواز شریف نے کھلاڑیوں کو دیے۔ ملک میں تضاد کو دیکھیے کہ ایک طرف کرکٹ ہے جہاں چند ایک فتوحات مل جائیں تو گلی محلے سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک اِسی کا شور مچا ہوتا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں کے انعام و اکرام کی برسات اور میڈیا کی طرف سے پذیرائی ملتی ہے۔

سچ پوچھیے تو مجھے اِن میں سے مجھے کسی بات پر بھی دکھ اور پریشانی نہیں۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ اچھا کھیل پیش کرنے والوں کو سراہا جائے، ہاں لیکن یہ سوال ضرور بار بار ذہن میں گردش کرتا ہے کہ انعامات کی برسات صرف کرکٹ پر ہی کیوں؟ اِسی لیے حکومتِ پاکستان سے گزارش اتنی سی ہے کہ اپنی موت آپ مرتی ہاکی پر مندرجہ ذیل کام کرکے چند احسانات فرمادیجیے۔

  • نصابی کتابوں اور سرکاری دستاویزات سے قومی کھیل کی جگہ سے 'ہاکی 'کا نام حذف کرکے 'کرکٹ ' کا نام لکھوا دیجیے تاکہ اِس طرح قومی کھیل کو مزید رسوائی سے بچایا جاسکے۔

  • اِسی طرح ہاکی کے جو دو چار میدان ملک میں بچے ہیں وہاں بھی کرکٹ کا نظام رائج کردیجیے۔

  • ہاکی فیڈریشن کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں ضم کردیں۔ ہاکی کھیلنے پر بضد لونڈوں لپاٹوں کو بہلا پھسلا کر یا دھونس دھمکی جیسے بھی ہوسکے کرکٹ کھیلنے پر آمادہ کیا جائے تاکہ ہینگ اور پھٹکری لگائے بغیر رنگ چوکھا آئے اور کرکٹ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔


میری دانست میں اگر یہ چند ایک کام کردیجیے جائیں تو نہ صرف قومی کھیل کو رسوائی سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ اِس کھیل کو اپنا فیوچر بنانے کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو تباہی سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو آج بھی گلی محلوں اور ہاکی کے میدانوں میں صبح شام صرف اِس اُمید کے ساتھ پریکٹس کررہے ہیں کہ ایک دن ضرور آئے گا جب پاکستان کا قومی کھیل بھی ترقی کرے گا، جب حکمرانوں کی نظرِ کرم اِس کھیل پر بھی پڑے گی، اور اِس کھیل کو جو مالی مسائل کا سامنا ہے وہ بھی جلد از جلد حل ہوجائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم اِن نوجوانوں کو اسی طرح دھوکہ دیتے رہیں گے اور کب تک نوجوانوں کا کیرئیر داو پر لگاتے رہیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیولنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں