قانون قدرت کے اسیر
برطانیہ جیسی نظم و ضبط کی عادی اور اصولوں کی پابند قوم سے ایسے فوری ردعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
مانچسٹر میں ایک ایسے مسلمان نے جو برطانیہ میں ہی پیدا ہوا، پلا بڑھا اور برطانوی معاشرے کی ''مہذب اقدار''کا پروردہ تھا مگر اصلاً تھا مسلمان اور اس نے مانچسٹر میں فائرنگ کرکے دہشت پھیلادی۔ پولیس نے فوری کارروائی کی تھی اور مجرم ہلاک ہوگیا تھا اور اس کے متعلقین پوچھ تاچھ کے لیے گرفتار کرلیے گئے تھے۔ ان گرفتاریوں کے نتائج ہنوز منظر عام پر نہیں آئے ہیں، مگر مسلمانوں کے خلاف لے دے بہت ہوئی۔
اس حادثے کا دوسرا رخ یہ تھا کہ اس واقعے کے زخمیوں کو مسلمان ٹیکسی ڈرائیوروں نے رنگ ونسل کے فرق اور امتیاز کے بغیر اسپتال پہنچایا۔ ان ٹیکسی ڈرائیوروں میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ برطانوی ذرایع ابلاغ خصوصاً پرنٹ میڈیا نے دبے دبے الفاظ میں اس کا اعتراف کیا مگر کھل کر اس کی تعریف کسی سمت سے بھی نہ ہوسکی۔
البتہ اس دہشت گردی کا ایک کردار چونکہ مسلمان تھا، اس لیے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف نفرت انگیز خیالات کا سرعام اظہار کیا جانے لگا۔
سعیدہ وارثی جو برطانوی سیاسی حلقوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور وہاں کی ایک اہم سیاسی جماعت کی ذمے دار عہدیدار رہ چکی ہیں آج کل ان کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہوئی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ برطانوی معاشرے میں مسلمان ہونا بڑا مشکل کام ہے۔ برطانیہ میں موجود 3 لاکھ افراد کے ایک فیصد کے دسویں حصے نے بھی اہل برطانیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا مگر ان کو دہشت گرد گردانا جاتا اور حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی خاتون کی گواہی ہے جو برطانوی معاشرے کی جڑ میں بیٹھی ہیں۔
مانچسٹر حادثے والے دن ہی دو مساجد کو آگ لگائی گئی۔ چلیے یہ فوری ردعمل رہا ہوگا۔ حالانکہ برطانیہ جیسی نظم و ضبط کی عادی اور اصولوں کی پابند قوم سے ایسے فوری ردعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے پس پشت مسلمانوں سے بغض و عناد کا پکنے والا لاوا کام کر رہا تھا، لیکن اسے فوری ردعمل قرار دے کر نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔
پھر ہوا یہ کہ اس کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف معاندانہ رویہ دن بہ دن بڑھتا گیا۔ ان پر آوازے کسے جانے لگے انھیں برطانیہ سے بے دخل کیے جانے کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور برطانوی قوم امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کی ہم آواز ہوگئی۔
پھر عملی اظہار کا سلسلہ شروع ہوا۔ فنزبری کی جامع مسجد سے تراویح پڑھ کر نکلنے والے نمازیوں پر ایک شخص نے گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں 2 نمازی شہید اور 12 شدید زخمی ہوئے۔ اس قسم کا حملہ برطانوی قوم کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہوتا مگر اس پر کوئی ایسا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ یہ ہوا کہ برطانیہ کی نسل پرست تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا۔ اس شخص کو نہ جنونی کہا جا رہا ہے نہ دہشت گرد نہ اس طرز فکر پر کسی ''فکرمندی'' کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب برطانوی شہری نظام کی نفاست اور ان کی قومی سلامتی طبع پر کوئی حرف نہیں آرہا۔ برطانوی معاشرہ اس مسئلے پر کچھ سوچ ہی نہیں رہا ہے کہ نسلی برتری کی فکر نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقلیتوں کو بھی گوروں سے بے زار کر رہی ہے۔
اس سے کہیں زیادہ وحشیانہ اور غیر انسانی رویہ ورجینیا میں پیش آیا۔ ورجینیا امریکا کی ایک ریاست ہے۔ وہاں تو مانچسٹر جیسی کوئی دہشت گردی بھی نہیں ہوئی تھی مگر وہاں کی ایک مسجد سے چند سہیلیاں عبادت کرکے نکلیں۔ یہ سحری کی غرض سے اپنے گھر جا رہی تھیں کہ ایک کار سوار شخص نے ان پر توہین آمیز فقرے کسے اور اسی پر بس نہیں کیا وہ گاڑی سے اترا اور ایک لڑکی نبرا پر لوہے کی راڈ سے حملہ کردیا۔ باقی تین لڑکیاں خوفزدہ ہوکر مسجد میں واپس گھس گئیں۔ اس شخص نے نبرا پر وحشیانہ تشدد کیا اور پھر اسے گاڑی میں ڈال کر لے گیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس پہنچی اور تلاش بسیار کے بعد لڑکی کی لاش ایک تالاب سے برآمد کرلی۔ یعنی قاتل نے اسے قتل کرکے تالاب میں پھینک دیا تھا۔
یہ ان ترقی یافتہ ممالک کا حال ہے جہاں انسانیت اور انسانی قدروں کے علم بردار اپنے تمام بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اپنی تہذیبی برتری کے مدح خواں ہیں۔ لیکن جو بربریت اور حیوانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔
اب پولیس قاتل کو تلاش کر رہی ہے۔ پاکستانی اخبارات نے تو اس خبرکی پھر خبر ہی نہیں لی۔ ہوسکتا ہے پولیس کی رسائی قاتل تک ہو جائے اور وہ ذہنی مریض واقع ہو اور یوں فائل داخل دفتر کردی جائے۔
لیکن اگر یہی جرم کسی رنگ دار نے کیا ہوتا تو ادھم مچ جاتا اور دہشت گردوں کی تلاش وسہولت کاری کے ذیل میں آٹھ دس آدمی زیرعتاب آتے اور مسٹر ٹرمپ کی تازہ ترین ہدایات کی روشنی میں امریکا بدرکیے جاتے مگر امریکی قاتل دندناتے پھریں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اب تک امریکا اور یورپ قول وفعل کے واضح تضادات سے بچے ہوئے تھے مگر مسلم دشمنی انھیں عصبیت، تنگ نظری، منافرت اور امتیاز، رنگ وخون کی ان برائیوں کی طرف گھیرکر لے جا رہی ہے جہاں سے قوموں کا زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے اور اسے ٹالنا کسی کے بس کا نہیں رہتا۔
اللہ تو کسی قوم کی حالت بدلتا نہیں جب تک خود وہ اپنی حالت بدلنے پر مائل نہ ہوجائے اور اب یہ گوری اقوام خود اپنی حالت بدلنے پر تلی ہوئی ہیں تو قدرت کے مقررہ اصولوں سے ان کے لیے روگردانی ممکن نہ ہوگی۔