پانامہ لیکس قوم کیسا فیصلہ چاہتی ہے
اب اگر آج ن لیگ کا احتساب ہو رہا ہے تو قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس پر شور کیسا۔
جے آئی ٹی کی دو ماہ کی کارروائی قریب قریب مکمل ہوچکی ہے، یقیناً آخری رپورٹ مرتب کی جارہی ہوگی جسے 10جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کردیا جائے گا، اس کے بعد عدالت عظمیٰ کے فاضل ججز مزید انوسٹی گیشن کے لیے کہیں گے، فیصلہ محفوظ کرلیں گے یا فیصلہ سنا دیں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔بہرحال پانامہ لیکس کے حوالے سے بنائی گئی جے آئی ٹی نے جس پروفیشنل انداز میں تفتیش کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، حکومتی جماعت کے سوا کسی نے تفتیش کے طریقہ کار پر اعتراض نہیں اُٹھایا ، کچھ چھوٹے موٹے اعتراضات بھی ہوئے مگر مجموعی طور پر تفتیش درست سمت میں ہوئی ۔
جے آئی ٹی کو تفتیش مکمل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے 2ماہ کا وقت دیا گیا تھا، اس عرصے میں حکمران خاندان کی6اہم شخصیات سمیت درجن بھر افراد نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے بیانات ریکارڈ کرائے، ان دوماہ میں سیاست کا بازار بھی خوب گرم رہا، کئی پیش گوئیاں کی گئیں، حکمران پارٹی کے وزراء نے اسے تاریخی احتساب قرار دیا جب کہ اپوزیشن جو پی ٹی آئی کی شکل میں سامنے آئی نے اسے حقیقی احتساب کا نام دیا اور کہا کہ ملک کی بقاء کے لیے اب یہ ضروری ہوگیاہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کا کڑا احتساب کیا جائے اور ان گندے انڈوں کو جو عوام کا پیسہ لوٹ رہے ہیں انھیں اپنی صفوں سے نکال باہر کیا جائے۔
ایسی آوازیں بھی آئیں کہ حکمران جماعت کا احتساب سوچا سمجھا منصوبہ لگ رہا ہے، کہیں سے آواز آئی کہ یہ سب امریکی ایماء پر کیا جا رہا ہے، کہیں سے آواز آئی کہ یہ کام اسٹیبلشمنٹ کا ہو سکتا ہے، کہیں سے آواز آئی کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لیے سازش کی جارہی ہے، کہیں سے یہ بھی آوازیں آتی رہیں کہ اس کام کے لیے اپوزیشن کو باہر سے فنڈنگ کی جارہی ہے۔
لیکن یہ ساری باتیں ایک طرف، محض چند سوالوں کے جواب دے دیے جائیں تو ساری صورتحال واضع ہو جائے گی کہ کیا ملک کے ادارے ٹھیک کام کر رہے ہیں؟ کیا ملک میں احتساب کے لیے جوسیٹ اپ بنایا گیا ہے وہ ٹھیک کام کررہا ہے؟ کیا ملک میں مثالی ترقی ہورہی ہے؟ کیا ملک میں بے روزگاری اور غربت پر قابو پا لیا گیا ہے؟ اور سب سے اہم یہ سوال کہ کیا پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتیں جنہوں نے 30، 32سال اس ملک پر حکمرانی کی ان کے سربراہان کے خاندانوں کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی ہے؟
اب اگر آج ن لیگ کا احتساب ہو رہا ہے تو قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس پر شور کیسا۔کیا اس ملک کے اداروں کا یہ فرض نہیں کہ وہ پوچھ سکیں کہ پیسا کہاں سے آیا؟اور یہ بھی تو حقیقت ہے جو کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ن لیگ کے دور میںعام آدمی مزید غریب کیوں ہو جاتا ہے جب کہ امیر مزید امیر کیوں ہو جاتا ہے۔
کاش یہ لوگ جتنی اپنے لیے محنت کرتے ہیں اتنی ملک کے لیے بھی کریں تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ خیر بات ہو رہی تھی جائیداد کی تو اگر مریم نواز یا حسین و حسن نواز ثبوت دے دیں تو ساری زندگی کے لیے سرخرو ہوجائیں گے لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ جب ادارے اپنا فرض ادا کر رہے ہوں تو بیک اسٹیج سیاست شروع کر دی جائے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومت کو ختم کرنے کے لیے ڈرامہ رچایا جار ہا ہے، خاتون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیوں کیا جا رہا ہے؟وغیرہ وغیرہ ۔ خواتین کی عزت سر آنکھوں پر مگر جب قوم یہ دیکھتی ہے کہ مریم نواز ایک عام شہری کی حیثیت سے جے آئی ٹی میں پیش ہونے جاتی ہے تو ایک خاتون پولیس آفیسر انھیں کس طرح سیلوٹ کر رہی ہوتی ہے۔اُن کا پروٹوکول کسی سیاسی لیڈر یا کسی بڑے افسرسے کم ہر گز نہیں تھا جسے دنیا نے بھی دیکھا ۔تو اُن کے ذہن میں خود بخود کئی سوال جنم لیتے ہیں۔
میرے خیال میں کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے ، ہر شخص ریاست کے قانون کا جواب دہ ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ ، وزیر خزانہ یا ان کے بچوں کو بلاکر اُن کی تذلیل کی گئی تو معذرت کے ساتھ یہ ایک پراسس ہے، جس سے ہر اُس شخص کو گزرنا پڑتا ہے جس نے کچھ غلط کیا ہوگا یا غلط لوگوں کا ساتھ دیا ہوگا۔
پہلی بات تو یہ ہونی چاہیے کہ الزام لگے ہی کیوں؟، یعنی آپ ایسا کام کرو ہی نا جس سے بعد میں آپ کو اورآپ کی فیملی کو خفت اُٹھانا پڑے اور جب الزام لگ گیا ہے تو پھر احتساب ہونا کوئی بُری بات نہیں ہے، فوج میں تو شاید کسی پر صرف الزام لگنے کی صورت میں اسے فارغ کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ پر الزام لگا ہی کیوں؟ اور اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اُن کے خلاف سازش ہورہی ہے جیسے حکومتی وزراء نے بہت سے اشارے بھی کیے تو میرے خیال میں اب انھیں نمبر ٹانگنے سے باز آجانا چاہیے اور اس پراسس کو سمجھنا چاہیے۔
اگر وہ اداروں پر اعتماد نہیں کریں گے تو عوام کی نظر میں ملک کے تمام ادارے ہی مشکوک ہو جائیں گے۔ اور یہ تو اس وقت حکمرانوں کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ کھل کر بتائیں کہ اُن کے خلاف سازش کون کر رہا ہے؟ میڈیا کا دور ہے ڈھکے چھپے الفاظ میں بات کر کے وہ خود مشکوک ہو رہے ہیں۔ حالانکہ تمام ادارے اسی کے ہیں، اثر و رسوخ انھی کا ہے، سورسز بھی انھی کے پاس ہیں مگر پھر بھی یہ سنا جا رہا ہے کہ کہیں سے سازش ہو رہی ہے۔ حالانکہ ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ اپوزیشن واویلا کر رہی ہوتی ہے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ اگر کسی نے جانا ہے تو بقول شاعر جانا ہی پڑے گا
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
اور رہی بات مریم نواز کی تو میرے خیال میں مریم نواز ایک سلجھی ہوئی ، بااثر خاتون ہیں اور ماشاء اللہ ن لیگ کا مستقبل بھی انھی سے وابستہ نظر آرہا ہے ۔وہ رکھ رکھاؤ بھی خوب جانتی ہیں بلکہ میں تویہاں تک کہوں گا کہ بغیر عہدہ لیے مریم نواز ملکی سیاست پر خاصے اثرات رکھتی ہیں۔ اس لیے انھیں ان چھوٹی موٹی انوسٹی گیشن سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ روٹین کی بات ہے۔ پیشی پر بلا کر اُن کی تذلیل ہر گز نہیں کی گئی ویسے بھی ملک کی وہ باعزت خواتین جو سیاست میں حصہ نہیں بھی لیتیں کیا وہ کسی نہ کسی کیس میں روزانہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتیں؟ کسی پر جائیداد کا کیس لگا ہوتا ہے تو کسی پر خلع کا کیس یا کسی پر طلاق کا کیس چل رہا ہوتا ہے۔ وہ بھی تو باعزت گھرانوں کی معزز خواتین ہوتی ہیں۔
کن کن نامور خواتین کو عدالتوں کے روبرو پیش ہونا پڑا ہے ، فاطمہ جناح سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوتی رہی ہیں، نصرت بھٹوکی مثال لے لیں وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوتی تھیں۔ بینظیر بھٹو نے بھی فوجی حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی۔ بینظیر بھٹو کو کئی دفعہ نظر بند کیا گیا تھا لیکن 1983 میں وہ پہلی دفعہ فوجی عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔1971 میں عاصمہ جہانگیر جیلانی نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی مارشل لا حکومت کے تحت حراست کو پنجاب ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور پیش ہوتی رہیں۔
مریم نواز کی والدہ کلثوم نواز بھی عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں جب 1999 میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا تھا تو انھوں نے اپنے شوہر اور بیٹے کے لیے عدالتوں کا رُخ کیا۔ 1990 میں آئی جے آئی کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کو ان کے والد عثمان فاروقی اور والدہ انیسہ فاروقی کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تاہم ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔اور اس کے بعد 1997ء میں بھی نواز شریف کے دور حکومت میںانھیں گرفتار کیا گیاتھا،اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں خواتین عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں۔
بہرکیف جے آئی ٹی کی تفتیش کے آخری لمحات چل رہے ہیں،بظاہر وزیر اعظم بہت مطمئن دکھائی دے رہے ہیں، اور اپوزیشن بھی مطمئن نظر آرہی ہے۔ کسی کو کچھ علم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ اپوزیشن بڑے بڑے دعوے کرتی نظر آرہی ہے حالانکہ دعوؤں کو فی الوقت لگام دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جب کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے قوم اس تماشے کو دیکھ رہی ہے جس کا نتیجہ نکلنے سے قاصرہے ، لہٰذاقوم ایک ایسا فیصلہ چاہتی ہے کہ اُن کا اداروں پر اعتماد بحال ہو، قوم یہ ہر گز یہ نہیں چاہتی کہ شریف فیملی کا احتساب ہو، اگر اُن کی غلطی نہیں ہے تو انھیں ایسا سرٹیفکیٹ ملنا چاہیے کہ اُن پر دوبارہ کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔
فیصلہ ایسا آنا چاہیے کہ جو لوگوں کو سمجھ آئے ایسا فیصلہ ہر گز نہ ہوجس سے لگے کہ ''درمیانی'' راستہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے ۔ اور بقول چرچل جس ملک کی عدالتیں آزاد ہوں ان ملکوں کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بس اب ایک ہی دعا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔