قبولیتِ دعا کا یقین

دعائیں مانگتے ہوئے صرف ﷲ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ دعا مانگنے والا کبھی بھی نامراد نہیں رہتا


دعائیں مانگتے ہوئے صرف ﷲ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ دعا مانگنے والا کبھی بھی نامراد نہیں رہتا۔ فوٹو : فائل

دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے مدد لے کر ہر کام کو آسان بنایا جاسکتا ہے بل کہ ہر بڑے کام کو سرانجام دینے کے لیے یہ دونوں اسوۂ حسنہؐ سے ثابت ہیں، اور یہ صدقہ اور دعا ہیں۔ ہم نے آج تک صدقے کا مفہوم اس طرح سے ہی لیا ہوا ہے کہ اس سے بلائیں ٹلتی ہیں۔

دنیوی مسائل پر صدقہ دے کر ہم خود کو مطمئن کر لیتے ہیں مگر دعاؤں کی قبولیت کے لیے کیا تگ و دو کرتے ہیں۔۔۔؟ یہ یاد رکھیے کہ دعا کا لفظی مطلب پکار ہے اس کے لیے ہاتھ اٹھانا شرط ہے نا باوضو ہو نا۔ قرآنی الفاظ پر غور فرمائیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ '' وہ لوگ جو اللہ کو کھڑے ہوکر، بیٹھ کر اور لیٹے ہوئے پہلو کے بل یاد کرتے ہیں۔''

اس فرمان میں نہ وضو کی شرط ہے اور نہ ہی ہاتھ اٹھانے کی۔ ایک بات ہمیشہ دل و دماغ میں زندہ ہونی چاہیے کہ جس دعا نے آپ کی آنکھ کو نم نہیں کیا وہ عرش کے تار کیسے ہلائے گی۔ اس لیے یہ بات یاد رکھیں کہ دعا کے مانگنے کا سلیقہ سیکھنا ضروری ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جس کو مانگنا آگیا، جب کہ بندے کا کام مانگنا ہی ہونا چاہیے اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں اور نہ مانگنے سے وہ راضی نہیں ہوتے ہیں۔ پھر بندے کو جب مانگنا آجاتا ہے تو بندے کو رب کی رضا کا بھید بھی مل ہی جاتا ہے۔

اٹھتے بیٹھتے اپنے رب سے سرگوشیاں (دعائیں) کرتے رہا کرو، یہ بھی دعا کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ اپنی دعاؤں کی درخواست پیش کرنے سے پہلے صدقہ اور رزق حلال لازم ہے، کیوں کہ حرام مال کمانے اور کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ دعا مانگنے کے لیے صبر بھی درکار ہوتا ہے جب کہ ہم ایک یا دو دن رٹے رٹائے جملے کہہ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب دعا کو بس قبول ہوجانا چاہیے۔ جب کہ دعا کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کام صرف دعا مانگنا ہے قبولیت اللہ کے ذمے ہے اور یہ اسی کا کام ہے۔ بس ہمیں تو دعا مانگنے کے لوازمات کا خیال رکھنا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ دعا قبول ہو یا نہ ہو ہمیں دعائیں اللہ تعالیٰ کی جناب میں کرتے رہنا چاہیے۔

کیوں کہ اللہ رب العزت نے دو ٹوک الفاظ میں یہ فرما دیا ہے: ''مجھے پکارو میں قبول کرتا ہوں۔'' لہٰذا اس کے بعد دعا قبول نہ ہونے کی صورت باقی نظر نہیں آتی۔ دعا سے متعلق اسی قسم کی خوشہ چینی بھی نہیں کرنی چاہیے کہ ہماری تو دعا قبول ہی نہیں ہوتی یا ہماری تو خدا سنے گا ہی نہیں۔ ایسے کلمات بندے کو اپنے منہ سے نہیں نکالنے چاہئیں۔

ہمارا ایمان تو یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسی قدرت والے ہیں کہ اگر ساری دنیا کے سارے ہی لوگ اور یہ سارے لوگ ایک ہی لمحے میں اپنی ماں بولی میں دعائیں مانگیں تو ہمارا رب ان سب کی دعائیں سننے پر قادر ہے بل کہ ان تمام دعاؤں کو قبول کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ دعا مانگنے والا کبھی بھی نامراد نہیں رہتا ہے۔ دعا تو بس قبول ہی ہوتی ہے لیکن اس حدیث کے مفہوم کے مطابق اس کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے: '' بے شک تمہارا رب حیا اور کرم والا ہے۔ جب اس کی جناب میں کوئی ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ ان کو خالی لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے۔''

جو بھی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس دعا کے بدلے اپنے بندے کو تین چیزوں میں سے ایک چیز عطا کرتا ہے یا تو اس کی دعا کو جلد قبول کرلیتا ہے۔ یا اس دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیتا ہے۔ یا اس جیسی برائی کو اس سے دور کردیتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے کہا پھر تو ہم زیادہ دعائیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ کا فضل بھی بہت زیادہ ہے۔''

لہٰذا آج کے بعد ہم میں سے کسی کے بھی ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی بل کہ ہم سب کے ذہن میں یہ خیال ہمیشہ رہے کہ ہماری دعائیں ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول ضرور ہوتی ہیں۔ اللہ کے ہاں اس کے بندے کی نیت اور گمان بہت اہم ہیں اس لیے دعاؤں کے سلسلے میں بدگمانی سے بچو اور اپنی دعاؤں کی قبولیت سے متعلق نیت نیک اور بہتر رکھیں۔

دعا مانگنے کے بعد یہ تین صورتیں ہیں جو ہمیں نصیب ہوتی ہیں۔ وہی چیز مل جانا جس کی دعا مانگی گئی تھی۔ وہ چیز تو نہ ملے مگر اس کے بہ جائے اس پر آنے والی مصیبت آفت یا بلا ٹال دی جائے۔ مصیبت بھی نہ ٹلے لیکن اس دعا کو آخرت میں میزان عمل میں ڈالنے کے لیے جمع کردیا جائے گا۔ اس طرح ہمیں دعائیں مانگنے کے بعد مطمئن ہوجانا چاہیے کہ ہماری دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ اس لیے دعاؤں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور دعائیں کیسے مانگنی چاہییں اس پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ دعائیں مانگتے ہوئے صرف اور صرف اللہ رب العزت کی طرف ہی متوجہ ہونا چاہیے اور کسی بھی دوسری طرف توجہ نہیں جانی چاہیے۔

اے اللہ اپنی رضا، اپنی ہدایت اور اپنی طرف سے عافیت عطا فرما۔ ہمارے نبی اکرمؐ کی ساری امت کو ذلت اور گم راہی اور گناہوں سے محفوظ فرما دے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں