اسلام کا تصور معاشرت
رسولِِ اکرمؐ کا فرمان ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔
معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے، دین اسلام نے معاشرے کی تشکیل و تنظیم کے لیے بھی باقاعدہ اصول وضع کیے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پید ا کیا اور اسی سے اس کے جوڑے کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔
اس آیت سے دو اصول نکلتے ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام انسان نفسِ واحدہ سے پیدا ہوئے لہذا برابر ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس اخوت کا قیام و دوام تعلق باللہ پر منحصر ہے۔ اسلامی معاشرہ انہی دو اصولوں پر قائم ہے۔ اسلام کا معاشرتی نصب العین یہ ہے کہ زندگی کی ضرورتوں اور کفالتوں میں سارے انسان ایک برادری کے مانند ہیں اور اس خاص دائرے میں زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ خود توحید کا عقیدہ نسل انسانی کی شیرازہ بندی کو مستحکم کرتا ہے۔
رسولِِ اکرمؐ کا فرمان ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ نسل انسانی کی وحدت کے اس استحکام کے لیے روحانی دعوت کو خاص اہمیت دی گئی ہے کیوں کہ صرف مادی وسائل کے ذریعے جو شیرازہ بندی ہوتی ہے وہ یقینی نہیں ہوسکتی، اس لیے روحانی عقیدوں کے ذریعے وحدت و تنظیم پر زور دیا گیا ہے۔ یہی کام انبیائے کرامؑ کرتے رہے اور اس سلسلے کی آخری دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی۔ اسلامی معاشرے کی ابتدا مدینے میں ہوئی جس میں مہاجرین و انصار اور اہل کتاب کو ایک تنظیم کی شکل دی گئی۔ اس سے ایسی عظیم بنیاد بنی جو دنیا بھر میں مندرجہ ذیل خصائص کے لیے امتیاز رکھتی ہے۔
٭ مساوات: رنگ، نسل، قبیلہ اور ذات پات کو ترک کرکے تقویٰ کو فضیلت قرار دیا گیا ہے۔
٭ بنیادی انسانی ضرورتوں میں سب کے ساتھ برابری کا سلوک۔
٭ انسانی حاکمیت کی جگہ اللہ کی حاکمیت قائم کر کے سب انسانوں کے لیے عدل و انصاف کی صورت مہیا کرنا، اسلام نے رواداری اور آزادیٔ ضمیر کا اعلان کیا، دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا یقین دلایا۔ اسلام نے ایفائے عہد کو لازم قرار دیا اور معاشرتی زندگی کی ایسی تنظیم کی جو افراط و تفریط سے محفوظ ہے۔ اسلامی معاشرہ رنگ، نسل اور علاقے کے تعصبات سے بالاتر ہے۔ اسلام میں ذات پات کی کوئی اہمیت نہیں، چناں چہ گورے کو کالے پر یا عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ قبائل و شعوب کی بنا پر کسی پر برتری ہے بل کہ اللہ تعالی کے نزدیک صرف تقوی ہی باعث فضیلت ہے۔ قبائل و شعوب تو محض تعارف کے لیے ہیں۔ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک وجود سے پیدا کیا۔ اس آیت میں ایک نسلی وحدت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اسلام نے جذبۂ اخوت اسلامی پر بڑا زور دیا ہے تاکہ صالح معاشرے کے قیام و استحکام میں مدد ملے۔
ارشاد الہی جس کا مفہوم یہ ہے: تمام مومن بھائی بھائی ہیں، ان کے مابین صلح و مصالحت کی کوشش کرو، اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم ہو۔
اسی طرح ارشاد ہے : اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اخوت کی یہ روح معاشرے کے تمام اعمال و مظاہر میں منعکس ہے۔ اسی سے وہ مساوات پیدا ہوئی جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ اس کی ایک مختلف اور نمایاں مثال اسلام کی ایک عظیم عبادت حج میں ملتی ہے۔ اس موقع پہ مختلف اقوام اور افراد کی ایک شخصی حیثیت کالعدم ہو جاتی ہے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ نے الفاروق میں لکھا ہے کہ شام کا امیر جبلہ غسانی جس نے حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں اسلام قبول کرلیا تھا، ایک بار حج کے دوران کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ اچانک اس کی چادر کے گوشے پر ایک بدوی کا پاؤں جا پڑا۔ جبلہ نے طیش میں آ کر اس بدوی کے تھپڑ مارا۔ اس بدوی نے یہ معاملہ حضرت عمرؓ کے رو بہ رو پیش کیا۔ انہوں نے فیصلہ دیا کہ جوابا وہ بدوی بھی امیر جبلہ کو تھپڑ مارے۔ اس پر جبلہ نے کہا کہ ہم تو وہ ہیں کہ اگر کوئی شخص ہم سے گستاخی کے ساتھ پیش آئے تو وہ قتل کا سزاوار ٹھہرتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جاہلیت میں ایسا تھا مگر اسلام نے شاہ و گدا اور پست و بلند کو ایک کردیا۔
احترام آدمیت اسلامی معاشرے کا دوسرا اہم اصول ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کی اور انہیں پاکیزہ جگہوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت بخشی۔ اسلام نے انسان کی حیثیت، عزت و حرمت تسلیم کروائی ہے۔ ماں باپ، بیوی وغیرہ اور دیگر افراد خاندان کو جذبات اور انسانی بنیادوں پر اہم مرتبہ دیا۔ مرد کو امورِ زندگی کا نقیب قرار دیا اور عورت کو مرد کا مونث قرار دے کر اسے باوقار حیثیت دی۔ غلام کو آزادی کی بشارت دی، مسکین کی دل داری کی، مسافر کی حفاظت و مہمان داری اور کفالت کی، یتیم کو عزت کا مقام بخشا، ہمسائے کے ساتھ ہم دردی پیدا کی، بیوہ کو باعزت زندگی کا پورا حق دیا۔ احترام انسانیت کے سلسلے میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ اسلام نے غلامی کے مسئلے کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے حل کیا۔
اور اس رسم قبیح کو جو دنیا میں راسخ تھی بڑی حکمت سے مٹایا۔ اسلام نے غلاموں کو اپنے آزاد آقاؤں کے برابر کر دیا۔ آزاد مسلم آقاؤں نے بھی ان کے ساتھ کسی قسم کا فرق روا نہ رکھا۔ وہ اپنے غلاموں کو ایک ہی دستر خوان پر ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلا تے تھے۔ اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر بام عزت تک پہنچنے کے مواقع عطا کیے اور ان کے ذہن سے احساس کم تری کو دور کیا۔ غلاموں اور لونڈیوں کو معاشرے میں بڑا شریفانہ اور باعزت مقام دلایا۔ فتح مکہ کے بعد اذان دینے کا شرف بھی حضرت بلال حبشیؓ کے حصے میں آیا، اور جب سرداران قریش کو یہ بات ناگوار گزری تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آیت نازل فرما کر مساوات کا درس دیا اور وضاحت کردی کہ بزرگی اور عزت کا معیار خاندان نہیں، بل کہ تقوی اور ذاتی نیکی ہے۔
اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کے فضائل پر زور دیا ہے اور ان کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ زکوۃ کی آمدنی کی ایک خاص مد کو اس طبقے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ یہ رقم غلاموں کو آزادی دلانے پر صرف کی جائے۔ عام طور پر کسی غلام کو آزاد کرنے کی پوری قیمت یا اس کی آزادی کا معاوضہ ادا کرنا ہر شخص برداشت نہیں کر سکتا اس لیے زکوۃ کی مجموعی رقم سے اجتماعی طور پر اس فرض کو ادا کرنے کی صورت تجویز کی گئی ہے۔
اسلام نے غلاموں کے حقوق کی رعایت پر اس قدر زور دیا ہے اور ایسے احکام و قوانین نافذ کیے ہیں کہ غلامی، غلامی نہ رہی بل کہ معاشرے کا ایک مساویانہ عنصر بن گئی۔ یہی نہیں بل کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی حفاظت کی یعنی ان کی جان، مال اور دین کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ مثال کے طور پر حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کے عیسائیوں کو ازروئے معاہدہ جو حقوق دیے ان کی تفصیل یہ ہے۔
یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمرؓ نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان جان، مال، گرجا، صلیب، تن درست، بیمار اور ان کے تمام اہل مذہب کے لیے ہے، اس لیے نہ ان کے معبدوں میں سکونت اختیار کی جائے گی اور نہ وہ منہدم کیے جائیں گے۔ نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور نہ ان کے مال میں کچھ تخفیف کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔
یہ حقوق صرف اہل ایلیا کے لیے مخصوص نہ تھے بل کہ تمام مفتوحہ اقوام کو دیے گئے اور دیے جاتے رہے اور ان کے عہد ناموں میں موجود ہیں۔ قرآن مجید میں اسلام نے معاشرے کے لیے جس ماحول کی تشکیل کی اس سے بعض خاص صفات کا انسان سامنے آتا ہے۔ یہ صفات دو لفظوں میں یوں بیان کی جا سکتی ہیں : متقی اور صالح۔ متقی سے مراد وہ انسان ہے جو اللہ کے خوف سے گناہ کی ہر شکل سے اجتناب کی کوشش کرے اور صالح سے مراد وہ انسان ہے جو تمام اعمال صالحہ بجا لانے کی سعی کرے جن سے حیات میں پاکیزگی، معاشرے میں نیکی اور زندگی کے نیک مقاصد کو ترقی نصیب ہو سکتی ہے۔
اسلام میں اعمال صالحہ کی بڑی اہمیت ہے اور اس سے مراد صرف عبادات نہیں بل کہ زندگی کے وہ تمام انفرادی اور اجتماعی اعمال ہیں جن کا مقصد معرفتِ حقائق الہیہ کے ذریعے رضائے الہی کا حصول، خدا کے بندوں کی خیر خواہی، نیکی کی حدود کی توسیع، برائی کا استحصال اور برتر معاشرے کا قیام ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صالح انسان یعنی مسلمان، اپنی زندگی کے ساتھ علم و حکمت، مستعد اور سرگرم عمل اور باجلال مگر شفیق انسان ہوگا۔ قرآن کے تصور عمل میں نیک مقاصد کے لیے ہر سعی کے علاوہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ہر اقدام شامل ہے، معرفت حقائق سے لے کر تسخیر کائنات تک اور جہاد نفس سے لے کر منکرات کے خلاف جہاد بالسیف تک ہر عمل اس انسان کے کردار کا جُز ہوگا جس پر اسلام کے معاشرتی اصول زور دیتے ہیں۔
(امجد علی رشید)
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پید ا کیا اور اسی سے اس کے جوڑے کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔
اس آیت سے دو اصول نکلتے ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام انسان نفسِ واحدہ سے پیدا ہوئے لہذا برابر ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس اخوت کا قیام و دوام تعلق باللہ پر منحصر ہے۔ اسلامی معاشرہ انہی دو اصولوں پر قائم ہے۔ اسلام کا معاشرتی نصب العین یہ ہے کہ زندگی کی ضرورتوں اور کفالتوں میں سارے انسان ایک برادری کے مانند ہیں اور اس خاص دائرے میں زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ خود توحید کا عقیدہ نسل انسانی کی شیرازہ بندی کو مستحکم کرتا ہے۔
رسولِِ اکرمؐ کا فرمان ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ نسل انسانی کی وحدت کے اس استحکام کے لیے روحانی دعوت کو خاص اہمیت دی گئی ہے کیوں کہ صرف مادی وسائل کے ذریعے جو شیرازہ بندی ہوتی ہے وہ یقینی نہیں ہوسکتی، اس لیے روحانی عقیدوں کے ذریعے وحدت و تنظیم پر زور دیا گیا ہے۔ یہی کام انبیائے کرامؑ کرتے رہے اور اس سلسلے کی آخری دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی۔ اسلامی معاشرے کی ابتدا مدینے میں ہوئی جس میں مہاجرین و انصار اور اہل کتاب کو ایک تنظیم کی شکل دی گئی۔ اس سے ایسی عظیم بنیاد بنی جو دنیا بھر میں مندرجہ ذیل خصائص کے لیے امتیاز رکھتی ہے۔
٭ مساوات: رنگ، نسل، قبیلہ اور ذات پات کو ترک کرکے تقویٰ کو فضیلت قرار دیا گیا ہے۔
٭ بنیادی انسانی ضرورتوں میں سب کے ساتھ برابری کا سلوک۔
٭ انسانی حاکمیت کی جگہ اللہ کی حاکمیت قائم کر کے سب انسانوں کے لیے عدل و انصاف کی صورت مہیا کرنا، اسلام نے رواداری اور آزادیٔ ضمیر کا اعلان کیا، دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا یقین دلایا۔ اسلام نے ایفائے عہد کو لازم قرار دیا اور معاشرتی زندگی کی ایسی تنظیم کی جو افراط و تفریط سے محفوظ ہے۔ اسلامی معاشرہ رنگ، نسل اور علاقے کے تعصبات سے بالاتر ہے۔ اسلام میں ذات پات کی کوئی اہمیت نہیں، چناں چہ گورے کو کالے پر یا عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ قبائل و شعوب کی بنا پر کسی پر برتری ہے بل کہ اللہ تعالی کے نزدیک صرف تقوی ہی باعث فضیلت ہے۔ قبائل و شعوب تو محض تعارف کے لیے ہیں۔ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک وجود سے پیدا کیا۔ اس آیت میں ایک نسلی وحدت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اسلام نے جذبۂ اخوت اسلامی پر بڑا زور دیا ہے تاکہ صالح معاشرے کے قیام و استحکام میں مدد ملے۔
ارشاد الہی جس کا مفہوم یہ ہے: تمام مومن بھائی بھائی ہیں، ان کے مابین صلح و مصالحت کی کوشش کرو، اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم ہو۔
اسی طرح ارشاد ہے : اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اخوت کی یہ روح معاشرے کے تمام اعمال و مظاہر میں منعکس ہے۔ اسی سے وہ مساوات پیدا ہوئی جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ اس کی ایک مختلف اور نمایاں مثال اسلام کی ایک عظیم عبادت حج میں ملتی ہے۔ اس موقع پہ مختلف اقوام اور افراد کی ایک شخصی حیثیت کالعدم ہو جاتی ہے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ نے الفاروق میں لکھا ہے کہ شام کا امیر جبلہ غسانی جس نے حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں اسلام قبول کرلیا تھا، ایک بار حج کے دوران کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ اچانک اس کی چادر کے گوشے پر ایک بدوی کا پاؤں جا پڑا۔ جبلہ نے طیش میں آ کر اس بدوی کے تھپڑ مارا۔ اس بدوی نے یہ معاملہ حضرت عمرؓ کے رو بہ رو پیش کیا۔ انہوں نے فیصلہ دیا کہ جوابا وہ بدوی بھی امیر جبلہ کو تھپڑ مارے۔ اس پر جبلہ نے کہا کہ ہم تو وہ ہیں کہ اگر کوئی شخص ہم سے گستاخی کے ساتھ پیش آئے تو وہ قتل کا سزاوار ٹھہرتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جاہلیت میں ایسا تھا مگر اسلام نے شاہ و گدا اور پست و بلند کو ایک کردیا۔
احترام آدمیت اسلامی معاشرے کا دوسرا اہم اصول ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کی اور انہیں پاکیزہ جگہوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت بخشی۔ اسلام نے انسان کی حیثیت، عزت و حرمت تسلیم کروائی ہے۔ ماں باپ، بیوی وغیرہ اور دیگر افراد خاندان کو جذبات اور انسانی بنیادوں پر اہم مرتبہ دیا۔ مرد کو امورِ زندگی کا نقیب قرار دیا اور عورت کو مرد کا مونث قرار دے کر اسے باوقار حیثیت دی۔ غلام کو آزادی کی بشارت دی، مسکین کی دل داری کی، مسافر کی حفاظت و مہمان داری اور کفالت کی، یتیم کو عزت کا مقام بخشا، ہمسائے کے ساتھ ہم دردی پیدا کی، بیوہ کو باعزت زندگی کا پورا حق دیا۔ احترام انسانیت کے سلسلے میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ اسلام نے غلامی کے مسئلے کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے حل کیا۔
اور اس رسم قبیح کو جو دنیا میں راسخ تھی بڑی حکمت سے مٹایا۔ اسلام نے غلاموں کو اپنے آزاد آقاؤں کے برابر کر دیا۔ آزاد مسلم آقاؤں نے بھی ان کے ساتھ کسی قسم کا فرق روا نہ رکھا۔ وہ اپنے غلاموں کو ایک ہی دستر خوان پر ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلا تے تھے۔ اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر بام عزت تک پہنچنے کے مواقع عطا کیے اور ان کے ذہن سے احساس کم تری کو دور کیا۔ غلاموں اور لونڈیوں کو معاشرے میں بڑا شریفانہ اور باعزت مقام دلایا۔ فتح مکہ کے بعد اذان دینے کا شرف بھی حضرت بلال حبشیؓ کے حصے میں آیا، اور جب سرداران قریش کو یہ بات ناگوار گزری تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آیت نازل فرما کر مساوات کا درس دیا اور وضاحت کردی کہ بزرگی اور عزت کا معیار خاندان نہیں، بل کہ تقوی اور ذاتی نیکی ہے۔
اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کے فضائل پر زور دیا ہے اور ان کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ زکوۃ کی آمدنی کی ایک خاص مد کو اس طبقے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ یہ رقم غلاموں کو آزادی دلانے پر صرف کی جائے۔ عام طور پر کسی غلام کو آزاد کرنے کی پوری قیمت یا اس کی آزادی کا معاوضہ ادا کرنا ہر شخص برداشت نہیں کر سکتا اس لیے زکوۃ کی مجموعی رقم سے اجتماعی طور پر اس فرض کو ادا کرنے کی صورت تجویز کی گئی ہے۔
اسلام نے غلاموں کے حقوق کی رعایت پر اس قدر زور دیا ہے اور ایسے احکام و قوانین نافذ کیے ہیں کہ غلامی، غلامی نہ رہی بل کہ معاشرے کا ایک مساویانہ عنصر بن گئی۔ یہی نہیں بل کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی حفاظت کی یعنی ان کی جان، مال اور دین کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ مثال کے طور پر حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کے عیسائیوں کو ازروئے معاہدہ جو حقوق دیے ان کی تفصیل یہ ہے۔
یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمرؓ نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان جان، مال، گرجا، صلیب، تن درست، بیمار اور ان کے تمام اہل مذہب کے لیے ہے، اس لیے نہ ان کے معبدوں میں سکونت اختیار کی جائے گی اور نہ وہ منہدم کیے جائیں گے۔ نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور نہ ان کے مال میں کچھ تخفیف کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔
یہ حقوق صرف اہل ایلیا کے لیے مخصوص نہ تھے بل کہ تمام مفتوحہ اقوام کو دیے گئے اور دیے جاتے رہے اور ان کے عہد ناموں میں موجود ہیں۔ قرآن مجید میں اسلام نے معاشرے کے لیے جس ماحول کی تشکیل کی اس سے بعض خاص صفات کا انسان سامنے آتا ہے۔ یہ صفات دو لفظوں میں یوں بیان کی جا سکتی ہیں : متقی اور صالح۔ متقی سے مراد وہ انسان ہے جو اللہ کے خوف سے گناہ کی ہر شکل سے اجتناب کی کوشش کرے اور صالح سے مراد وہ انسان ہے جو تمام اعمال صالحہ بجا لانے کی سعی کرے جن سے حیات میں پاکیزگی، معاشرے میں نیکی اور زندگی کے نیک مقاصد کو ترقی نصیب ہو سکتی ہے۔
اسلام میں اعمال صالحہ کی بڑی اہمیت ہے اور اس سے مراد صرف عبادات نہیں بل کہ زندگی کے وہ تمام انفرادی اور اجتماعی اعمال ہیں جن کا مقصد معرفتِ حقائق الہیہ کے ذریعے رضائے الہی کا حصول، خدا کے بندوں کی خیر خواہی، نیکی کی حدود کی توسیع، برائی کا استحصال اور برتر معاشرے کا قیام ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صالح انسان یعنی مسلمان، اپنی زندگی کے ساتھ علم و حکمت، مستعد اور سرگرم عمل اور باجلال مگر شفیق انسان ہوگا۔ قرآن کے تصور عمل میں نیک مقاصد کے لیے ہر سعی کے علاوہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ہر اقدام شامل ہے، معرفت حقائق سے لے کر تسخیر کائنات تک اور جہاد نفس سے لے کر منکرات کے خلاف جہاد بالسیف تک ہر عمل اس انسان کے کردار کا جُز ہوگا جس پر اسلام کے معاشرتی اصول زور دیتے ہیں۔
(امجد علی رشید)