فیس بک پر گستاخانہ مواد امتِ مسلمہ کیلئے تشویش ناک امر ہے چوہدری نثار

فیس بک کے نائب صدر نے چوہدری نثار کو نفرت آمیز اور غیراخلاقی مواد ہٹانے کی یقین دہانی بھی کرائی


ویب ڈیسک July 07, 2017
وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار فیس بک کے نائب صدر جوئل کپلان سے ملاقات کررہے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ ریڈیو پاکستان

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فیس بک کے نائب صدر جوئل کپلان سے ملاقات میں کہا ہے کہ فیس بک پر اسلام مخالف اور گستاخانہ مواد کی موجودگی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے تشویش ناک امر ہے۔

وزیرِ داخلہ سے فیس بک کے اعلیٰ عہدیدار جوئل کپلان نے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ اس موقع پر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے پر مکمل یقین رکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر توہین آمیز اور گستاخانہ مواد بڑی تعداد اب بھی دیکھا جا سکتا ہے جو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ امر مسلمانوں کے لیے تشویش ناک ہے۔

اس موقع پر فیس بک کے نائب صدر جوئل کپلان نے کہا کہ وہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مزید محفوظ اور پاکستانی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں گے۔ چوہدری نثار نے بتایا کہ پاکستان میں فیس بک کے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ یوزرز ہیں لیکن ہمارے نزدیک اسلام اور اس کی پاکیزہ ہستیاں سب سے زیادہ محترم اور مقدم ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے وزارتِ اطلاعات و نشریات کی جانب سے ویب سروس فراہم کرنے والے اداروں کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال روکنے کے اقدامات کا ذکر بھی کیا۔

جوئل کپلان نے وزیر داخلہ کو یقین دلایا کہ وہ نہ صرف جعلی اکاؤنٹس بند کر دیں گے بلکہ دہشت گردی اور تشدد کی وجہ بننے والے نفرت آمیز اور غیراخلاقی مواد ہٹانے کی کوشش بھی کریں گے۔ اس موقع پر فیس بک کے نائب صدر نے کہا کہ پاکستان میں حال ہی میں ' آئی چیمپ' کے نام سے ڈیجیٹل خواندگی مہم شروع کی گئی ہے جس کے تحت سیکنڈری اسکول کے طلبا و طالبات اور نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے محفوظ اور مفید استعمال کی تربیت فراہم کی جائے گی۔

اس پروگرام کی تائید میں فیس بک کا فری بیسک پروجیکٹ بھی کام کرے گا جس کے تحت گلگت بلتستان سمیت ملک کے چاروں صوبوں کے 76 اضلاع میں 6 لاکھ سے زائد افراد کو مفت کتابیں اور مواد بھی فراہم کیا جائے گا۔

اس سے قبل وفاقی وزیرِ داخلہ نے مارچ میں اسلامی ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں فیس بک پر موجود توہین آمیز اور نفرت انگیز مواد پر اپنے تحفظات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔