اختلافات اور ناراضگی کا زور

لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کے بعض فیصلوں سے مقامی سیاست میں سرگرم خاندانوں میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔


Mahmood Pathan February 05, 2013
پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے الطاف حسین انڑ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ فوٹو : فائل

لاڑکانہ کے انڑ خاندان میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے صورت حال انتہائی گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کا باقرانی تحصیل کا انڑ خاندان لاڑکانہ کی سیاست میں اہمیت رکھتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ صدر زرداری اور فریال تالپور کی ہدایت پر صوبائی وزیر بلدیات آغا سراج درانی نے کوشش کی اور کام یاب رہے، انڑ خاندان کی بااثر شخصیت اور مسلم لیگ ق کے مرکزی نائب صدر حاجی الطاف حسین انڑ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی، لیکن حاجی الطاف انڑ کی شمولیت پر باقرانی میں گذشتہ چالیس سال سے پیپلز پارٹی سے وفاداری کا دم بھرنے والا سیال خاندان پارٹی قیادت کے اس فیصلے سے مطمئن نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیال خاندان حاجی الطاف انڑ کے سیاسی حریف رہے ہیں اور مشرف دور حکومت میں ق لیگ کے ٹکٹ پر پی ایس 35 سے منتخب حاجی الطاف حسین انڑ کو پیپلز پارٹی کے ایم پی اے غلام سرور سیال نے 2008 کے عام انتخابات میں 13 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی، لیکن حاجی الطاف حسین انڑ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اور ان کی موجودگی میں سیال خاندان کو پی ایس 35 پر ٹکٹ ملنے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

تاہم الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پی ایس 35 باقرانی سے ایم پی اے غلام سرور سیال کی جگہ ان کے بھتیجے سہیل انور سیال پارٹی کی ٹکٹ کے لیے سامنے آئیں گے۔ وہ کافی عرصہ سے اپنے حلقے میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سہیل انور سیال کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان پیپلز پارٹی سے وفادار تھا اور رہے گا، انڑ خاندان کے ساتھ سیاسی اختلاف ہیں، انہوں نے پارٹی قیادت پر اعتماد کر کے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، اب انتخابات میں پارٹی قیادت کا ٹکٹ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ منظور ہوگا۔ ذرایع کے مطابق پیپلز پارٹی حاجی الطاف حسین انڑ کو پارٹی ٹکٹ دے گی، جس پر ان کے بیٹے عادل الطاف انڑ الیکشن لڑیں گے، الطاف انڑ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر جہاں سیال خاندان کو اعتراض تھے، وہیں الطاف انڑ کے بھائی حاجی غلام حسین انڑ کے بیٹے شفقت انڑ بھی پیپلز پارٹی چھوڑ کر فنکشنل لیگ میں جا چکے ہیں جب کہ دوسرے بھائی علی ڈنو انڑ کے بیٹے اللہ بخش عرف ڈاڈو انڑ نے بھی پیپلز پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں اللہ بخش انڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ جب میرے چچا الطاف انڑ ق لیگ کی جانب سے 2004 میں صوبائی وزیر برائے پاور اینڈ رلیف تھے تب میں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، اس وقت میرے چچا نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اپنے بنگلے پر خود ہی راکٹ لانچر سے حملہ کروا کر میرے خلاف مقدمہ درج کروایا اور میری لاڑکانہ میں اسٹیشن روڈ پر واقع رہائش گاہ پر بھی قبضہ کیا۔ اب انہی کی پارٹی میں شمولیت پر حیرت ہے۔ حاجی الطاف انڑ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر ڈوکری سے تعلق رکھنے والے بگھیو خاندان کے ایم این اے نظیر بگھیو اور سابق ایم این اے حزب اللہ بگھیو بھی پارٹی کی اعلا قیادت سے شکایات کرتے دکھائی دیے، لیکن حیران کن طور پر انڑ اور بگھیو خاندان کا معاملہ حل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے بہ جائے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے درگاہ عالیہ مشوری شریف کے گدی نشین پیر شفیع محمد مشوری نے کردار ادا کیا اور صلح کرائی۔

لاڑکانہ میں خاص طور تحصیل باقرانی کی سطح پر مسلم لیگ ق کے ڈویژنل صدر بابو سرور سیال اور پیپلز پارٹی میڈیا سیل لاڑکانہ کے انچارج معشوق علی جتوئی پی ایس 35 سے الیکشن لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ بابو سرور سیال نے پچھلے دنوں باقرانی کے دیہاتوں خیر محمد آریجا، وکڑو، ہٹڑی، عثمان کلہوڑو، یارو لاکھیر اور دیگر دیہاتوں کے ہنگامی دورے کیے اور کارنر میٹنگز کر کے انتخابی مہم جاری رکھی ہوئی ہے، بابو سرور سیال کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی باقرانی تحصیل کی سطح پر انتہائی مشکلات کا شکار ہے اور وہ اب تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر پائی ہے کہ الیکشن ٹکٹ کس کو دیا جائے، لیکن قاف لیگ کی جانب انہیں صوبائی حلقہ پی ایس 35 اور قومی حلقہ این اے 204 پر امیدوار نام زد کر دیا گیا ہے۔

2008 کے عام انتخابات میں صوبائی حلقہ پی ایس 35 سے 9 امیدواروں نے الیکشن لڑا، نتائج کے مطابق قاف لیگ کے ٹکٹ پر الطاف حسین انڑ نے 18672، نواز لیگ کی ٹکٹ پر بابو سرفراز جتوئی نے 53، ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر ارشاد بیگم کلہوڑو نے 72، جب کہ پیپلز پارٹی کے غلام سرور سیال نے 31962 ووٹ حاصل کیے تھے، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انتخابات میں ہم دردانہ طور پر عوام کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی جانب تھا، جس کے باعث پیپلز پارٹی کے غلام سرور سیال نے حاجی الطاف انڑ کو شکست دی تھی، تاہم اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے اور نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔