ہجرت

مجموعی طورپرہماری ریاست کوہم لوگوں نے بہت محنت بلکہ جدوجہدسے ناکام بنانے کی بھرپورکوشش کی ہے


راؤ منظر حیات July 08, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: ہرسال پاکستان سے دس لاکھ کے قریب شہری ہجرت کرتے ہیں۔ایک مستند تعلیمی ادارے کی تحقیق کے مطابق یہ شرح ہرسال بڑھتی جارہی ہے۔اس حساب سے روزانہ ڈھائی ہزارافرادہمیشہ کے لیے مادرِوطن چھوڑکرکسی غیرملک کے مستقل باسی بننے کی راہ پرگامزن ہوجاتے ہیں۔یہ شرح غیرمعمولی حدتک بلندہے۔ایساکیوں ہو رہا ہے۔وہ کیا محرکات ہیں کہ کوئی شہری اپناملک چھوڑنے پر مجبورہوجاتاہے۔یہ جاننااورسمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ تارکین وطن دراصل کون ہیں۔ملک میں کسی مجبوری سے رہنے والے یاوطن کواپنے سینے میں یادکے طور پر اسموکر ملک چھوڑنے والے۔ مزدور سے لے کرڈاکٹر، انجینئر، بینکر اوردیگرشعبوں کے لوگ اس طویل فہرست میں شامل ہیں جوکسی بھی جگہ ترتیب نہیں دی گئی۔مگرہرایک کے ذہن میں یہ فہرست موجودہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس طرف دھیان نہیں دے رہاکہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔کیاعام لوگوں کی مشکلات کم کی جاسکتی ہیں۔ جذباتیت سے سوچاجائے یہ تمام وجوہات بے سروپاسی ہیں،شائدیہودوہنودکی پیداکردہ۔ویسے پاکستان میں لوگوں کے ذہن میں ایک نکتہ راسخ کردیاگیاہے کہ دنیا کے تمام غیرمسلم صبح اُٹھتے ہیں توسرجوڑکربیٹھ جاتے ہیں کہ آج پاکستان کے خلاف کیاکرناہے۔پوری دنیاکے قائدین کوکوئی اورکام نہیں، بس وہ ہمارے خلاف سازش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔یہ تھیوری یانکتہ حددرجہ مبالغہ پرمبنی ہے۔ہماراملک توچل ہی غیرمسلم ممالک اور اداروں کی مالی خیرات یاٹکڑوں پرہے۔کڑواسچ یہ ہے کہ ہم لوگ یعنی پاکستان کے شہری،خواہ کسی بھی سطح کے ہوں، اپنے ملک کی جڑیں کاٹنے میں ہرلمحہ مصروف کارہیں۔کوئی ادارہ یاشخص استثناء نہیں۔باتیں کچھ مگرایجنڈاکوئی اور۔ حقیقت پسندی سے سوچاجائے توملکی حالات گزشتہ چالیس برسوں میں اس درجہ مخدوش ہوئے ہیں کہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ملک سے ہجرت کرنے کے متعلق سوچنا شروع کرچکے ہیں۔ دس بارہ فیصداپنی سوچ کوحقیقت میں بدل کرغیرملکوں کے شہری بن جاتے ہیں۔

مستندتحقیق کے مطابق نوجوانوں کی اڑتالیس فیصد تعداداپنے ملک میں نہیں رہناچاہتی۔وجہ بالکل سادہ سی ہے۔بیروزگاری اورروزگار حاصل کرنے کے جائزذرایع اس درجہ کم ہیں کہ نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کی اکثریت پوری زندگی نوکری تلاش کرتے کرتے گزاردیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سچ بولنے پراَن دیکھی پابندی ہے لہذاکوئی تلخ بات نہیں کرپاتا۔بیروزگاری وہ دیمک ہے جوقابلیت،اہلیت اورایمانداری کوبڑے آرام سے چاٹ کرختم کرڈالتی ہے۔نوجوان طبقہ روزگارنہ ہونے کی بدولت ذہنی مسائل کاشکاربنتاجارہاہے۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پورے ملک میں روزگارکیوں اتناکم ہے۔ہم جو مرضی دعویٰ کریں۔ملکی ترقی اس شرح کی ہے ہی نہیں،جو تمام نوجوانوں کوکسی بھی طرح کی ملازمتیں دینے میں مددگارثابت ہو۔چالیس سالوں سے بھاری صنعتی کارخانے نہیں لگاپائے۔وہی روایتی سے کارخانے۔کپڑا،کھیلوں کا سامان اورچندمختصرسی دیگرمصنوعات۔دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ صرف ادنیٰ درجہ کی مصنوعات بنائی جارہی ہیں۔

اب اگربڑی صنعتیں نہیں لگیں گی،توملکی ترقی کی شرح کیونکراوپرکی طرف جائے گی۔نتیجہ بالکل سادہ سا ہے۔ نوجوان طبقے کی اکثریت نجی ملازمتوں سے محروم رہتی ہے۔اب سرکار تواتنابوجھ برداشت کرہی نہیں سکتی کہ ہر ایک کوباعزت ملازمت دے پائے۔چنددن قبل ایک ادھیڑعمرصاحب تشریف لائے۔تعارف پربتانے لگے کہ کسی نجی اسکول کے انتظامی اموردیکھ رہے ہیں۔سرسری سی باتیں کرنے کے بعدکہنے لگے کہ انھوں نے امریکا سے جہازاُڑانے کالائسنس حاصل کررکھاہے۔جوانی میں جھنگ سے امریکا گئے اورپوری تربیت حاصل کرکے پاکستان آگئے۔پی آئی اے میں نوکری کی درخواست دی تومشورہ دیاگیاکہ کوئی تگڑی سفارش لے کرآئیں۔یقین فرمائیے،سفارش تلاش کرتے کرتے پندرہ سال گزر گئے۔طویل عرصے کے بعدملک کے زمینی حقائق سمجھ آئے تووقت گزرچکاتھا۔کسی بھی ائیرلائن میں عمرکی وجہ سے نوکری نہیں مل سکتی تھی۔

مجبوراًایک اسکول میں نوکری کرلی۔آج تک اس پرگزاراہورہاہے۔یہ شخص کس کس قیامت سے گزراہوگا،یہ گمان کرنامشکل ہے۔مگریہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں۔ہمارے ملک میں ہر دوسرا انسان بیروگارہے۔اگریہی نوجوان اب ملک سے باہر جانے پرمصرہیں،تویہ ان کی مجبوری ہے۔حالات کاجبربھی اورمنافق معاشرے کی اصل تصویربھی۔پڑھے لکھے طبقے کے متعلق عرض کررہاتھا۔اَن پڑھ طبقہ توپیداہی بیروزگاری کے جہنم میں ہوتاہے اورشائدمرتا بھی اسی جہنم میں ۔کسی گاؤں ،قصبہ،گوٹھ یامحلہ میں چلے جائیے۔درجنوں آدمی بالکل فارغ سڑک کے کنارے بیٹھے نظرآئینگے۔دکانوں کے تھڑوں پربیٹھے باتیں کررہے ہوں گے۔یہ تھڑے ان کی زندگی کی وہ ناکام بلندی ہے جوہمارے نظام نے ان کی قسمت میں لکھ ڈالی ہے۔یہ شخص اگرکسی ایجنٹ کو پیسے دیکرملک سے باہرجاناچاہتے ہیں تویہ فطری بات ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ یہ پیدل میلوں چل کرمغربی دنیا میں خواب خریدنے جاتے ہیں۔ناقص کشتیوں پر سمندر عبور کرنے کی مہم جوئی کرتے ہیں۔اکثریت توویسے ہی سمندربردہوجاتی ہے۔چندفیصدجویورپ پہنچ پاتے ہیں وہ بھی وہاں سادہ سی زندگی گزارتے ہیں۔ بیروزگاری وہ آگ ہے جس سے اس ملک کاہرگھرجل رہا ہے۔ نوجوانوں کے خواب اکثراوقات خواب ہی رہتے ہیں۔ بیروزگاری پرلکھنے کے لیے ایک کتاب بھی کم ہے۔ کیا لکھوں۔اس معاشرے کے تقریباًہرگھرکی ایک جیسی کہانی ہے۔

دوسری بہت بڑی وجہ کرپشن ہے۔پاکستان میں کرپشن کتنی ہے۔اسکاندازہ مختلف ماہرین لگاچکے ہیں۔ دشمن ملکوں نے اتنانقصان نہیں پہنچایا،جتنالالچ نے ہمیں بربادکیاہے۔ پورانظام مفلوج ہو چکا ہے۔لوگوں کے ذہن میں ایک تاثربٹھایاجاچکاہے کہ سرکاری شعبہ بہت کرپٹ ہے، یہ الزام کافی حدتک درست ہے۔ مگر پاکستان کانجی شعبہ،سرکاری شعبہ سے زیادہ خونخوار اور کرپٹ ہے۔دونوں شعبوں کاموازنہ کریں تو اندازہ کرنا مشکل ہوجائیگاکہ کرپشن کی دوڑمیں کون پہلے نمبر پر ہے۔ سرکاری یانجی شعبہ۔پولیس کے کانسٹیبل کے چارپانچ سو یا ہزارروپے ہرتنقیدکانشانہ بنتے ہیں۔پٹواری یاپٹوارکے نظام کوہروقت گالیاں دی جاتی ہیں۔

مگرکیاکسی نے نجی شعبہ کی اس دیومالائی کرپشن کوسامنے لانے کی جرات کی ہے،جوہمارے نجی شعبہ میں اَن دیکھے قانون کادرجہ بن چکی ہے۔برائی توبرائی ہے۔خواہ وہ کسی بھی شعبہ میں ہو۔ بھول جائیے کہ ہماراملک کرپشن کے بین الاقوامی انڈکس میں کس درجہ پر ہے۔کیایہ تلخ سچ نہیں کہ رشوت دیے بغیرکہیں بھی کوئی کام نہیں ہوتا۔معاف فرمائیے۔رشوت صرف پیسے کی حدتک نہیں ہوتی۔اس کے دیگرپہلوبھی ہیں۔ جن پر ہمارے معاشروں میں بات کرنا معیوب سمجھاجاتا ہے۔پھرگزارش کرونگاکہ انسانی کمزوریوں میں پیسے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔یہ سب کچھ ہمارے سماج میں عام ہے۔مگرمانتاکوئی بھی نہیں۔کرپشن کسی سیاسی پارٹی، کسی لیڈر،کسی طبقہ تک محدودنہیں۔اوپرسے لے کرنیچے تک بالکل ایک جیساحال ہے۔بدعنوانی ایک بہت مضبوط فصیل ہے جواسے عبورنہیں کرپاتے، ملک چھوڑنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔کرپشن اس ملک سے بھاگنے کی دوسری بہت بڑی وجہ ہے۔

لاء اینڈآرڈرکی طرف آئیے۔یہ کسی بھی حکومت کا بنیادی فرض ہے۔ریاستیں قائم ہی مضبوط لاء اینڈآرڈرکی بنیادپرہوتی ہیں۔ہمارے ملک میں یہ بنیادمکمل طورپرہل چکی ہے۔کیاوجہ ہے کہ جن قائدین کواپنے ملک میں درجنوں یاسینکڑوں محافظوں کی ضرورت ہوتی ہے، لندن اورنیویارک میں بڑے اطمینان سے پیدل پھرتے ہیں۔ عام آدمیوں کی طرح شاپنگ کرتے ہیں۔ ریسٹورنٹ میں کھاناکھاتے ہیں۔بنیادی وجہ وہ آہنی نظم وضبط ہے جس نے مغربی معاشروں کومحفوظ کررکھاہے۔یہ نہیں کہ وہاں جرائم نہیں ہوتے،ہوتے ہیں۔مگران کاسدِباب کیا جاتا ہے۔

ملک کے کسی بھی بڑے شہرمیں چلے جائیں۔کسی دیہات میں چلے جائیں۔ایک شکایت ضرورملے گی،کہ جرائم حددرجہ بڑھ گئے ہیں۔کیوں۔دوبارہ عرض کرونگا کہ جرائم کوجڑسے اُکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس کوئی قابل اعتمادفورس موجودنہیں ہے۔اگرملزم پکڑابھی جائے تو آگے ایک بھیانک عدالتی نظام ہے جس میں سب کچھ ہے۔مگرفوری انصاف نہیں ہے۔کراچی میں کسی سے پوچھ لیجیے۔موبائل چوری کی شکایت کریگا۔اب یہ وباء لاہورمیں بھی عام ہے۔اغواء برائے تاوان بھی حددرجہ عام ہے۔ایسی دولت کاآپ کیاکرینگے،جوآپ کو مزید غیرمحفوظ کردیتی ہے۔نتیجہ سامنے ہے۔دولت مند ہر طریقے سے غیرمحفوظ ہونے کے بعدسرمایے سمیت ملک چھوڑنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔

مجموعی طورپرہماری ریاست کوہم لوگوں نے بہت محنت بلکہ جدوجہدسے ناکام بنانے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ہر طبقہ نے اس مشکل کام میں اپناحصہ ڈالا ہے۔ کسی نے بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی۔اب اگرکسی کے پاس روزگارنہ ہو،اسے انصاف بھی نہ ملے۔اگرکامیاب ہوجائے تومزیدغیرمحفوظ ہوجائے۔ہرطرف لوگ اس سے رشوت لینااپناحق سمجھیں تواس کامیاب یا ناکام آدمی کے پاس کیا راستہ رہ جاتاہے۔ان حالات میں سب سے شریفانہ فیصلہ ملک سے ہجرت کاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں