آئین کی توہین
سندھ حکومت اس معاملے میں وفاقی قوانین کی سوچی سمجھی مزاحمت کررہی ہے
سپریم کورٹ نے جب پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ دیا، مسلم لیگ ن کی قیادت نے اسے ''فتح'' سے تعبیر کرکے جشن منایا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ یہ طرز عمل حقیقت سے نظریں چرانے کی علامت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس کے باوجود شریف خاندان جس طرح بغیر حیلہ سازی کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا، اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ تفتیش کا آغاز ہوا تو اصل صورت حال سامنے آنا شروع ہوئی۔ مسلم لیگ ن جے آئی ٹی کو اب نشانے پر رکھے ہوئے ہے اور اس سے بھی دوقدم آگے، عدالت کے خلاف بھی زہر اگلا جارہا ہے۔ میڈیا کا ایک مخصوص حلقہ حقائق اور افسانوں کو گڈ مڈ کر کے جے آئی ٹی کارروائی کو متنازعہ بنانے میں مصروف ہے۔
عام طور پر دھیما لہجہ رکھنے والے اسحاق ڈار کی شعلہ بیانی حیرت انگیز تھی۔ ان کے رویے سے اس عوامی تاثر کو تقویت ملی ہے کہ کچھ تو ایسی بات ہے، شریف خاندان، جس سے اب خوف زدہ ہے۔ مریم نواز نے بھی سیاسی انتقام اور ''خفیہ ہاتھ'' کی سازشوں ہی کا حوالہ دہرایا۔ اگرچہ انھوں نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد صحافیوں کے سوالات کا جواب نہیں دیا، لیکن میڈیا سے ان کی گفتگو سیاسی کرئیر کا متاثر کُن آغاز رہا۔ ان کی اتالیق جگنو محسن کو اپنی ہونہار شاگرد پر فخر ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم نے لندن میں جے آئی ٹی کو ''مذاق، کامیڈی سرکس'' قرار دیا تھا۔ اس بیان کو نہال ہاشمی کی دھمکیوں سے ملا کر پڑھا جائے جو انھوں نے جے آئی ٹی کے ارکان اور عدلیہ کو دی تھیں اور کہا تھا''ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے''؟۔ اگر کسی عدالتی اہل کار کو اس کی ذمے داریاں ادا کرنے سے روکا جائے تو اسے بھی توہین عدالت تصور کیا جاتا ہے اور سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر بننے والی یہ جے آئی ٹی بھی عدالتی عملے ہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس انداز میں آج عدلیہ کو آنکھیں دکھائی جارہی ہیں، دو دہائی قبل مسلم لیگ ن کا سپریم کورٹ پر حملہ یاد آتا ہے ۔ یاد رہے سپریم کورٹ 1997میں اس وقت دو حصوں میں بٹ گئی تھی جب جسٹس سعید الزماں صدیقی کو جسٹس سجاد علی شاہ کی مسند پر بٹھا دیا گیا تھا۔
سعد رفیق کا دعویٰ کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف پاکستان میں پاناما کی دستاویز کو سنجیدگی سے لیا گیا اور منتخب وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو عدالتی کارروائی میں الجھایا جارہا ہے۔کیا سعد رفیق اتنے سادہ ہیں۔ پاناما پیپرز سے عالمی سطح پر کیا ہنگامہ برپا نہیں ہوا؟ آئس لینڈ کا وزیر اعظم آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے الزام پر مستعفی ہوا۔ آرمینیا میں اعلیٰ قانونی عہدے پر فائز افسر نے استعفیٰ دیا، اسپین کے وزیر صنعت و توانائی کو رخصت کیا گیا۔ اسی طرح آسٹریا میں سرکاری بینک کے سربراہ کو عہدے سے برطرف کیا گیا۔
جس طرح جے آئی ٹی کی کارروائی کو تذلیل کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس طرز عمل سے آئین کی بے توقیری ہوگی۔
زرداری اور ان کے ہمنوا اپنی جوابدہی کسی صورت برداشت نہیں کرتے اسی لیے قومی احتساب آرڈیننس کی منسوخی کے لیے قانون سازی کرائی گئی لیکن وفاقی ساخت رکھنے والے ریاستی ڈھانچے میں ایسا کوئی بھی اقدام آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔
اٹھارویوں ترمیم کی گمراہ کُن تشریحات کرنے کی کوششوں کے باوجود اس میں فراہم کی گئی قانون سازی کی فہرست بالکل واضح ہے۔ اس میں صوبوں کی انتظامی حدود اور اداروں سے متعلقہ اختیارات بیان کیے گئے ہیں لیکن احتساب سے متعلقہ قوانین کے لیے دفعہ 147ہی کا اطلاق ہوگا۔ عدلیہ سے نالاں سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے سینیئر پولیس افسران کی تعیناتی کا اختیار بھی واپس لے لیا ہے۔ اے ڈی خواجہ کا ''جرم'' صرف اتنا ہے کہ وہ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکاری ہیں۔
فیڈرل لیجس لیٹیو لسٹ کے سیریل 32میں احتساب کے بین الاقوامی معیارات کو پورا کرنے کے اختیارات وفاقی حکومت کو دیے گئے ہیں، اس میں صوبوں کا ذکر نہیں۔اقوام متحدہ کا بدعنوانی کے خلاف کنوینشن (UNCAC)کی دفعہ 6پاکستان کی وفاقی حکومت کو انسداد بدعنوانی کے لیے اداروں کے قیام، پالیسی سازی، معلومات کی فراہمی اور آزادانہ احتساب کے لیے ضروری اقدامات کا پابند بناتی ہے۔ لیجس لیٹیو لسٹ کے فورتھ شیڈیول(دفعہ 7شق4) میں سیریل 56کے مطابق اس حوالے سے قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ حالاں کہ شیڈیول 6میں صدر پاکستان کی منظوری کے بغیر کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی لیکن اٹھارہویں ترمیم ایکٹ 2002میں سیکشن 102 میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی کو وفاقی سطح پر کوئی بھی ایکٹ ترمیم یا منسوخ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
سیریل 26کے مطابق قومی احتساب آرٹیننس قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد تاحال موجود ہے۔ پاکستان کے تمام شہری اور وہ افراد جو پاکستان میں خدمات انجام دے رہے ہوں یا دے چکے ہوں، بشمول فاٹا کے، سیکشن 4 کے مطابق اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اسی طرح آرٹیکل 143(وفاقی و صوبائی قوانین میں تناقص) اپنی جگہ موجود ہے جس کے مطابق اگر صوبائی اسمبلی کی جانب سے کی جانے والی کوئی بھی قانون سازی پارلیمنٹ کے کسی اقدام، جس کا وہ اختیار رکھتی ہو، سے متناقص ہوگی یا لیجس لیٹیو لسٹ میں شامل کسی پہلے سے موجود قانون سے متناقص ہوگی تو اس صورت میں چاہے پارلیمنٹ کا اقدام صوبائی اسمبلی کے اقدام سے پہلے ہو یا بعد میں، بہر صورت اس تناص کی حد تک صوبائی اسمبلی کا اقدام منسوخ تصور ہوگا، اور اس حوالے سے پہلے ہی موجود قانون کا اطلاق ہوگا۔
دفعہ 142بی میں صوبائی اسمبلی کو فوجداری قوانین میں ترمیم کا جو اختیار دیاگیا ہے وہ دفعہ 143سے متصادم نہیں، کیوں کہ یہ دفعہ فوجداری معاملات میں قانونی تناقص کی بابت ہے۔ 2003میں سپریم کورٹ اسفندیار بنام ریاست مقدمے اور بعد ازاں 2013 کے فیصلوں میں قومی احتساب آرڈیننس کی توثیق کرچکی ہے اور نظر ثانی نہ ہونے تک اس فیصلے کو قانون تصور کیا جائے گا۔
سندھ حکومت اس معاملے میں وفاقی قوانین کی سوچی سمجھی مزاحمت کررہی ہے۔ سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بجا طور پر جنرل قمر باجوہ نے ''عوامی مناصب پر فائز'' افراد کے احتساب کا تذکرہ کیا ۔ ''احتیاط علاج سے بہتر ہے'' کا اصول پیش نظر رہے۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے، ایک دن پہلے ہی قومی احتساب آرڈیننس سندھ اسمبلی میں منسوخ کیا گیا، لیکن ایپکس کمیٹی میں وزیر اعلیٰ خاموش رہے۔ کوئی جائے اور گورنر سندھ زبیر عمر کو آئین کی دفعہ 6کے اثرات سے آگاہ کرے۔
عام طور پر دھیما لہجہ رکھنے والے اسحاق ڈار کی شعلہ بیانی حیرت انگیز تھی۔ ان کے رویے سے اس عوامی تاثر کو تقویت ملی ہے کہ کچھ تو ایسی بات ہے، شریف خاندان، جس سے اب خوف زدہ ہے۔ مریم نواز نے بھی سیاسی انتقام اور ''خفیہ ہاتھ'' کی سازشوں ہی کا حوالہ دہرایا۔ اگرچہ انھوں نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد صحافیوں کے سوالات کا جواب نہیں دیا، لیکن میڈیا سے ان کی گفتگو سیاسی کرئیر کا متاثر کُن آغاز رہا۔ ان کی اتالیق جگنو محسن کو اپنی ہونہار شاگرد پر فخر ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم نے لندن میں جے آئی ٹی کو ''مذاق، کامیڈی سرکس'' قرار دیا تھا۔ اس بیان کو نہال ہاشمی کی دھمکیوں سے ملا کر پڑھا جائے جو انھوں نے جے آئی ٹی کے ارکان اور عدلیہ کو دی تھیں اور کہا تھا''ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے''؟۔ اگر کسی عدالتی اہل کار کو اس کی ذمے داریاں ادا کرنے سے روکا جائے تو اسے بھی توہین عدالت تصور کیا جاتا ہے اور سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر بننے والی یہ جے آئی ٹی بھی عدالتی عملے ہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس انداز میں آج عدلیہ کو آنکھیں دکھائی جارہی ہیں، دو دہائی قبل مسلم لیگ ن کا سپریم کورٹ پر حملہ یاد آتا ہے ۔ یاد رہے سپریم کورٹ 1997میں اس وقت دو حصوں میں بٹ گئی تھی جب جسٹس سعید الزماں صدیقی کو جسٹس سجاد علی شاہ کی مسند پر بٹھا دیا گیا تھا۔
سعد رفیق کا دعویٰ کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف پاکستان میں پاناما کی دستاویز کو سنجیدگی سے لیا گیا اور منتخب وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو عدالتی کارروائی میں الجھایا جارہا ہے۔کیا سعد رفیق اتنے سادہ ہیں۔ پاناما پیپرز سے عالمی سطح پر کیا ہنگامہ برپا نہیں ہوا؟ آئس لینڈ کا وزیر اعظم آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے الزام پر مستعفی ہوا۔ آرمینیا میں اعلیٰ قانونی عہدے پر فائز افسر نے استعفیٰ دیا، اسپین کے وزیر صنعت و توانائی کو رخصت کیا گیا۔ اسی طرح آسٹریا میں سرکاری بینک کے سربراہ کو عہدے سے برطرف کیا گیا۔
جس طرح جے آئی ٹی کی کارروائی کو تذلیل کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس طرز عمل سے آئین کی بے توقیری ہوگی۔
زرداری اور ان کے ہمنوا اپنی جوابدہی کسی صورت برداشت نہیں کرتے اسی لیے قومی احتساب آرڈیننس کی منسوخی کے لیے قانون سازی کرائی گئی لیکن وفاقی ساخت رکھنے والے ریاستی ڈھانچے میں ایسا کوئی بھی اقدام آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔
اٹھارویوں ترمیم کی گمراہ کُن تشریحات کرنے کی کوششوں کے باوجود اس میں فراہم کی گئی قانون سازی کی فہرست بالکل واضح ہے۔ اس میں صوبوں کی انتظامی حدود اور اداروں سے متعلقہ اختیارات بیان کیے گئے ہیں لیکن احتساب سے متعلقہ قوانین کے لیے دفعہ 147ہی کا اطلاق ہوگا۔ عدلیہ سے نالاں سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے سینیئر پولیس افسران کی تعیناتی کا اختیار بھی واپس لے لیا ہے۔ اے ڈی خواجہ کا ''جرم'' صرف اتنا ہے کہ وہ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکاری ہیں۔
فیڈرل لیجس لیٹیو لسٹ کے سیریل 32میں احتساب کے بین الاقوامی معیارات کو پورا کرنے کے اختیارات وفاقی حکومت کو دیے گئے ہیں، اس میں صوبوں کا ذکر نہیں۔اقوام متحدہ کا بدعنوانی کے خلاف کنوینشن (UNCAC)کی دفعہ 6پاکستان کی وفاقی حکومت کو انسداد بدعنوانی کے لیے اداروں کے قیام، پالیسی سازی، معلومات کی فراہمی اور آزادانہ احتساب کے لیے ضروری اقدامات کا پابند بناتی ہے۔ لیجس لیٹیو لسٹ کے فورتھ شیڈیول(دفعہ 7شق4) میں سیریل 56کے مطابق اس حوالے سے قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ حالاں کہ شیڈیول 6میں صدر پاکستان کی منظوری کے بغیر کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی لیکن اٹھارہویں ترمیم ایکٹ 2002میں سیکشن 102 میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی کو وفاقی سطح پر کوئی بھی ایکٹ ترمیم یا منسوخ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
سیریل 26کے مطابق قومی احتساب آرٹیننس قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد تاحال موجود ہے۔ پاکستان کے تمام شہری اور وہ افراد جو پاکستان میں خدمات انجام دے رہے ہوں یا دے چکے ہوں، بشمول فاٹا کے، سیکشن 4 کے مطابق اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اسی طرح آرٹیکل 143(وفاقی و صوبائی قوانین میں تناقص) اپنی جگہ موجود ہے جس کے مطابق اگر صوبائی اسمبلی کی جانب سے کی جانے والی کوئی بھی قانون سازی پارلیمنٹ کے کسی اقدام، جس کا وہ اختیار رکھتی ہو، سے متناقص ہوگی یا لیجس لیٹیو لسٹ میں شامل کسی پہلے سے موجود قانون سے متناقص ہوگی تو اس صورت میں چاہے پارلیمنٹ کا اقدام صوبائی اسمبلی کے اقدام سے پہلے ہو یا بعد میں، بہر صورت اس تناص کی حد تک صوبائی اسمبلی کا اقدام منسوخ تصور ہوگا، اور اس حوالے سے پہلے ہی موجود قانون کا اطلاق ہوگا۔
دفعہ 142بی میں صوبائی اسمبلی کو فوجداری قوانین میں ترمیم کا جو اختیار دیاگیا ہے وہ دفعہ 143سے متصادم نہیں، کیوں کہ یہ دفعہ فوجداری معاملات میں قانونی تناقص کی بابت ہے۔ 2003میں سپریم کورٹ اسفندیار بنام ریاست مقدمے اور بعد ازاں 2013 کے فیصلوں میں قومی احتساب آرڈیننس کی توثیق کرچکی ہے اور نظر ثانی نہ ہونے تک اس فیصلے کو قانون تصور کیا جائے گا۔
سندھ حکومت اس معاملے میں وفاقی قوانین کی سوچی سمجھی مزاحمت کررہی ہے۔ سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بجا طور پر جنرل قمر باجوہ نے ''عوامی مناصب پر فائز'' افراد کے احتساب کا تذکرہ کیا ۔ ''احتیاط علاج سے بہتر ہے'' کا اصول پیش نظر رہے۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے، ایک دن پہلے ہی قومی احتساب آرڈیننس سندھ اسمبلی میں منسوخ کیا گیا، لیکن ایپکس کمیٹی میں وزیر اعلیٰ خاموش رہے۔ کوئی جائے اور گورنر سندھ زبیر عمر کو آئین کی دفعہ 6کے اثرات سے آگاہ کرے۔