نگران وزیر اعظم پر اتفاق رائے کے امکانات معدوم
حزب اقتداراور حزب اختلاف کے مابین نگران وزیراعظم کے معاملے پر اتفاق رائے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حزب اقتداراور حزب اختلاف کے مابین نگران وزیراعظم کے معاملے پر اتفاق رائے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں اور اس اہم معاملے پر اگر ڈیڈ لاک کی کیفیت برقرار رہی تو یقینی بات ہے کہ دستوری تقاضے کے مطابق نگران وزیراعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔دستوری تقاضا تو یہی تھا کہ قائدایوان اور قائدحزب اختلاف نگران وزیراعظم کے معاملے پر بات چیت کریں گے اور دونوں اطراف سے جو نام دیئے جائیں گے ان پر غور کیاجائے گا۔
اب اگر حکومت نے ایک معاہدے کی روسے منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری کی منشاء اور رضامندی سے نگران وزیراعظم نامزد کرنا ہے تو یقینی بات ہے کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی اور مسلم لیگ(ن) کسی ایسے نام پر اتفاق رائے نہیں کرے گی جس کی ڈاکٹر طاہر القادری تائید کریں گے۔ قائدحزب اختلاف چوہدری نثار علی خان یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے نام پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوگا اور یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کے لیے بھی یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ دنوں بڑے وثوق سے یہ کہاتھا کہ عاصمہ جہانگیر کے نام پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک ڈیل ہوچکی ہے اور عمران خان نے عاصمہ جہانگیر کے نام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے عاصمہ جہانگیر کے نام پر کسی خفیہ ڈیل کی اطلاعات اور قیاس آرائیوںکو بے بنیاد قراردے دیا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کے درمیان نگران وزیراعظم کے معاملے پر مذاکرات کے فوری امکانات نہیں ہیں۔ مارچ کے دوسرے ہفتہ کے آغاز تک نگران سیٹ اپ کے آنے کے قوی امکانات ہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان پارلیمنٹ کا یادگاری گروپ فوٹو سیشن ہوچکا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ نے الوداعی گروپ فوٹو کو ایک خوشگوار روایت قرار دیا ہے، پارلیمنٹ کی آئینی مدت کی تکمیل پر جہاں اکثر ارکان پارلیمنٹ اظہار مسرت اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، وہاں بعض ارکان پارلیمنٹ کے چہرے مغموم بھی نظر آ رہے ہیں،آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال اور سکروٹنی کا عمل آئین کے آرٹیکل 62اور63کے تحت ایک ماہ میں مکمل کرنے کے فیصلے نے موجودہ ارکان پارلیمنٹ میں ایک اضطراب کی لہر بھی پیدا کررکھی ہے۔
ارکان اسمبلی یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس طویل سکروٹنی کے عمل کی وجہ سے وہ بعض اداروں کی بلیک میلنگ کا شکار ہوجائیں گے اور ان کے مخالفین آرٹیکل 62ا ور 63 کی آڑ میں بہت سارے امیدواروں کو انتخابی عمل سے باہر کردیں گے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان پارلیمنٹ بھی سکروٹنی کا عمل ایک ماہ تک جاری رکھنے کے فیصلے پر نالاں ہیں۔ زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ اگر تمام امیدواروں کو آرٹیکل 62اور63 پر پورااترنے کے بعد انتخابی عمل میں حصہ لینا ہے تو ایک اہم رکن پارلیمنٹ کا یہ جملہ درست معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں صرف فرشتے حصہ لیں گے۔ موجودہ تمام ارکان اسمبلی تو آئندہ انتخابی عمل سے باہرہوجائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں ضابطہ اخلاق پر کیسے عملدرآمد ہوگا؟
مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی ہدایت کی روشنی میں ارکان پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا اور بعدازاں الیکشن کمیشن تک مارچ کیا۔ جماعت اسلامی ، جے یوپی نورانی گروپ اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے بھی دھرنا میں شرکت کی۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کی کال پر حزب اختلاف کی دیگر جماعیں بھی الیکشن کمیشن کے ساتھ اظہاریکجہتی کرنے کے لیے دھرنے میں شرکت کریں گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بیشتر حزب اختلاف کی جماعتوں نے دعوت کے باوجود اپنے آپ کو دھرنے سے دور رکھا۔شدید بارش کے باوجود مسلم لیگ(ن) کے بیشترارکان پارلیمنٹ نے دھرنے میں شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمن نے احتجاجاً اس دھرنے میں شرکت نہیں کی۔
ان کا موقف یہ ہے کہ دھرنے کی بجائے اسمبلی کے اندر آواز بلند کی جائے۔ان کی جماعت کا یہ بھی موقف ہے کہ یہ دھرنا غیرضروری ہے پہلے ہی الیکشن کمیشن پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے ہے بعض لوگ یہ کہہ کر بھی مسلم لیگ(ن) کے دھرنے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ کل مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے شیخ الاسلام کے دھرنے اور مارچ کو غیر آئینی اور غیرضروری قراردیاتھا اور آج یہ خود دھرنا دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کے بعض قائدین یہ بھی کہتے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران میاں نوازشریف نے اپوزیشن جماعتوںکو یکجا کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ ان گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران اپوزیشن کا گرینڈ الائنس نہ بن سکا۔اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے دھرنے کے اختتام پر الیکشن کمیشن کے حکام کے ساتھ مذاکرات کیے اور یادداشت پیش کی۔
الیکشن کمیشن نے اظہاریکجہتی کرنے والے رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان اپوزیشن جماعتوں اور الیکشن کمیشن کے حکام کے درمیان بدھ کے روز مذاکرات ہونا طے پائے ہیں جن میں کراچی کی حلقہ بندیوں سمیت دیگر معاملات زیر غور آئیں گے۔تمام سیاسی جماعتیں اگر سیاسی پختگی کا مظاہرہ کریں تو الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی ہر سازش نہ صرف ناکام ہوجائے گی بلکہ الیکشن کمیشن پہلے سے زیادہ مضبوط اور بااختیار ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ چیئرمین نیب ایڈمرل(ر)فصیح بخاری نے سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کیلئے جو خط صدر مملکت کو لکھا ہے اس خط کی پاداش میں وہ خود پھنستے جارہے ہیں۔ چیئرمین نیب اور سپریم کورٹ اب آمنے سامنے ہیں ، توہین عدالت کیس میں چیئرمین نیب کو سزا بھی ہوسکتی ہے جس سے وہ چیئرمین شپ سے ہاتھ دھوسکتے ہیں۔ تفتیشی آفیسر کامران فیصل کی ہلاکت کے کیس کی وجہ سے نیب کے افسران ان دنوں زیرعتاب ہیں۔
اب اگر حکومت نے ایک معاہدے کی روسے منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری کی منشاء اور رضامندی سے نگران وزیراعظم نامزد کرنا ہے تو یقینی بات ہے کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی اور مسلم لیگ(ن) کسی ایسے نام پر اتفاق رائے نہیں کرے گی جس کی ڈاکٹر طاہر القادری تائید کریں گے۔ قائدحزب اختلاف چوہدری نثار علی خان یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے نام پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوگا اور یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کے لیے بھی یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ دنوں بڑے وثوق سے یہ کہاتھا کہ عاصمہ جہانگیر کے نام پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک ڈیل ہوچکی ہے اور عمران خان نے عاصمہ جہانگیر کے نام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے عاصمہ جہانگیر کے نام پر کسی خفیہ ڈیل کی اطلاعات اور قیاس آرائیوںکو بے بنیاد قراردے دیا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کے درمیان نگران وزیراعظم کے معاملے پر مذاکرات کے فوری امکانات نہیں ہیں۔ مارچ کے دوسرے ہفتہ کے آغاز تک نگران سیٹ اپ کے آنے کے قوی امکانات ہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان پارلیمنٹ کا یادگاری گروپ فوٹو سیشن ہوچکا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ نے الوداعی گروپ فوٹو کو ایک خوشگوار روایت قرار دیا ہے، پارلیمنٹ کی آئینی مدت کی تکمیل پر جہاں اکثر ارکان پارلیمنٹ اظہار مسرت اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، وہاں بعض ارکان پارلیمنٹ کے چہرے مغموم بھی نظر آ رہے ہیں،آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال اور سکروٹنی کا عمل آئین کے آرٹیکل 62اور63کے تحت ایک ماہ میں مکمل کرنے کے فیصلے نے موجودہ ارکان پارلیمنٹ میں ایک اضطراب کی لہر بھی پیدا کررکھی ہے۔
ارکان اسمبلی یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس طویل سکروٹنی کے عمل کی وجہ سے وہ بعض اداروں کی بلیک میلنگ کا شکار ہوجائیں گے اور ان کے مخالفین آرٹیکل 62ا ور 63 کی آڑ میں بہت سارے امیدواروں کو انتخابی عمل سے باہر کردیں گے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان پارلیمنٹ بھی سکروٹنی کا عمل ایک ماہ تک جاری رکھنے کے فیصلے پر نالاں ہیں۔ زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ اگر تمام امیدواروں کو آرٹیکل 62اور63 پر پورااترنے کے بعد انتخابی عمل میں حصہ لینا ہے تو ایک اہم رکن پارلیمنٹ کا یہ جملہ درست معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں صرف فرشتے حصہ لیں گے۔ موجودہ تمام ارکان اسمبلی تو آئندہ انتخابی عمل سے باہرہوجائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں ضابطہ اخلاق پر کیسے عملدرآمد ہوگا؟
مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی ہدایت کی روشنی میں ارکان پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا اور بعدازاں الیکشن کمیشن تک مارچ کیا۔ جماعت اسلامی ، جے یوپی نورانی گروپ اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے بھی دھرنا میں شرکت کی۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کی کال پر حزب اختلاف کی دیگر جماعیں بھی الیکشن کمیشن کے ساتھ اظہاریکجہتی کرنے کے لیے دھرنے میں شرکت کریں گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بیشتر حزب اختلاف کی جماعتوں نے دعوت کے باوجود اپنے آپ کو دھرنے سے دور رکھا۔شدید بارش کے باوجود مسلم لیگ(ن) کے بیشترارکان پارلیمنٹ نے دھرنے میں شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمن نے احتجاجاً اس دھرنے میں شرکت نہیں کی۔
ان کا موقف یہ ہے کہ دھرنے کی بجائے اسمبلی کے اندر آواز بلند کی جائے۔ان کی جماعت کا یہ بھی موقف ہے کہ یہ دھرنا غیرضروری ہے پہلے ہی الیکشن کمیشن پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے ہے بعض لوگ یہ کہہ کر بھی مسلم لیگ(ن) کے دھرنے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ کل مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے شیخ الاسلام کے دھرنے اور مارچ کو غیر آئینی اور غیرضروری قراردیاتھا اور آج یہ خود دھرنا دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کے بعض قائدین یہ بھی کہتے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران میاں نوازشریف نے اپوزیشن جماعتوںکو یکجا کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ ان گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران اپوزیشن کا گرینڈ الائنس نہ بن سکا۔اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے دھرنے کے اختتام پر الیکشن کمیشن کے حکام کے ساتھ مذاکرات کیے اور یادداشت پیش کی۔
الیکشن کمیشن نے اظہاریکجہتی کرنے والے رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان اپوزیشن جماعتوں اور الیکشن کمیشن کے حکام کے درمیان بدھ کے روز مذاکرات ہونا طے پائے ہیں جن میں کراچی کی حلقہ بندیوں سمیت دیگر معاملات زیر غور آئیں گے۔تمام سیاسی جماعتیں اگر سیاسی پختگی کا مظاہرہ کریں تو الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی ہر سازش نہ صرف ناکام ہوجائے گی بلکہ الیکشن کمیشن پہلے سے زیادہ مضبوط اور بااختیار ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ چیئرمین نیب ایڈمرل(ر)فصیح بخاری نے سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کیلئے جو خط صدر مملکت کو لکھا ہے اس خط کی پاداش میں وہ خود پھنستے جارہے ہیں۔ چیئرمین نیب اور سپریم کورٹ اب آمنے سامنے ہیں ، توہین عدالت کیس میں چیئرمین نیب کو سزا بھی ہوسکتی ہے جس سے وہ چیئرمین شپ سے ہاتھ دھوسکتے ہیں۔ تفتیشی آفیسر کامران فیصل کی ہلاکت کے کیس کی وجہ سے نیب کے افسران ان دنوں زیرعتاب ہیں۔