قبائلی جرگہ کے ذریعے طالبان سے مذاکرات…

امکان ہے کہ جو قبائلی جرگہ جے یو آئی (ف)نے تشکیل دیا ہے اسے ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

طالبان نے بھی مذاکرات کے لیے جن تین شخصیات سے ضمانت مانگی ہے ان میں مولانا فضل الرحمان بھی شامل ہیں ۔ فوٹو: پی پی آئی

طالبان کی جانب سے مذاکرات کے لیے تازہ ترین پیشکش اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہے کہ مرکز میں حکومت کی اتحادی اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار پارٹی اے این پی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اے پی سی بلانے اور مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے حوالے سے جو کوششیں کررہی ہے۔

ان میں بھی بات جے یو آئی (ف)پر ہی آکر کر ٹھہری ہے اور اس بات کا بڑا واضح امکان موجود ہے کہ جو قبائلی جرگہ جے یو آئی (ف)نے تشکیل دیا ہے اس جرگے کو ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے استعمال کیاجائے گا جس پر اے این پی اصولی طور پر اتفاق کرچکی ہے تاہم چونکہ اے این پی آل پارٹیز کانفرنس بلانے جارہی ہے جو اسی ماہ کے دوسرے عشرے میں منعقد ہونے جارہی ہے اس لیے اے این پی کی خواہش ہے کہ اے پی سی میں شریک ہونے والی تمام پارٹیوں کا بھی اس سلسلے میں اتفاق ضروری ہے اور ان کے اتفاق کے بعد ہی مذکورہ قبائلی جرگہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے استعمال کیاجائے تاکہ اس جرگہ کی جانب سے کیے جانے والے مذاکرات کو بھی تمام سیاسی قوتوں کی سپورٹ حاصل ہو اور ان مذاکرات کے نتیجے میں جو بات چیت ہو وہ بھی متفقہ طور پر قبول کی جاسکے ،طالبان نے بھی مذاکرات کے لیے جن تین شخصیات سے ضمانت مانگی ہے ان میں میاں نواز شریف اور سید منور حسن کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن شامل ہیں ۔

انہی سطور میں کہا گیا تھا کہ مذہبی جماعتوں کا قبائلی علاقوں میں اپنا ووٹ بنک بھی موجود ہے اور اثرورسوخ بھی اور اسی بنیاد پر مذہبی جماعتوں کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے فرنٹ پر رکھنا انتہائی مناسب اقدام ہوگا کیونکہ اس طریقہ سے معاملات بہتر انداز میں طے پاسکتے ہیں ،مولانا فضل الرحمٰن مذکورہ قبائلی جرگہ کے ذریعے ویسے ہی اے این پی کے ساتھ آکھڑے ہوئے ہیں اور اگر اے پی سی اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ مذکورہ جرگہ ہی کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں تو اس صورت میں مولانا فضل الرحمٰن اس جرگہ کے توسط سے سارے معاملات میں پوری طرح شامل رہیں گے کیونکہ اس جرگہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خود ہی ہیں ،میاں نواز شریف اس سلسلے میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں اس کا پتا بھی جلد ہی چل جائے گا جبکہ سید منور حسن تو مذاکرات کی بھی بات نہیں کرتے کیونکہ بقول ان کے مذاکرات دشمنوں کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور طالبان دشمن نہیں ،ان کی چند شکایات ہوں گی جن کا ازالہ کیاجائے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں اور اگر ایسی صورتحال بنتی ہے تو جماعت اسلامی بھی پیچھے نہیں رہے گی کیونکہ یہ معاملہ قیام امن اور پوری قوم کے تحفظ کا ہے اور ایسے مرحلہ پر کہ جس میں مذاکرات اور قیام امن کے عمل کے حوالے سے جماعت اسلامی کے کردار کی ضرورت ہوئی ،جماعت اسلامی کیوں کر پیچھے رہ سکتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ جبکہ جے یو آئی سارے معاملے میں پوری طرح شامل ہو۔


آئندہ عام انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں او رموجودہ حکومتیں اب ایک ماہ اور چند دنوں ہی کی مہمان ہیں یہی وجہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بڑی سرعت کے ساتھ بہت سے معاملات کو نمٹا رہی ہیں تاہم مرکز نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس سنجیدگی اور دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی توقع کی جارہی تھی اس کی ایک وجہ تو ممکنہ طور پر یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ مرکز میں برسراقتدار پیپلز پارٹی ہی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی اس سلسلے میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے جارہی ہے جس کے لیے اس نے پیپلز پارٹی کو بھی اعتماد میں لیا ہوا ہے اور اے این پی یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اس اے پی سی کے نتیجے میں جو کچھ طے کیاجائے گا اس کو صدر ،وزیراعظم اور مرکز کے اداروں کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے انھیں اعتماد میں لیاجائے گا تاکہ جو بھی اقدام کیاجائے وہ بھرپور اعتماد کے ساتھ ہو اس لیے ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی خود کو اس وجہ سے قدرے پیچھے رکھتے ہوئے اے پی سی کے انعقاد اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کا انتظار کررہی ہو تاہم ان معاملات میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور اے این پی کی اے پی سی کا انتظار کیے بغیر مرکز کو اپنے طور پر اس بارے میں اپنے لائن آف ایکشن کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ صورت حال واضح ہوسکے کیونکہ دہشت گردی کا عفریت ایک مرتبہ پھر اپنے پائوں پھیلا رہا ہے اور صرف خیبرپختونخوا ہی کی حد تک بات کی جائے تو دو دنوں کے اندر ہنگو اور لکی مروت میں جو کچھ ہوا ہے وہ انتہائی خطرناک تصویر پیش کررہا ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کی وجہ سے حالات مزید گھمبیر ہوجائیں گے جن سے نمٹنے کے لیے بھی غیرمعمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔

9/11 کے بعد جب سے امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی ہے تب ہی سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بعد میں خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں امن وامان کے حالات خراب ہیں اور اس صورت حال کی وجہ سے پاک فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے مسلسل قبائلی وبندوبستی علاقوں میں مصروف ہیں اور انہی خطرات کی وجہ سے فوج کو اپنے بنیادی نظریئے میں تبدیلی کرتے ہوئے اندرونی خطرات کو اول ترجیح پر لانا پڑا جو یقینی طور پر خطرناک صورت حال کی جانب اشارہ کررہی ہے اور اس وقت خیبر ایجنسی سمیت دیگر قبائلی علاقوں اور صوبہ کے مختلف اضلاع میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش نہ کی گئی تو حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا کیونکہ دوسری جانب امریکہ کے 2014 ء میں افغانستان سے انخلاء کے حوالے کے ساتھ جڑی ہوئی جو کہانیاں سنائی جارہی ہیں، یہ کہانیاں ایسی ہیں جو پاکستان میں حالات کے مزید خراب ہونے کا پتا دے رہی ہیں اور شاید انہی حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اے این پی بھی اسی بات پر مجبور ہوئی کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کو حالات کو بہتر کرنے کے نام پر یکجا کرے ،گوکہ یہ ساری کوششیں بہت تاخیر سے ہورہی ہیں کیونکہ اگر یہ کوششیں پہلے کرلی جاتیں تو بہت سا نقصان نہ ہوتا تاہم کافی تاخیر ہی سے سہی ،یہ کام شروع تو ہوا ہے اور اب یہ سلسلہ رکنے کی بجائے آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ اس بات پر تمام سیاسی جماعتیں بہرکیف متفق ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں کیونکہ اس کے ساتھ کسی ایک پارٹی یا طبقہ کا نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کا مفاد وابستہ ہے اس لیے اس مسلہ کو سب پارٹیوں کو اجتماعی اور قومی مسلہ ہی کے طور پر لینا ہوگا۔

اس وقت تک چونکہ صورت حال واضح نہیں ہے اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے اپنے سیاسی رفیقوں کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکی اور سب ہی پارٹیاں ہوا کا رخ دیکھ رہی ہیں لیکن ان حالات میں پیپلز پارٹی نے سولو فلائٹ کرنے کا ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے جو اس اعتبار سے حیران کن ہے کہ جماعت اسلامی جس انداز سے اے این پی اور پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہے اس کے بارے میں تو مشکل ہی لگتا ہے کہ وہ اے این پی یا پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کی صورت میں بھی اکھٹی ہوگی اور ویسے بھی اس کی کوشش تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن)کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے جاری ہے جبکہ جے یو آئی (ف)کی ضلعی تنظیمیں بھی اپنی قیادت پر واضح کرچکی ہیں کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد سود مند نہیں رہے گا تاہم مسلم لیگ(ن)کے ساتھ انھیں چلنا چاہیے کیونکہ اس کا فائدہ وہ حاصل کرسکتے ہیں ،اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کے پاس انتہائی کم آپشنز رہ جاتے ہیں جن میں سے ایک اے این پی بھی ہے جس کے ساتھ مل بیٹھنے اور اکھٹے الیکشن کے لیے میدان میں اترنے کے امکانات کو پی پی پی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ مسترد کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کی محرومیوں کو دور کرنے اور کھل کر کھیلنے کے لیے اکیلے میدان میں اترنے کی تیاریاں کررہے ہیں لیکن یہ اس وقت کی باتیں ہیں کہ ابھی عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان نہیں ہوا اور نہ ہی اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا ہے اس لیے اے این پی اور پیپلز پارٹی جن کے اس وقت تک اکھٹے الیکشن کے لیے میدان میں اترنے کے امکانات کم ہی نظر آرہے ہیں ،حالات کے جبر اور مرکزی قیادت کے فیصلوں کے تحت کوئی غیر متوقع فیصلہ بھی کرسکتی ہیں ۔
Load Next Story